اسلام آباد (محمد صالح ظافر) وزیر اعظم شہباز شریف کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک اور ملاقات آج (پیر کی شام) مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں ہونے کا امکان ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار بھی اس ملاقات کا حصہ ہوں گے۔ غزہ کے لیے امن معاہدے کے پہلے مرحلے پر دستخط کرنے کی خاطر، امریکی صدر اور میزبان مصری صدر فتح السیسی کی مشترکہ صدارت میں ہونے والے "امن سربراہی اجلاس" کے موقع پر، ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں یہ ان کی چوتھی ملاقات ہوگی۔ سفارتی ذرائع نے اتوار کی شام یہاں دی نیوز/جنگ کو بتایا کہ وزیر اعظم شہباز، جنہوں نے لاہور میں اپنی پارٹی کے صدر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ شرم الشیخ کے اپنے دورے پر بات کی تھی، سعودی ہم منصب ولی عہد محمد بن سلمان، ترک صدر رجب طیب اردوان، قطری امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان، برطانوی وزیر اعظم سر کیئر اسٹارمر اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس سے بھی مختصر ملاقاتیں کریں گے۔ سربراہی اجلاس کے حاشیے پر ہونے والی یہ تمام ملاقاتیں علاقائی اور بین الاقوامی دونوں طرح کے موضوعات اور دو طرفہ دلچسپی کے امور پر محیط ہوں گی۔ یہ موقع گزشتہ ماہ نیویارک میں ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے بعد عالمی رہنماؤں کا سب سے بڑا اجتماع ثابت ہو سکتا ہے۔ دیگر عالمی رہنما جو اس تقریب میں شرکت کے لیے متوقع ہیں ان میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم، بحرینی بادشاہ حمد بن عیسیٰ الخلیفہ، انڈونیشیا کے صدر پرابوو سوبیانتو، ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز، اطالوی وزیر اعظم جیورجیا میلونی، جرمن چانسلر فریڈرک میرز، فلسطینی صدر محمود عباس اور یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا شامل ہیں۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی مدعو کیا گیا ہے لیکن انہوں نے اپنے جونیئر وزیر کیرتی وردھن سنگھ کو اپنی نمائندگی کے لیے نامزد کیا ہے۔ ذرائع نے اشارہ دیا ہے کہ حالیہ مہینوں میں یہ تیسرا موقع ہے جب مودی نے صدر ٹرمپ کے آمنے سامنے آنے سے گریز کیا۔ امریکی صدر اس سربراہی اجلاس کی قیادت مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کے ساتھ کریں گے جس میں 20 سے زائد ممالک کے رہنما شرکت کریں گے۔ ذرائع نے نشاندہی کی کہ یہ واضح نہیں ہے کہ سربراہی اجلاس خود جنگ کو باضابطہ طور پر کیسے ختم کر سکتا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک جنگ ختم کرنے پر راضی نہیں ہوگا جب تک کہ اسے یقین نہ ہو جائے کہ حماس اب کوئی خطرہ نہیں ہے اور غزہ کی حکمرانی میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اسرائیل کو اس تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا جبکہ حماس بھی اس میں شرکت نہیں کرے گی۔ صدر ٹرمپ سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے مقبوضہ بیت المقدس سے ہوتے ہوئے یہاں آئیں گے ۔ وہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے بات چیت کریں گے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ یہ سربراہی اجلاس علاقے میں اسرائیل کے ساتھ "معمول کے تعلقات کی طرف ایک وسیع تحریک کو بھی فروغ دے سکتا ہے"، جو اسرائیل اور ٹرمپ انتظامیہ کا مشترکہ مقصد ہے۔ صدر ٹرمپ نے ابتدائی طور پر جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی، قطر، یو اے ای، اردن، ترکیہ، سعودی عرب، پاکستان اور انڈونیشیا کے رہنماؤں یا وزرائے خارجہ کو دعوت نامے بھیجے تھے۔ بعد میں امریکی محکمہ خارجہ نے رہنماؤں کے سربراہی اجلاس کے لیے باضابطہ دعوت نامے جاری کیے اور مدعو کیے گئے افراد کی فہرست میں نمایاں طور پر اضافہ کیا جس میں اسپین، جاپان، آذربائیجان، آرمینیا، ہنگری، بھارت، ایل سلواڈور، قبرص، یونان، بحرین، کویت اور کینیڈا شامل ہیں۔