زوآلوجی، یعنی علم الحیوانات، حیاتیات کی ایک اہم شاخ ہے، جو جانوروں کی جسمانی ساخت، افعال، جینیاتی خصوصیات، ارتقائی عمل، طرزِ عمل اور اُن کے ماحول سے تعلقات کا مطالعہ کرتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ مُمالک میں یہ مضمون محض نصاب تک محدود نہیں، بلکہ سائنسی، تیکنیکی اور ماحولیاتی میدان میں بھی گہرے اثرات مرتّب کر رہا ہے۔
ایک جدید زوآلوجسٹ نہ صرف جانوروں کا مشاہدہ کرتا ہے، بلکہ ماحولیات، صحت عامہ، جینیات، ڈیٹا سائنس اور قانون سازی میں بھی فعال کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے برعکس، ہمارے مُلک میں زوآلوجی کی تعلیم و تحقیق کے حوالے سے صورتِ حال انتہائی ابتر ہے۔ اسے صرف ایک نصابی مضمون کے طور پر ہی پڑھایا جاتا ہے۔
ایسے میں اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ’’ہم زوآلوجی کیوں پڑھتے ہیں؟‘‘تو یقیناً اسے اس کی گہری فکری اور سائنسی بےچینی کی غمّازی ہی کہا جائے گا، کیوں کہ جب ایک طالب علم چار سال تک جانوروں کے اندرونی اعضا، بیرونی ساخت، ارتقائی مظاہر، ماحول سے تعلق، حیاتاتی نظمیات اور جسمانی افعال، باریک بینی سے پڑھنے کے بعد اپنی راہ متعین کرنے سے قاصر ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ شعورو آگہی اور انسانی بقا کی بصیرت کے بجائے تعلیمی اداروں میںاس علم کو محض ایک سطحی مشق، ایک بوجھل نصابی فریضہ اور ایک درسی مسابقت بنا دیا گیا ہے۔
’’حیوانیات‘‘ وہ علم ہے، جو ہمیں اس کائنات میں بسنے والے ہر جان دار سے ربط سکھاتا ہے۔ یہ علم ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک خردبینی جان دار (یک خلوی جرثومے) سے لے کر وہیل جیسی بڑی مخلوق تک ہر جان دار اپنے ماحول میں ایک مقصد کے تحت زندہ ہے، اور اس کی ہر حرکت، ہر رویّہ، ہر نظام ایک مکمل سائنسی ترتیب کا مظہر ہے۔
مگر افسوس، درس گاہوں میں بس صرف اتنا ہی پڑھایا جاتا ہے کہ ’’فلاں جانور میں یہ خصوصیت ہے، فلاں نظام اس طرح کام کرتا ہے اور یہ کہ یہ گروہ درجہ بندی میں کہاں آتا ہے۔‘‘ لیکن یہ نہیں سِکھایا جاتا کہ ان تمام معلومات کے پیچھے اصل مقصد کیا ہے؟ اسے سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے اور اس سے معاشرے، ماحول، انسانیت یا مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
جب ایک طالبِ علم ارتقاء (ایوولوشن) کے پیچیدہ عمل کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، تو اُسے صرف چارٹ دکھا کر خاموش کر دیا جاتا ہے اور پھر جب وہ endocrine system (داخلی افرازی نظام) کے ہارمونی تعاملات میں دل چسپی لیتا ہے، تو صرف یادداشت کے لیے مخصوص نام، افعال، اور غدود رٹوا دیے جاتے ہیں۔
جب وہ ecology (ماحولیاتی مطالعہ) میں دل چسپی ظاہر کرتا ہے، تو اُسے محض کتابی تعریفیں پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ فیلڈ کا مشاہدہ، عملی تربیت اور تحقیق کی تحریک اس کے نصاب کا حصّہ ہی نہیں بنتی۔ یہ سب دراصل اس نظامِ تعلیم کی ناکامی ہے، جس نے سائنس کو محض نمبروں کی دوڑ میں قید کر دیا ہے۔
زوآلوجی دراصل، ایک ایسا شعبہ ہے، جو دنیا بھر میں تحقیق، اختراع، اور عملی جدّت کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتا ہے۔ آسٹریلیا میں زوآلوجسٹ جانوروں کی بقاء کے لیے قوانین بناتے ہیں۔ جاپان میں سمندری حیات کی حفاظت پر تحقیقی مراکز کام کر رہے ہیں۔ امریکا میں کیڑے، مکوڑوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین زرعی معیشت کا تحفّظ کر رہے ہیں۔
سوئیڈن، ناروے، جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ماحولیاتی تغیّر، حیوانی رویّے اور جینیاتی تبدیلیوں پر ہر سال ہزاروں مقالے شائع ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں زوآلوجی صرف کتابوں تک محدود نہیں، اس کا سلسلہ جنگلات، دریاؤں، پہاڑوں، تجربہ گاہوں، تحقیقی مراکز، اور قانون سازی کے ایوانوں تک دراز ہے۔
