• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیکن ہاؤس اسکول سسٹم کا عالمی نیٹ ورک 4 لاکھ سے زائد طلبہ پر مشتمل، نسرین محمود قصوری

لاہور ( خالد خٹک ) 1975کی بات ہے جب مسز نسرین قصوری نے لاہور میں اپنے دوبیٹوں سمیت 19بچوں کیلئے لاہور میں ایک چھوٹا سا مونٹیسوری اسکول قائم کیا۔ تقریباً پچاس سال بعد، وہی معمولی آغاز آج دنیا کے سب سے بڑے اسکول سسٹمز میں سے ایک — بیکن ہاؤس اسکول سسٹم — میں تبدیل ہو چکا ہے جس کا عالمی تعلیمی نیٹ ورک اب 4لاکھ سے زائد طلبہ پر مشتمل ہے۔جہاں ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ بین الاقوامی...تعلیمی ادارے پاکستان میں اپنے کیمپس کھول رہے ہیں، وہاں بیکن ہاؤس نے کہانی کا رخ بدل دیا۔ یہ ان چند پاکستانی اداروں میں سے ایک ہے جس نے اپنا تعلیمی ماڈل بیرونِ ملک متعارف کرایا، اور فخر سے پاکستانی پرچم کو ملائیشیا، تھائی لینڈ، فلپائن، متحدہ عرب امارات اور عمان میں تعلیم کے میدان میں بلند کیا۔روزنامہ دی نیوز نے بیکن ہاؤس اسکول سسٹم کی گولڈن جوبلی (پچاس سالہ جشن) کے موقع پر مسز نسرین محمود قصوری سے خصوصی گفتگو کی۔ یہ گفتگو بیکن ہاؤس کے 50سال مکمل ہونے اور "اسکول آف ٹومارو" (SOT) کانفرنس کے 25ویں ایڈیشن کے حوالے سے ہوئی، جس میں انہوں نے اپنی نصف صدی پر محیط کامیابی، عزم، ہمت اور تعلیم سے وابستگی کی داستان سنائی۔مونٹیسوری سے ملک بھر اور بیرونِ ملک اسکولوں، کالجز اور ایک یونیورسٹی تک ان کا سفر اس یقین کا مظہر ہے کہ تعلیم انسان کی زندگی بدلنے کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے۔انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ“شروع کرنا آسان نہیں تھا۔ 1970 کی دہائی نجی تعلیم کے لیے سازگار وقت نہیں تھا۔ حکومت کی جانب سے اسکولوں کی نیشنلائزیشن کے بعد لوگ تعلیمی مقاصد کے لیے عمارتیں کرائے پر دینے سے ہچکچا رہے تھے۔ کوئی بھی عمارت کرایے پر دینے پر تیار نہیں تھا۔ انہیں ڈر تھا کہ حکومت قبضہ کر لے گی۔"لیکن ایک ماں کے عزم نے انہیں ہارنے نہیں دیا۔ جب اچھے پری اسکول موجود نہیں تھے، تو انہوں نے خود ایک بنا لیا۔ان کا پہلا اسکول 4 نومبر 1975 کو ایک خوبصورت فرانسیسی نام کے ساتھ کھلا — Les Anges Montessori Academy۔ یہ ادارہ ابتدائی تعلیم کے لیے ایک مثال بن گیا اور اسی نے آگے چل کر بیکن ہاؤس کی بنیاد رکھی۔جب 1978 میں حکومت نے کنڈرگارٹن سے آگے نجی اسکولوں پر پابندی ہٹائی، تو انہوں نے فوراً موقع غنیمت جانا اور Beaconhouse School کا آغاز کیا۔ داخلوں کی لائنیں لگ گئیں، کلاس رومز بھر گئے۔“یہ میری ذہانت نہیں تھی،” وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، “بلکہ اس وقت اچھے نجی اسکولوں کی شدید کمی تھی۔”ان کا سفر تعلیم سے پہلے سیاست کے میدان میں بھی گزرا۔ 1977 میں پاکستان نیشنل الائنس (PNA) تحریک کے دوران، جب ان کے سسر اور شوہر خورشید محمود قصوری سمیت کئی رہنما قید تھے، تو انہیں قیادت سنبھالنی پڑی۔ انہوں نے جلوس نکالے، آنسو گیس سہی، اور نظر بندی بھی جھیلی۔اپنی لگن، محنت اور جذبے سے بیکن ہاؤس ایک وسیع تعلیمی نظام میں تبدیل ہوا۔ مسز قصوری نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے مختلف طبقوں کے لیے مختلف ماڈلز بنائے تاکہ تعلیم سب کے لیے ممکن ہو سکے۔