اسلام آباد ( اے ایف پی ) پاکستان میں خواجہ سرا افراد کیلئے محفوظ سرجری تک رسائی اب بھی مشکل ،رپورٹ کے مطابق2018میں قانونی حق ملنے کے باوجود سماجی دباؤ کے باعث اکثر خواجہ سرا عطائیوں سے آپریشن پر مجبورہیں۔ لاہور میں صرف ایک ڈاکٹر قانونی طور پر ٹرانس خواتین کے لیے بریسٹ سرجری کرتا ہے، وہ بھی خفیہ طور پر، خواجہ سرا افراد پر تشدد کے واقعات میں اضافہ، تنظیم کے مطابق 2022 سے اب تک 56 افراد قتل ہو چکے۔ ملک میںکئی خواجہ سرا خاندانوں کی دھمکیوں، تشدد اور نفرت کے باوجود اپنی شناخت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ 2018 میں خواجہ سرا افراد کو قانونی طور پر جنس کی تبدیلی کی اجازت دے دی گئی تھی، لیکن تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی کمی، علاج کی زیادہ لاگت اور سماجی و مذہبی دباؤ کے باعث یہ عمل اب بھی انتہائی مشکل اور غیر محفوظ ہے۔ کئی ٹرانس افراد مجبوری میں غیر مستند سرجنوں سے خفیہ طور پر آپریشن کرواتے ہیں، جس سے ان کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ لاہور کی ایک ٹرانس خاتون "بنٹی" نے بتایا کہ اس نے قانونی سرجری کرائی مگر اسپتال نے اسے دو گھنٹے بعد اس خوف سے نکال دیا کہ کسی کو علم نہ ہو۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں صرف دو ڈاکٹر ہی کھلے عام قانونی طور پر جنس کی تبدیلی کی سرجری کرتے ہیں۔ سرکاری اسپتال اکثر مذہبی بنیادوں پر مریضوں کو انکار کر دیتے ہیں، جبکہ مذہبی گروہ اس قانون کو "اسلام کے خلاف" قرار دے کر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے افراد کو قانونی اور طبی سہولیات فراہم کرنے سے ان کی زندگی کے معیار اور ذہنی صحت میں نمایاں بہتری آتی ہے۔ تاہم، پاکستان میں خواجہ سرا افراد اب بھی تشدد، دھمکیوں اور سماجی امتیاز کا سامنا کر رہے ہیں — صرف 2022 سے اب تک 56 ٹرانس افراد قتل کیے جا چکے ہیں۔ اس کے باوجود، کئی افراد اپنی شناخت اور تبدیلی کے بعد حاصل ہونے والی خوشی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