غیر جمہوری رویوں کی پرچارک سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ شکوہ رہتا ہے کہ آمریت کے تسلط کے وقت لوگ جمہوری نظام کی بقا کے لئے باہر نہیں نکلتے ۔لوگوں سے قربانیوں کی خواہش رکھنے سے پہلے ان سب رہنماؤں کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ جب تک ان کے اپنے رویے جمہوری نہیں ہوں گے، تب تک جمہوری نظام کا تسلسل بھی محض ایک دکھاوا رہے گا۔جمہوریت کی اصل روح اجتماعی سوچ، مشاورت اور اکثریتی رائے سے فیصلے کرنے میں ہےلیکن ہمارے ہاں جمہوریت کی جگہ شخصی خواہشات اور بادشاہانہ مزاج غالب ہے۔اس طرزِ عمل کے نتیجے میں جمہوریت ایک ایسا ڈھانچہ بن کر رہ گئی ہے جو نہ تو نئی نسل کو متاثر کر پا رہا ہے اور نہ ہی اہلِ دانش کو اس میں کوئی امید دکھائی دیتی ہے۔یہ بے حسی انتخابات میں ووٹرز کی مسلسل کم ہوتی تعداد میں دیکھی جاسکتی ہے۔
ترکی، بھارت اور دیگر جمہوری ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں جہاں جمہوری تسلسل نے ریاستی اداروں کو مضبوط کیا۔ مگر ان معاشروں میں سیاسی جماعتوں نے اندرونی سطح پر جمہوریت کو فروغ دیا۔ وہاں سیاسی کارکن نیچے سے اوپر تک ایک نظام کے تحت سامنے آئے، جبکہ ہمارے ہاں فیصلے اور وزارتیں خاندانوں، درباریوں اور دوست رشتے داروں کے ہاتھ میں رہتے ہیں۔
اگر ہم پاکستان کی بڑی وفاقی سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیں تو جمہوریت کا ایک عجیب اور مشکوک چہرہ سامنے آتا ہے۔ پارٹی سربراہان کو چیلنج کرنا تو دور، ان کے فیصلوں پر سوال اٹھانا بھی بغاوت کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔سڑکوں پر سیاسی جماعتوں کے تشہیری بورڈ دیکھ کر جمہوری نہیں خاندانی حکومت کا تصور ابھرتا ہے جسے موروثیت اور آمریت کی ایک نئی شکل قرار دیا جا سکتا ہے۔
ہر گھڑی مشرف کی آمریت کا رونا رونے والوں نے اس کے وضع کئے خواتین کی مخصوص نشستوں والے اصول سینے سے لگا رکھے ہیں ۔ان نشستوں کو جماعتوں کے طاقتور افراد کی بیگمات، بیٹیوں اور عزیز و اقارب کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔ صوبائی و قومی اسمبلیوں میں موجود خواتین میں سے بمشکل 5 فیصد ایسی ہیں جو سیاسی بصیرت، قانون سازی اور عوامی مسائل پر بحث کا شعور رکھتی ہیں۔باقی اکثریت صرف نمائشی حاضری اور ووٹنگ تک محدود ہوتی ہے۔
سینیٹ ،جہاں ٹیکنوکریٹس کی نشستوں کا مقصد ماہرینِ تعلیم، معیشت، قانون یا ثقافت کو نمائندگی دینا تھا، وہاں بھی اب صرف تعلقات، اثر و رسوخ اور خاندانی سیاست کا بول بالا ہے۔
مثال کے طور پر، حال ہی میں امیر مقام صاحب جو بذات خود اسمبلی میں جلوہ افروز ہیں نے سینٹ کی نشست پر اپنے صوبے سے کسی زیرک سیاستدان کی سفارش کرنے کے اپنے نوجوان بیٹے کو تحفے میں دینے کی تحریک چلائی اور سرخرو رہے ۔اسی طرح سنا جا رہا ہے کہ عرفان صدیقی صاحب کی نشست بھی ان کے بیٹے کے لیے مخصوص کی جا رہی ہے، عرفان صدیقی صاحب کی اچھی تقریر نویسی اور کالم نگاری کے عوض انھیں سینیٹر ، وزیر مشیر اور دیگر حکومتی عہدوں پر فائز کر کے ان کی خدمات کا بھرپور اعتراف پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔میری رائے میں اب ان کی خالی ہونے والی سیٹ پر کسی ایسے فرد کو چنا جائے جو ادب، ثقافت یا فنونِ لطیفہ میں حقیقی طور پر ملک کی نمائندگی کرتا ہو تاکہ سینیٹ میں تنوع، قابلیت اور فکری وسعت کا دائرہ بڑھایا جا سکے، نہ کہ صرف تعلقات کا۔
مخصوص نشستوں کے ذریعے خواتین کی نمائندگی کے مقصد پر توجہ کی ضرورت ہے ۔انھیں سیاسی خاندانوں کی بیگمات، بیٹیوں یا قریبی عزیزوں کو نوازنے کا ذریعہ بنانے اور بڑے شہروں تک محدود کرنے کی بجائے دائرہ وسیع کرنے پر زور دینا چاہئے۔
ہونا تو یہ چاہئےکہ مخصوص نشستوں کی جگہ جنرل سیٹوں پر ہر سیاسی جماعت 33 فیصد ٹکٹ خواتین کے لئے مختص کر کے خواتین کو براہ راست انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دے تاکہ وہ عوام کے ووٹ سے اسمبلی میں آئیں۔اس سے وہ زمینی سیاست، عوامی مسائل اور انتخابی عمل سے حقیقی معنوں میں آشنا ہوں گی اور ان کی سیاسی تربیت بھی ممکن ہو گی۔
جب تک ایسا ممکن نہیں بنایا جاتا ،نمائندگی کو شفاف بنانے کے لئے ضلعی سطح پر باقاعدہ الیکشن یا شارٹ لسٹنگ کا نظام بنایا جائے۔سیاسی سوجھ بوجھ، تعلیم، سماجی خدمات اور سیاسی کارکنیت کو بنیاد بنا کر ہر ضلع و تحصیل سے اہل خواتین کا انتخاب کیا جائے، تاکہ ان نشستوں پر ایسی خواتین منتخب ہوں جو حقیقی معنوں میں جمہوری نظام اور خواتین کی نمائندگی کی اہل ہوں ، جو جی جان سے اپنے علاقوں میں سماجی خدمت کے ذریعے جمہوریت کی حقیقی قدروں کو اجاگر کریں۔جمہوریت کی بقا کے لئے سیاسی جماعتوں کو سوچنا اور لائحہ عمل بناناہوگا ورنہ جذباتی نعروں سے بات نہیں بنے گی۔خْدارا انتخاب کے طریقہ کار کو الاٹمنٹ نہ بنائیں۔