“ہم نے شروع میں ہی سمجھ لیا تھا کہ ایک ہی ماڈل سب کے لیے موزوں نہیں ہو سکتا۔”اعلیٰ فیس والے بیکن ہاؤس کیمپس کے ساتھ، 2002 میں The Educators کا آغاز کیا گیا — ایک فریںچائز نیٹ ورک جو کم لاگت میں معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔بعد میں The New School، Beaconhouse Newlands، Homebridge، United Charter Schools (UCS) جیسے ماڈلز بھی سامنے آئے۔اعلیٰ تعلیم کے لیے Concordia Colleges اور Beaconhouse National University (BNU) قائم کی گئی، جو پاکستان کی پہلی غیر منافع بخش لبرل آرٹس یونیورسٹی مانی جاتی ہے۔مسز قصوری نے اپنی کامیابی کا سہرا اپنی ٹیم کو دیا“ابتدا سے ہی میرے ساتھ بہترین لوگ رہے جنہوں نے اس نظام کو مستحکم بنایا اور اسے قومی و عالمی سطح پر پھیلایا۔”انہوں نے بتایا کہ بیکن ہاؤس کی ایک خاص پہچان اساتذہ کی تربیت ہے — ایک شعبہ جسے پاکستان میں اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔1980 کی دہائی کے وسط میں انہوں نے برطانیہ کے ایک ادارے کے ساتھ اشتراک کیا اور بیکن ہاؤس کے اساتذہ کو تربیت کے لیے وہاں بھیجا۔ بعد میں انہوں نے خود Premier DLC (Diverse Learning Concepts) قائم کیا جو اب ہزاروں اساتذہ کو تربیت فراہم کرتا ہے۔“اساتذہ کی تربیت ہی بیکن ہاؤس کی کامیابی کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔”انہوں نے بتایا کہ شفافیت اور مالی نظم و ضبط کے باعث بیکن ہاؤس کو 1995 میں ورلڈ بینک کے ذیلی ادارے International Finance Corporation (IFC) سے 10 ملین ڈالر کا قرض ملا — جو پاکستان میں کسی نجی اسکول کے لیے اپنی نوعیت کا پہلا موقع تھا۔1998 میں پاکستان پر پابندیاں لگنے کے بعد انہوں نے قرضہ قبل از وقت واپس کر دیا تاکہ خطرہ کم ہو۔“یہ قدم ہماری دیانت داری کی علامت تھا، اور اس کے بعد تمام پاکستانی بینک ہمیں قرض دینے کو تیار ہو گئے۔”آج بیکن ہاؤس ملک کے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔“ہم نے ہمیشہ شفاف طریقے سے کام کیا اور صاف کتابیں رکھیں،” انہوں نے فخر سے کہا۔بیکن ہاؤس نے صرف نجی تعلیمی ادارے ہی نہیں چلائے بلکہ پنجاب کے 50 اور سندھ کے 4 سرکاری اسکول بھی گود لیے ہیں، جنہیں نجی شعبہ-عوامی شراکت (Public-Private Partnership) کے تحت بہتر بنایا گیا۔اگرچہ بیکن ہاؤس کو انگریزی میڈیم اسکول کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن مسز قصوری قومی زبان کی اہمیت پر زور دیتی ہیں:“ہم نے ہمیشہ اردو سے محبت کو فروغ دیا، کیونکہ زبان ہماری شناخت کی بنیاد ہے۔”وہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ طلبہ سماجی ذمہ داریوں کا احساس کریں، قدرتی آفات کے اثرات کم کرنے اور ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات میں حصہ لیں۔ایک ماں کی اپنے بچوں کے لیے بہتر تعلیمی ماحول بنانے کی خواہش سے شروع ہونے والا یہ سفر آج ایک تحریک میں بدل چکا ہے، جس نے پاکستان اور بیرونِ ملک لاکھوں زندگیاں بدل دی ہیں۔مسز نسرین محمود قصوری کی زندگی تعلیم، بااختیاری اور قومی ترقی کے لیے وقف رہی ہے — ایک ایسا وژن جو آنے والی نسلوں کے معلمین اور طلبہ کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
اہم خبریں سے مزید