کراچی(قاسم عباسی ، عبدالماجد بھٹی)کیا واقعی کپتان تبدیل ہونے سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری آئے گی،پی سی بی نے غیر یقینی صورتحال میں محمد رضوان کو ون ڈے کی کپتانی سے ہٹاکر شاہین شاہ آفریدی کو یہ مشکل ذمہ داری سونپ دی ہے، کیاجارح مزاج شاہین آفریدی بااختیار کپتان بن سکیں گے؟سابق کپتان اور سابق چیف سلیکٹر معین خان کا کہنا ہے کہ روک ٹوک کی گئی تو شاہین کپتانی چھوڑسکتے ہیں ،6 ماہ میں پھر کپتان تبدیل ہوجائیگا، ماضی کے عظیم فاسٹ بولر اور سابق کپتان وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ شاہین آفریدی کی تقرری کا فیصلہ اچھا ہے،گراؤنڈ میں کھلاڑیوں کے ساتھ جارحانہ پن کم کرنا ہوگا،سابق کپتان راشد لطیف کا کہنا ہے کہ محمد رضوان نے پی ایس ایل میچ کے دوران سیروگیٹ کالوگو چھپایا جس سے کچھ لوگ ناراض ہوئے، ذرائع کے مطابق محمد رضوان نے ایک بڑے دارلعلوم سے فتویٰ لینے کے بعد سپرو گیٹ کمپنی کا لوگو لگانے سے انکار کردیا تھا ،پی سی بی نے محمد رضوان کو کپتانی سے ہٹائے جانے سے متعلق کہا ہے کہ ہیڈ کوچ مائیک ہیسن کی شکایت پر ایڈوائزاری پینل نے فیصلہ کیا۔تفصیلات کے مطابق پاکستان کرکٹ میں ایک بار پھر قیادت کی تبدیلی کا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے، محمد رضوان کو ون ڈے کی کپتانی سے ہٹانےکی وجہ سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں - ایک ایسا عہدہ جس پر وہ زیادہ عوامی حمایت کے بغیر تھے ۔بطور کپتان رضوان کا شماریاتی ریکارڈ، اگرچہ غیر معمولی نہیں، مستقل مزاجی کی ایک سطح پیش کرتا ہے جو اس کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ سازگار طور پر موازنہ کرتا ہے۔کیا واقعی کپتان تبدیل ہونے سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔پی سی بی نے غیر یقینی صورتحال میں محمد رضوان کو ون ڈے کی کپتانی سے ہٹاکر شاہین شاہ آفریدی کو یہ مشکل ذمے داری سونپ دی ہے۔شاہین آفریدی اپنی فاسٹ بولنگ اور گراونڈ میں جارحانہ انداز کی وجہ سے مشہور ہیں اور پی سی بی تھنک ٹینک کا خیال ہے کہ وہ اسی جارحانہ اسٹائل سے کپتانی کرکے ٹیم میں نئی روح پھونک دیں گے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا وہ کپتان بن کر مکمل اختیارات حاصل کرسکیں گے۔کیوںکہ ماضی میں بہت سارے کپتانوں کو شکوہ رہا ہے کہ ان کی رائے کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے لیکن شاید شاہین آفریدی کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے؟ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے2027کے ورلڈ کپ میں حصہ لینا ہے۔محمد رضوان سے وائٹ بال ہیڈ کوچ مائیک ہیسن خوش نہیں تھے اس لئے انہیں اختیارات نہ مل سکے ۔کپتان سے محروم ہونا پڑا۔محمد رضوان نےابھی تک پی سی بی کے سینٹرل کنٹریکٹ پر بھی دستخط نہیں کئے ہیں۔پاکستان کے سابق کپتان اور سابق چیف سلیکٹر معین خان کا کہنا اگرشاہین آفریدی کو قیادت دی گئی ہے تو انہیں سپورٹ بھی کرنا چاہیے۔ایسے موقع پر جبکہ پاکستانی کرکٹ غیر یقینی صورتحال سے دوچار کپتان کی تبدیلی سے فرق پڑ سکتا ہے۔کپتان کو سلیکشن کمیٹی کی جانب سے سو فیصد سپورٹ ملنی چاہیے تاکہ وہ اپنے کمفرٹ زون میں رہ کر ٹیم چلائے۔شاہین کا مزاج بھی ایسا ہے کہ اگر ان کے ساتھ روک ٹوک کی گئی تو وہ کپتانی چھوڑسکتے ہیں۔حالات دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ چھ ماہ میں پھر کپتان تبدیل ہوجائے گا۔معین خان نے کہا کہ سلیکٹرز بھی انا کا شکار ہوجاتے ہیں۔جب سلیکٹرز روک ٹوک کرتے ہیں تو کپتان بددل ہوجاتا ہے۔رضوان جائز بات کررہا تھا کہ اسے اس کی مرضی کی ٹیم دی جائے ۔ماضی کے عظیم فاسٹ بولر اور سابق کپتان وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ شاہین آفریدی کی تقرری کا فیصلہ اچھا ہے اسے جلد یا دیر کپتان بننا ہی تھا۔ شاہین کو کھلاڑی کی حیثیت سے جارحانہ دکھانا ہوگا۔