• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا بیت المقدس کی آزادی صرف فلسطین کا مسئلہ ہے؟

تحریر…مولاناسید حسن ظفر نقوی
آج کل بڑے زور و شور سے ایک بیانیہ اسلامی ممالک میں پروان چڑھایا جا رہا ہے کہ اگر فلسطین کے عوام ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی ایجنڈے کو تسلیم کر لیں تو پھر کسی کو تکلیف نہیں ہونا چاہئے۔ یعنی اگر امریکہ، مغرب اور ان کے کاسہ لیس دیگر مسلم ممالک فلسطینیوں پر خاص طور پر حماس اور جہاد اسلامی پر شدید ترین دبائو ڈال کر انھیں بھوک اور پیاس کی اذیت ناک موت کا شکار بنا کر کسی طرح ہتھیار رکھنے پر مجبور کر دیں، غزہ کے وہ مظلوم جو دو سال سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مدد کے لئے پکار رہے ہیں ، اور کوئی ان کی فریاد کو نہیں پہنچ رہا۔ ان حالات میں اگر وہ بےدم ہو کر گر جائیں، تو پھر دنیا میں کسی کو حق نہیں کہ غزہ کے معاملے میں آواز اٹھائے۔ یہ ہے وہ مکروہ عزائم جن پر سامراجی آلہ کار دن رات کام کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ’’بیت المقدس اور مسجد اقصٰی فلسطینیوں یا غزہ کے لوگوں کا مقامی مسئلہ ہے یا یہ عالم اسلام کا مسئلہ ہے؟‘‘قبلہ اول صرف فلسطینیوں سے تعلق رکھتا ہے یا سارے عالم اسلام سے؟اور پھر اس معاہدے میںصرف اور صرف فلسطینیوں سے ہر حق چھیننے کی بات ہے، کہیں ان غیر قانونی آبادیوں کو یہودیوں سے خالی کرانے کا ذکر ہے جو اسرائیل نے صرف تین سال کے عرصے میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر یہودیوں کے حوالے کی ہیں؟دو ریاستی حل کا سہانا خواب اس وقت بھیانک خواب میں تبدیل ہو جائے گا جب غزہ حماس کو غیر مسلح کر کے بچے کچھے فلسطینیوں کا مقتل بن جائے گا۔
مغرب یہ شیطانی عمل ماضی قریب میں بوسنیا میں انجام دے چکا ہے۔ جب اقوام متحدہ اور اتحادی فوجوں نے بوسنیا کے لوگوں کو امن قائم کرنے کا جھانسا دے کر غیر مسلح کیا اور پھر سرب درندوں کو ان پر چھوڑ دیا گیا ، جس کے نتیجے میں چار لاکھ مرد ،عورتیں اور بچے وحشیانہ انداز میں قتل کئے گئےاورایک لاکھ بچیوں کی آبرو ریزی کی گئی۔ کیا آج تک اسرائیل نے کسی بھی عالمی قانون کی پابندی کی؟ بلکہ اس نے ہر انسانی اقدار کو پامال کیا، اور مسلسل یہ عمل جاری ہے،کیا مغرب نے امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل کے ہر ظلم و بربریت کی مکمل تائید نہیں کی؟ اور آج بھی سارا مغرب اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہے۔
دوسری طرف مسلمان حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ مصر ، اردن، شام اور لبنان کے بارڈر سے غذا تک غزہ کے بھوکے بچوں تک پہنچنے نہیں دے رہے۔ غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں مزاحمتی تحریکیں میدان عمل میں تھیں انھیں مسلمان حکمرانوں ہی کی مدد سے سختی سے کچل کر غزہ کے لوگوں کو بےدست و پا کر دیا گیا۔ ٹرمپ اور نتن یاہو بارہا غزہ کو’’ رئل اسٹیٹ ‘‘بنانے کا اعلان کر چکے ہیں لیکن مسلم حکمرانوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔
تمام عالم اسلام خاص طور پر عرب ممالک کو یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ فلسطین اسرائیل اور امریکہ کا آخری ہدف نہیں، بلکہ گریٹر اسرائیل کے پہلے مرحلے کی تکمیل ہے، شام کے پینتیس سے چالیس فیصد حصے پر اسرائیل نے بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کر لیا ہے، لبنان اس کے جبڑوں میں ہے، قطر پر حملہ اس بات اعلان تھا کہ وہ کہیں بھی اور کسی بھی وقت داخل ہو سکتے ہیں، ہمارے حکمران اس بات پر خوش ہیں کہ امریکہ نے قطر کے دفاع کی ذمہ داری لے لی ہے۔
کیا آج تک امریکہ نے اور اسرائیل نے کسی معاہدے یا وعدے کی پابندی کی ہے۔ یہ لالی پاپ صرف اس لئے دیا گیا ہے کہ وقتی طور پر عربوں کو تسلی دے کر اسرائیل کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اور دنیا میں واحد طاقت جو اسرائیل کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کو معاہدے کا مخالف قرار دے کرتنہا کر کے اس کی طرف قدم بڑھائے جائیں اور کوئی مسلم ملک اس کی حمایت میں آواز نہ اٹھائے۔ پھر سب سے بڑا ہتھیار یعنی پروپیگنڈے کے ہتھیار کو استعمال کر کے ایران کو امن کا دشمن قرار دیا جائے۔بہرحال صورتحال گھمبیر ہے لیکن دنیا بھر کی عوام ان سارے حالات کو سمجھ رہی ہے۔ یقین ہے یہ عوامی رد عمل کچھ نہ کچھ اثر ضرور دکھائے گا ۔ انشاءاللہ
ملک بھر سے سے مزید