• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنیان المرصوص جنگی حکمت عملی سے آگے کی چیز

تحریر…سلمان احمد
وزیراعظم کے مشیر
7 سے 10 مئی تک، آپریشن "بنیان المرصوص " میں پاکستان نے چھ بھارتی لڑاکا طیارے — جن میں تین رافیل شامل تھے — مار گرائے، درجنوں ڈرون تباہ کیے، اور حیران کن طور پر اپنا ایک بھی طیارہ نہ کھویا۔ بھارت کا جدید S-400 فضائی دفاعی نظام ناکام ہوا، اور دو اہم فضائی اڈے مفلوج ہو گئے، جب کہ کئی اور بھی نشانہ بنے۔
بھارت کے حملے نے 40 پاکستانی شہریوں اور 11 سپاہیوں کو شہید کیا، مگر قوم کا حوصلہ نہ ٹوٹا۔ زندگی معمول کے مطابق چلتی رہی، اور یہ پیغام واضح ہو گیا: جنوبی ایشیا میں اب بھارت کی اجارہ داری محض ایک خواب ہے۔ پاک فضائیہ کے درست نشانے بھارتی فضائی اڈوں کو دہلا چکے تھے — یہاں تک کہ نئی دہلی نے چپ چاپ جنگ بندی کی کوششیں شروع کر دیں۔
رافیل بنانے والی کمپنی "ڈیسالٹ ایوی ایشن" کے حصص میں 7 فیصد کمی آئی، اور کمپنی نے اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے “پائلٹ کی غلطی” کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ اس کے برعکس، چین نے نہ صرف پاکستان کی دفاعی کارکردگی کو سراہا بلکہ اسے پاک-چین دفاعی اتحاد کی کامیابی قرار دیا۔جہاں ڈیسالٹ کے حصص گرے وہیں چینی دفاعی کمپنیوں کے شیئرز 8 فیصد بڑھتے دیکھے گئے — گویا عالمی مارکیٹ نے فیصلہ سنا دیا کہ اب "چینی ٹیکنالوجی ناقص ہے" کا بیانیہ دفن ہو چکا۔
جنگ سے بڑھ کر: پاکستان کی عالمی جیت
یہ عسکری فتح محض آغاز تھی۔ اصل جیت پاکستان کے بدلتے ہوئے عالمی کردار میں نظر آئی — ایک خوداعتماد، باوقار اور بااثر پاکستان ابھرا۔ چند ماہ کے اندرہی ہمیں سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹجک تعاون کا معاہدہ،غزہ جنگ بندی میں کردار اور افغانستان سے اپنی سرحدوں کا احترام منوانے جیسی چیزیں دیکھنے کو ملیں،یہ سب ایک نئے پاکستان کی علامات تھیں — جو امن کا پیامبر بھی تھا اور طاقت کا مظہر بھی تھا
پھردنیا نے بھی رویہ بدل دیا اور امریکا، جو کل تک بداعتمادی کا شکار تھا، اب پاکستان کی قیادت کو "باوقار اور دور اندیش" کہہ رہا تھا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "جوہری جنگ سے بچاؤ" کا کریڈٹ ضرور لیا، مگر دنیا نے سمجھ لیا کہ اصل فہم و فراست اسلام آباد سے آئی۔پاکستان پر امریکی تجارتی محصولات نصف کر دی گئیں، جب کہ بھارت پر ڈبل ہو گئیں۔چین کے ساتھ دفاعی تعاون اور گہرا ہوا، JF-17 بلاک 4 اور J-10C عالمی سطح پر مقبول ہو گئے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان نے ایک ہی وقت میں واشنگٹن، بیجنگ، ریاض اور تہران جیسے متضاد مفادات کے حامل ملکوں کو ساتھ جوڑنے کا کمال کر دکھایا۔حتیٰ کہ سعودی عرب اور ایران — جو اکثر ایک دوسرے کے مخالف نظر آتے ہیں — دونوں نے پاکستان کے "محتاط تحمل" کو سراہا۔ ایران کی تعریف اس وقت آئی جب وہ خود امریکی حملوں سے متاثر ہوا تھا — یہ پاکستان کی نپی تلی سفارت کاری کی روشن مثال تھی۔
شائستہ قیادت، مضبوط ادارے: ایک نئی مثال
22 اپریل کے اس حملے کے بعد جب بھارت نے بغیر ثبوت کے ہمیشہ کی طرح پاکستان پر الزام دھر دیا، تب وزیرِاعظم شہباز شریف نے نہایت متانت سے مذمت کرتے ہوئے تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی، اور دفاعی تیاریوں کو یقینی بنایا۔پارلیمنٹ، صدر، فوج — سب ایک پیج پر۔ یہ وہ ہم آہنگی تھی جو برسوں بعد دیکھنے کو ملی۔ ادھر بھارت کے عوام کو جنگ بندی کا پتہ ٹرمپ کی ٹویٹ سے چلا۔اس بار کی فتح کوئی اتفاق نہیں، بلکہ قیادت کی حکمت، اداروں کی یکجہتی، اور آئینی طرزِ حکمرانی کا نتیجہ تھی۔ وزیرِاعظم نے رہنمائی دی، صدر نے تدبر کا مظاہرہ کیا، فوج نے بےمثال مہارت سے عمل درآمد کیا، اور پارلیمنٹ باخبر اور متحد رہی۔نہ جشن منانے کی شورش، نہ طاقت کے کھیل — بس باوقار خاموشی۔
عالمی میڈیا نے بھی پہچان لیا اور اکنامسٹ نے پاکستان کو ریزیلینٹ پاکستان کا لقب دیا۔ الجزیرہ نے اسےاسلام آباد مومنٹ کہا۔ یوں یہ قوم جو ہمیشہ خود پر شک کرتی رہی ہے اب اپنے آپ اپنے وقار پر فخر کر سکتی ہے۔
مگر یہ لمحہ ایک سوال بھی اٹھاتا ہے — کیا ہم نے سیاست کو ہمیشہ شخصیات کے چشمے سے نہیں دیکھا؟ یہ جیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم کسی ایک فرد یا پارٹی سے نہیں، اداروں کے تسلسل، قیادت کی سنجیدگی، اور قومی یکجہتی سے جیتے۔
اس پورے ہفتے کا سب سے فخر انگیز لمحہ کیا تھا یہ وہ لمحہ تھا جب وزیرِاعظم نے قوم کی طرف سے بھارت کو مخاطب کیا اور کہا"حساب برابر۔ جنگ یا امن، فیصلہ آپ کا۔"اگر اس جملے نے آپ کو جھرجھری نہیں دی، تو شاید کچھ بھی آپ کو ہلا نہیں دے سکتا۔یہی لمحہ ہے — نئے پاکستان کی پہچان۔
ملک بھر سے سے مزید