• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً ایک ہفتے تک جاری خونریز جھڑپوں کے بعد دوحہ امن مذاکرات میں دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی پر اتفاق یقیناً ایک اہم پیشرفت ہے۔ جنگ بندی کی یہ تجویز طالبان حکومت نے ثالث ممالک قطر اور ترکی سے کی تھی تاہم جنگ بندی معاہدہ افغانستان کی جانب سے دراندازی نہ ہونے سے مشروط ہے اور معاہدے کے تحت طالبان حکومت اُن دہشت گرد تنظیموں کی حمایت نہیں کرے گی جو پاکستان پر حملوں میں ملوث ہیں۔ پاک افغان مذاکرات کا اگلا دور استنبول میں ہوگا جس میں طے شدہ نکات پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ یاد رہے کہ ایک ہفتے قبل پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان خونریز سرحدی جھڑپیں جنگ کی صورت اختیار کرگئی تھیں اور پاکستان کی جانب سے افغان سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف بھرپور فضائی کارروائی کے نتیجے میں افغان طالبان پاکستان سے مذاکرات پر مجبور ہوئے۔ اطلاعات ہیں کہ پاک فضائیہ کابل پر مزید بڑے حملوں کیلئے بالکل تیار تھی لیکن جب طالبان حکومت کو ممکنہ حملے کی بھنک پڑی تو افغان طالبان نے قطر اور ترکی سے درخواست کی کہ پاکستان کو اس حملے سے روکا جائے، ہم جنگ بندی کیلئے تیار ہیں۔ اگر پاک فضائیہ، کابل پر مزید حملے جاری رکھتی تو آج افغان دارالحکومت، غزہ کا منظر پیش کررہا ہوتا۔

حکومت پاکستان، طالبان حکومت پر شروع دن سے ہی ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کا الزام لگاتی رہی ہے اور پاکستانی حکام متعدد بار اس امر کی نشاندہی کرچکے ہیں کہ افغان سرزمین پر بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہیں بنی ہوئی ہیں جہاں سے پاکستان پر منظم منصوبہ بندی کے تحت دہشت گرد حملے کئے جارہے ہیں جسکے نتیجے میں کئی فوجی افسران اور جوان شہید ہوچکے ہیں مگر طالبان حکومت نے پاکستان کے ان تحفظات پر کوئی توجہ نہ دی اور اس کشیدہ صورتحال میں طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے دورہ بھارت کے دوران افغان سرزمین سے پاکستان پر کئے جانے والے دہشت گرد حملوں سے پاک فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی فوجی تصادم میں بدل گئی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان جس نے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو کئی دہائیوں تک اپنی سرزمین پر پناہ دی اور طالبان قیادت کو افغانستان میں دوبارہ اقتدار تک لانے کی راہ ہموار کی، آج وہی طالبان حکومت،پاکستان کو آنکھیں دکھاکر مودی کی پراکسی بنی ہوئی ہے۔ بھارت جو ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہے، ایک عرصہ سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ بھارت کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان کا مغربی محاذ کھلا رہے اور پاک فوج مغربی سرحد پر افغانستان کے ساتھ جنگ میں مصروف رہے تاکہ بھارت موقع سے فائدہ اٹھاکر پاکستان کے خلاف مشرقی محاذ کھول کر معرکہ حق میں اپنی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لے سکے۔

پاک افغان جنگ بندی معاہدے کی شقیں بظاہر اتنی پیچیدہ نہیں مگر انکے اندر چھپی پیچیدگیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے اگر کسی مسلح گروہ کو ہمسایہ ملک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی تو کسی بھی قسم کی فضائی یا زمینی کارروائی کے بغیر مشترکہ تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے گا اور ثالث ممالک قطر یا ترکی مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اس طرح اگر مستقبل میں پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہوئی تو پاکستان جوابی کارروائی کیلئے افغانستان پر حملہ آور نہیں ہوسکے گا۔ گوکہ طالبان حکومت کا عارضی جنگ بندی پر متفق ہونا اہم پیشرفت ہے مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ افغان حکومت کی یہ کوئی نئی چال یا حکمت عملی تو نہیں کہ وہ وقتی طور پر جنگ بندی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس دوران بھارت سے اسلحہ اور مدد حاصل کرے کیونکہ افغان طالبان کے پاس جدید ہتھیار اور دفاعی ساز و سامان موجود نہیں لیکن وہ بھارت کی طرف سے فراہم کئے گئے اسلحے اور دفاعی ساز و سامان کی بدولت افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں ٹی ٹی پی اور القاعدہ کو پاکستان میں مزید حملوں کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک افغان سرحدی جھڑپوں کے دوران طالبان حکومت کو سب سے زیادہ خوف پاک فضائیہ کی ممکنہ کارروائی سے تھا جو انہیں مذاکرات کی میز پر لایا۔ طالبان حکومت کو فیلڈ مارشل عاصم منیر سے بھی دہشت اور خوف لاحق ہے جو طالبان کی اس گیدڑ بھبکی میں نہیں آتے کہ وہ روس اور امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کو شکست دے چکے ہیں بلکہ جنرل عاصم منیر کسی دبائو میں آئے بغیر ملکی سلامتی کی خاطر دہشت گردوں کے خلاف نبردآزما ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں جس کی حالیہ مثال معرکہ حق میں بھارت کے خلاف پاکستان کی شاندار فتح ہے۔ دوحہ امن معاہدے کے بعد اب بال طالبان کی کورٹ میں ہے، طالبان چاہیں تو دہشت گردوں سے علیحدگی اختیار کرکے ایک اچھے ہمسائے کی طرح رہ سکتے ہیں لیکن اگر طالبان حکومت نے اپنی پرانی روش برقرار رکھی اور دشمن ملک بھارت کی پراکسی بن کر پاکستان پر دوبارہ حملہ آور ہونے کی کوشش کی تو انہیں پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی ذلت آمیز شکست یاد رکھنی چاہئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کی جنگ ہے۔ اگر دنیا نے آج افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیاں روکنے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو کل دہشت گردی کی یہ آگ انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

تازہ ترین