کھلاڑیوں سے تعلقات بہتر کرنا ہوں گے۔ جب میں پہلی بار کپتان بنا تھا میں نے یہی غلطیاں کی تھیں۔ ہمیں شاہین کو سپورٹ کرنا ہوگا مجھے نہیں پتہ رضوان کو کیوں ہٹایا گیا لیکن شاہین اس وقت اچھی چوائس ہیں۔ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں رضوان نے 94 میچوں میں 40.39 کی اوسط سے 3,797 رنز بنائے ہیں۔ بحیثیت کپتان، انہوں نے 21 ون ڈے میچوں میں ٹیم کی قیادت کی، جس میں 9 جیتے اور 11 میں شکست ہوئی، ایک میچ نتیجہ خیز نہ ہوسکا،ان کی جیت کا تناسب 43 فیصد ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کی وسیع تر ون ڈے کارکردگی کے تناظر میںیہ اعداد وشمار برے نہیں ہیں۔2024میں رضوان نے 9 ون ڈے میچوں میں 52.80کی اوسط سے 264 رنز بنائے۔ 2025 میں، 11 میچوں میں، انہوں نے36.10کی اوسط سے 292 رنز بنائے ۔ دو سال کے عرصے میں انہوں نے 17 میچوں میں46.33کی اوسط سے 556 رنز بنائے۔تاہم، ان کی آخری تین ون ڈے میں فارم خراب رہی -انہوں نے 69 رنز، ایک نصف سنچری کی مدد سے بنائے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ قیادت کی تبدیلی کا جواز پیش کرنے کے لیےجوجواز پیش کیا گیا وہ مبہم ہے، خاص طور پر دوسروں کی کمزور کارکردگی کی روشنی میں۔پاکستان میں اس وقت تین فارمیٹس کے تین کپتان ہیں۔شان مسعود، اس وقت ٹیسٹ میں پاکستان کی قیادت کر رہے ہیں، انہوں نے14میچوں میں کپتانی کی، جس میں پاکستان نے چار میچ جیتے ہیں جب کہ دس میں پاکستان کو شکست ہوئی ہیں ۔اس کارکردگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ کپتان کی کارکردگی کو پرکھنے کے حوالے سے پیمانے الگ الگ ہیں۔سلمان علی آغا کو محمد رضوان کی جگہ ٹی ٹوئینٹی کا کپتان مقرر کیا گیا ہےان کی کارکردگی بھی محدود اور واجبی ہے 2024-25 میں، انہوں نے چھ ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل میچ کھیلے۔ان کا بیٹنگ اوسط دس کا ہےجبکہ اسٹرائیک ریٹ 79.36ہے۔ 2025 میں سلمان نے 26 میچ کھیلےان کا بیٹنگ اوسط 26.89کا ہے جبکہ اسٹرائیک ریٹ 114.57ہے۔شاہین شاہ آفریدی، جنہیں اب ون ڈے کی کپتانی سونپی گئی ہے، نے اپنی حالیہ کامیابیوں کا زیادہ تر حصہ ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ میں دیا۔ 50 اووزر کے فارمیٹ میں ان کی کارکردگی کی براہ راست عکاسی نہ ہونے کے باوجود ان کی ون ڈے کپتانی کی تقرری ہوئی ہے۔شاہین لاہور قلندرز کو پی ایس ایل کے تین ٹائٹل جتوا چکے ہیں اس ک باوجود انہیں ٹی ٹوئنٹی کے بجائے ون ڈے کا کپتان مقرر کیا گیا۔جنگ اوردی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے، سابق کپتان راشد لطیف نےکہا، "رضوان کو کپتانی سے ہٹانا بھی اسی سلسلے کا ایک حصہ لگتا ہے، کیونکہ اس نے پی ایس ایل میچ سیروگیٹ (بیٹنگ کمپنی) کا لوگو ٹیپ سے ڈھانپ کر میچ میں شرکت کی اس پر کچھ لوگ ناراض ہوئے اور اس کے لیے وہ سزا کا مستحق سمجھا گیا تھا۔ 27 اکتوبر 2024 کو رضوان کوکپتان بنایا گیا،رضوان کی اس حرکت سے بورڈ ناراض ہوا، کچھ عرصے بعدرضوان کو کپتانی کے لئے نامزد کرنےوالےگیری کرسٹن نے استعفیٰ دے دیا ۔اس نمائندے نے رضوان کو پی سی بی سے کپتان کے عہدے سے ہٹانے کے بارے میں تفصیل سے سوال کیا۔ تاہم، دونوں نے دی نیوز کی طرف سے بھیجے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ قومی ٹیم کے نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے ہیڈ کوچ مائیک ہیسن نے پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی کو باضابطہ طور پر خط لکھ کر سیریز کے لیے کپتان کو حتمی شکل دینے کے لیے سلیکشن کمیٹی اور ایڈوائزری کمیٹی کا مشترکہ اجلاس بلانے کی سفارش کی تھی۔چیئرمین محسن نقوی نے خط سلیکشن اور ایڈوائزری کمیٹیوں کو بھجوا دیا جس نے محمد رضوان کو تبدیل کرکے شاہین آفریدی کو کپتان مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ان کے عہدے کی معیاد کتنی ہے اس بارے میں پی سی بی خاموش ہے۔