• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر متوازن غذا، مالی مشکلات اور دُہری ملازمتیں نوجوانوں میں ’خاموش ذیابیطس‘ کا سبب

فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مالی پریشانیاں، غیر صحت مند خوراک اور دُہری ملازمتوں کا رجحان نوجوانوں میں ’خاموش ذیابیطس‘ کے پھیلاؤ کا باعث بن رہا ہے۔ 

20 سے 30 سال کی عمر کے افراد میں بغیر علامات کے شوگر عام ہوتی جارہی ہے، جس کا علم اکثر انہیں اُس وقت ہوتا ہے جب وہ دل کی بند شریانوں یا بے قابو بلڈ پریشر کے باعث اسپتال پہنچتے ہیں۔

ماہرین امراضِ ذیابیطس نے بتایا ہے کہ ایمرجنسی وارڈز میں اب باقاعدگی سے ایسے نوجوان مریض لائے جارہے ہیں جن کی متعدد دل کی شریانیں بند ہوتی ہیں اور ٹیسٹ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ برسوں سے ٹائپ 2 ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہیں۔

ماہرین کے مطابق بیماری اکثر بغیر کسی علامت کے کئی سالوں تک خاموشی سے بڑھتی رہتی ہے اور جب تک تشخیص ہوتی ہے تب تک گردوں، خون کی نالیوں اور دیگر اعضا کو نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 85 لاکھ سے زائد افراد تک رسائی حاصل کی گئی، 9.6 لاکھ افراد کے ذیابیطس کے خطرے کو ٹریک کیا گیا جبکہ 4.6 لاکھ مشتبہ مریضوں کو طبی مشاورت سے جوڑا گیا، 3.4 لاکھ سے زائد افراد کو مفت ٹیسٹنگ اور مشاورت فراہم کی گئی۔

ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس خاموشی سے ایک بڑی صحت کی آفت بن چکی ہے، ہر چوتھا پاکستانی ذیابیطس کا شکار ہے، یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے مگر امید کی کرن یہ ہے کہ اگر طرزِ زندگی میں بہتری لائی جائے تو ذیابیطس کو قابو کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹرز کے مطابق وزن گھٹانے والے انجیکشنز کے فیشن نے عوام کی توجہ بلڈ شوگر مانیٹرنگ اور بنیادی احتیاطی تدابیر سے ہٹا دی ہے، پاکستان میں 3.3 کروڑ سے زائد افراد ذیابیطس کے مریض ہیں جبکہ تقریباً اتنی ہی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہیں بیماری کا علم ہی نہیں، بہت سے لوگ فخر سے کہتے ہیں کہ وہ ایک کلو گلاب جامن کھا سکتے ہیں، یہی سوچ آنے والی نسل کو معذوری کی طرف دھکیل رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ موبائل کالر ٹیونز اور نشریاتی پیغامات کے ذریعے ذیابیطس سے آگاہی کی مہم شروع کرے۔

صحت سے مزید