کراچی (اسٹاف رپورٹر )اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کی حراست میں پولیس کے مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے 15 سالہ لڑکے عرفان کا پوسٹ مارٹم جناح اسپتال میں مکمل کر لیا گیا،پوسٹ مارٹم کے مطابق نوجوان کے جسم پر چوٹوں کے نشان پائے گئے ہیں تاہم پوسٹ مارٹم میں لیے گئے نمونوں کا کیمیائی تجزیہ ہوگا، وجہ موت کیمیائی رپورٹ تک محفوظ رکھی گئی ہے، پولیس کا دعویٰ ہے کہ متوفی کی موت تشدد سے نہیں بلکہ دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے،واقعہ کے خلاف جمعہ کی شام ایدھی سینٹر سہراب گوٹھ کے باہر ورثاء اور اہل علاقہ نے متوفی کی لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا جس کے باعث مین راشد منہاس روڈ ٹریفک کے لیے بند ہو گئی اور ٹریفک جام ہو گیا،مظاہرین کا کہنا تھا کہ عرفان کی موت پولیس کے تشدد سے ہوئی ہے اور اس کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات ہیں،پولیس نے متوفی اور اس کے دوستوں کو غیر قانونی حراست میں رکھا ،انہوں نے پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا،متوفی عرفان کے محلے دار اظہر ضیا نے بتایا کہ پولیس گردی کے نتیجے میں ایک بچہ موت کی آغوش میں چلا گیا،انہوں نے بتایا کہ عرفان پنجاب کے علاقے احمد پور شرقیہ میں آنے والے سیلاب کے بعد بفرزون کے بی آر سوسائٹی میں اپنے چچا کے گھر آیا ہوا تھا ، بدھ کی صبح دوستوں کے ہمراہ عائشہ منزل ناشتہ کرنے گیا وہاں سیلفی اور تصاویر بناتے ہوئے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے اہلکاروں نے اسے دیگر دوستوں ناصر ، سلمان اور عمران کے ہمراہ حراست میں لے لیا اور ان کے موبائل فونز چھین کر بند کر دیئے اور بلاجواز تشدد کا نشانہ بنایا ، عرفان گھر کا بڑا تھا اور اس کے دیگر تین چھوٹے بہن بھائی جبکہ والد ضعیف ہیں ، دریں اثنا ایس ایس پی ایس آئی یو امجد احمد شیخ کے مطابق پولیس کو بھی حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے جس کے بعد صورتحال واضح ہو گی،انہوں نے بتایا کہ تین اے ایس آئی سمیت 7 اہلکاروں کو معطل کیا گیا ، واقعہ کی انکوائری کی جا رہی ہے ،معطل ہونے والے اہلکاروں میں اے ایس آئی عابد شاہ، اے ایس آئی عبدالوحید، اے ایس آئی سرفراز، کانسٹیبل ہمایوں، کانسٹیبل فیاض ، کانسٹیبل وقار اور کانسٹیبل آصف علی شامل ہیں، علاوہ ازیں متوفی عرفان ولد رمضان کے ساتھ اٹھائے گئے نوجوان سلمان کا کہنا ہے کہ ہمیں 22 اکتوبر کو پولیس نے عائشہ منزل سے اٹھایا اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر پولیس اہلکار ہم تشدد کرتے رہے۔