تاہم، بدقسمتی سے پاکستان میں صورِ ت حال یہ ہے کہ زوآلوجی کا ایک طالب علم ڈگری کے حصول کے بعد اگر تحقیق کے میدان میں قدم رکھنا چاہے، توزوال پذیر اداروں میں ریسرچ گرانٹس نہ ہونے، اساتذہ کی مصروفیات اور غفلت برتنے کے نتیجے میں تحقیق کی بنیاد بھی سیکھنے سے قاصر رہتا ہے۔
جب کہ اگر وہ ملازمت تلاش کرتا ہے، تو اس کے لیے چند محدود شعبے ہی ہیں، یعنی محکمہ جنگلی حیات، ماحولیات، تدریس، زراعت، فارماسیوٹیکل یا حیاتیاتی صنعت۔حالاں کہ زوآلوجی کے شعبے میں اتنی وسعت ہے کہ اسے محدود کرنا ممکن نہیں۔
صرف علم الحشرات یعنی entomology ہی کو لے لیجیے، جس میں کیڑے مکوڑوں کے رویّے، اُن کی زندگی کے چکّر اور اُن کے حیاتیاتی فوائد و نقصانات پر تحقیق کی جاتی ہے۔ زراعت کے لیے مفید کیڑوں کی افزائش، یا مضر کیڑوں کے حیاتیاتی خاتمے کے لیے زوآلوجسٹ کام کرتے ہیں۔
اسی طرح علم السمک یعنی ichthyology میں مچھلیوں کی نسلوں، افزائش، بیماریوں اور ماحولیاتی دباؤ کا مطالعہ، فشریز انڈسٹری کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ علم الطیور یعنی ornithology میں پرندوں کی نقل مکانی، نسلوں کے بقاء اور ماحولیاتی اشاروں پرجب کہ علم الطفیلیات ( parasitology )میں جانوروں یا انسانوں میں بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کے سدِباب کے علاوہ علم الجھیل( limnology )میں تازہ پانی کے ذخائر، اُن کا ماحولیاتی نظام، حیوانات و نباتات کا تعلق، آلودگی اور بقاء جیسے پہلو زیرِ تحقیق آتے ہیں۔
واضح رہے، زوآلوجی نہ صرف جانوروں کی زندگی کا علم ہے، بلکہ انسانی بقاء کا ضامن بھی ہے۔ اس علم کی مدد سے ہم جانوروں کی پیدائش سے لے کر ان کی نشوونما اور نسلوں کے ارتقا تک کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہم یہ جان سکتے ہیں کہ جانور اپنے ماحول میں کیسے رہتے ہیں اور دوسرے جان داروں کے ساتھ ان کا کیا تعلق ہے۔
جانوروں کے مطالعے سے حاصل شدہ معلومات انسانوں کے لیے ادویہ، صحت اور تحفّظ کے شعبوں میں بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔ مثلاً جانوروں کی بیماریوں کا مطالعہ کرکے ہم انسانوں میں بھی بیماریوں کا علاج اور روک تھام کی کوشش کر سکتے ہیں۔
یہ علم ہمیں جانوروں کی دنیا، ان کے ماحولیاتی نظام اور انسانی زندگی پر ان کے اثرات سے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔ اگر مکھی اور بھنورے نہ رہیں، تو پھولوں میں زرپاشی نہ ہو، فصلیں پیدا نہ ہوں تو انسان بھوکا مرجائے۔ کچھوے نہ ہوں، تو ساحلی ماحولیاتی نظام تباہ ہو جائے۔
پرندے ختم ہو جائیں، تو قدرتی خوراک کی زنجیر ٹوٹ جائے۔ آبی حیات ختم ہو جائے، تو نہ صرف ماہی گیری متاثر ہو، بلکہ پانی کی صفائی کا قدرتی عمل بھی رک جائے۔ یہ سب کچھ ہمیں زوآلوجی ہی سکھاتی ہے، مگر ہم نے اسے محض نمبر لینے کا ذریعہ، اور ڈگری حاصل کرنے کا راستہ بنا دیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم زوآلوجی کو زندہ علم اور نصاب میں تحقیق کو لازمی جزو بنائیں۔
ہر طالب علم کو ایک تحقیقی منصوبہ، ایک فیلڈ سروے اورعملی تربیت دی جائے۔ عالمی اداروں یعنی اقوام متحدہ، ڈبلیو ڈبلیو ایف، آئی یو سی این کے ساتھ روابط قائم کیے جائیں۔ طلبہ کو بین الاقوامی معیار کی تربیت دی جائے، انٹرن شپ اور سمر اسکولز میں شرکت کروائی جائے، تاکہ وہ صرف قومی ہی نہیں، عالمی سطح پر بھی سائنسی میدان میں خدمات انجام دے سکیں۔
یاد رہے، اگر ہم نے زوآلوجی کو اس کے اصل جوہر، سائنسی روح، تحقیقی تقاضوں اور عملی میدان سے جوڑ دیا، تو نہ صرف ہماری جامعات زندہ ہو جائیں گی، بلکہ ہماری معیشت، ماحول، اور معاشرتی توازن بھی بحال ہوگا۔ بلاشبہ، زوآلوجی ایک مکمل کائنات، خاموش سچائی اور ایک پوشیدہ راز ہے، لہٰذا اس کی تعلیم بے حد ضروری ہے کہ جب انسان، حیوانات سے لاتعلق ہو جائے، تو محض ایک بے حس مخلوق بن کے رہ جاتا ہے۔