• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی کا شمار ملک کے مقبول ترین صدور میں ہوتا تھا۔ وہ 2007ءسے 2012ءتک فرانس کے صدر رہے۔ گزشتہ دنوں طویل قانونی جنگ کے بعد فرانسیسی عدالت نے نکولس سرکوزی کو لیبیا سے انتخابی فنڈز وصول کرنے کے الزام میں 5 سال قید اور ایک لاکھ یورو جرمانے کی سزا سنائی۔ فرانس کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے، جب کسی سابق فرانسیسی صدر کو کرپشن کے الزام میں سزا سنائی گئی ہو۔ سرکوزی پر الزام تھا کہ انہوں نے 2007ء میں لیبیا کے صدر معمر قذافی سے ملنے والی رقوم سے اپنی انتخابی مہم چلائی۔ عدالتی فیصلے کے بعد نکولس سرکوزی اپنے حامیوں کے ہمراہ خود جیل پہنچے اور اپنی گرفتاری پیش کی۔

نکولس سرکوزی کے خلاف عدالتی تحقیقات 2013 میں اُس وقت شروع ہوئیں جب لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے اپنے والد کی موت کے دو سال بعد یہ الزام لگایا کہ نکولس سرکوزی نے اُن کے والد سے اپنی انتخابی مہم کیلئے 50 ملین یورو کی خطیر رقم وصول کی اور مزید رقم کی ادائیگیاں سرکوزی کے صدر بننے کے بعد بھی جاری رہیں۔ سیف الاسلام کے نکولس سرکوزی پر الزام لگانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ سرکوزی کو اپنے والد کی موت کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔ یاد رہے کہ 2011 میں لیبیا کی خانہ جنگی میں فرانس نے اہم کردار ادا کیا تھا اور فرانس، معمر قذافی کی حکومت کے خلاف کارروائی کرنے والے بین الاقوامی اتحاد میں پیش پیش تھا۔ اس مقصد کیلئے فرانس نے لیبیا میں فوجی مداخلت کا آغاز2011 میں اُس وقت کیا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے لیبیا میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے پیش نظر فوجی مداخلت کی اجازت دی اور فرانس نے نیٹو کے فضائی حملے کی قیادت کی۔ 20اکتوبر 2011ءکو معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی نے قذافی کے اقتدار کے خاتمے کو فرانس کی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ ہم نے لیبیا میں آمریت کا خاتمہ کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرکوزی جہاں ایک طرف اپنی انتخابی مہم کیلئے معمر قذافی سے بھاری رقوم وصول کرتے رہے، وہاں دوسری طرف اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے معمر قذافی کو ہی راستے سے ہٹادیا مگر معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے 70 سالہ نکولس سرکوزی کو جیل پہنچادیا۔

آج یہ کالم تحریر کرتے وقت مجھے لیبیا کے صدر معمر قذافی سے ہونے والی وہ ملاقات یاد آرہی ہے جب مئی 2006ءمیں وزیراعظم شوکت عزیز کی سربراہی میں لیبیا جانے والے سرکاری وفد میں، میں بھی شامل تھا۔ اس موقع پر مجھے معمر قذافی اور اُن کے بیٹے سیف الاسلام سے ملنے اور انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ وہ وقت تھا جب لیبیا پر معمر قذافی کا راج تھا اور اقتدار پر اُن کی سخت گرفت تھی۔ پاکستانی وفد کے اعزاز میں دیئے گئے عشایئے کے دوران وزیراعظم شوکت عزیز نے معمر قذافی سے مذاقاً کہا کہ ’’آپ پاکستان میں اتنے مشہور ہیں کہ قذافی اسٹیڈیم اور ایک مشہور شاہراہ آپ کے نام سے منسوب ہے، اگر آپ پاکستان میں الیکشن لڑیں تو کامیاب ہوجائیں گے۔‘‘ یہ سن کر معمر قذافی اور وہاں موجود ان کے بیٹے سیف السلام نے مسرت کا اظہار کیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں معمر قذافی نے دل کھول کر مالی مدد کی تھی مگر کہاوت مشہور ہے کہ اچھے وقت میں سب ساتھی ہوتے ہیں اور برے وقت کا کوئی نہیں۔ یہی کچھ معمر قذافی کیساتھ ہوا، ان پر جب برا وقت آیا اور مغربی طاقتیں ان کی مخالف ہوگئیں تو پاکستان میں الیکشن لڑانے والوں نے بھی معمر قذافی کا ساتھ چھوڑ دیا، 2011ءکی خانہ جنگی کے دوران انہیں سڑکوں پر گھسیٹ کر قتل کردیا گیا اور اس دردناک موت پر کسی اسلامی ملک نے آواز تک نہ اٹھائی۔

فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی کے خلاف عدالتی فیصلہ فرانس میں قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کی عکاسی ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ جب عدالتیں سیاسی دبائو سے آزاد ہوں تو کوئی بھی شخصیت خواہ کتنی ہی بااثر کیوں نہ ہو، قانون سے نہیں بچ سکتی۔ پاکستان میں بھی کئی سیاسی شخصیات پر کرپشن کے الزامات سامنے آئے ہیں مگر ہمارے عدالتی نظام میں عدلیہ کا عمل سست اور غیر موثر نظر آتا ہے۔ فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی نے جس طرح خود کو جیل حکام کے حوالے کیا اور ان کے حامیوں نے جلائو گھیرائو کئے بغیر قانون کی پاسداری کی، اس میں پاکستان کیلئے بھی سبق ہے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان پر بھی نکولس سرکوزی کی طرح یہ الزام تھا کہ انہوں نے بیرون ملک سے اربوں روپے پارٹی فنڈ کی مد میں وصول کئے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 3 رکنی بینچ کی جانب سے 2014 سے زیر سماعت فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے میں عمران خان اور ان کی پارٹی کو قصور وار ٹھہرایا گیا۔ فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی نے بھارتی شہری رومیتا سیٹھی سمیت 34 غیر ملکی شہریوں، امریکہ، کینیڈا، ووٹن کرکٹ، ابراج گروپ، آئی پی آئی اور یوایس آئی سے ممنوعہ فنڈز لئے اور 13 اکائونٹس کو پوشیدہ رکھا مگر افسوس کہ یہ کیس اب تک اعلیٰ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اگر عمران خان کو فارن فنڈنگ کیس میں جیل جانا پڑتا تو پاکستان میں ایک اور سانحہ 9 مئی پیش آچکا ہوتا۔

فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی کی سزا نہ صرف عدلیہ کی آزادی اور احتساب کے حوالے سے ایک نظیر پیش کرتی ہے بلکہ یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ اگر ہم اپنے معاشرتی اور سیاسی نظام کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہوگا۔ پاکستان میں جوابدہی کا عمل تب ہی ممکن ہے جب عدلیہ آزاد، عوام بیدار اور سیاستدان شفاف ہوں۔

تازہ ترین