• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پاکستان سمیت پندرہ میں سے تیرہ ارکان نے گزشتہ پیر کو غزہ کیلئے صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے حق میںقرارداد منظور کی ۔ بین الاقوامی استحکام فورس اور بورڈ آف پیس کے نام سے صدر ٹرمپ کی سربراہی میں فلسطینی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل عبوری حکومت کا قیام اس منصوبے کے بنیادی نکات ہیں۔ قرارداد میںبین الاقوامی فورس کے فرائض میں امن وا مان کے قیام کے ساتھ ساتھ حماس کو غیر مسلح کرنے کی ذمے داری بھی دی گئی ہے جسے وہ ٹرمپ کی سربراہی میں قائم فلسطینی عبوری حکومت کے تعاون سے پورا کرے گی۔ چین اور روس نے اجلاس میں منصوبے پر نہایت وزنی اعتراضات اٹھا ئے لیکن قرارداد کو ویٹو نہیں کیا تاہم رائے شماری سے غیر حاضر رہ کر اپنا اختلاف ریکارڈ کرادیا۔ پاکستان نے قرارداد میں ترامیم پیش کیں جس سے قرارداد پر اس کا عدم اطمینان واضح ہوتا ہے لیکن پھر ان تجاویزکو منظور نہ کیے جانے کے باوجود قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ پاکستانی مندوب کے بقول غزہ میں خوں ریزی فوری طور پر روکے جانے کی خاطر ایسا کیا گیا۔

چینی مندوب ایلچی فوکونگ کا مؤقف تھا کہ منصوبے میں دو ریاستی حل ، غزہ کی فلسطینی حکمرانی اور بین الاقوامی فورس کے دائرہ کار اور ڈھانچے سے متعلق ابہام ہے۔ روسی سفیر کا کہنا تھا کہ یہ دستاویز، امریکا کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاری اسرائیل کے بے لگام تجربات کیلئے ایک آڑ یا پردے کا کام کرے گی۔حماس کے مطابق یہ قرارداد غزہ پر ایسی بین الاقوامی سرپرستی مسلط کرنے کی کوشش ہے جسے فلسطینی عوام اور مزاحمتی گروپ ہرگز قبول نہیںکریں گے۔حماس کے بقول بین الاقوامی فورس کو غزہ کے اندر دیے گئے کام، جن میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنا بھی شامل ہے، اس کی غیر جانبداری کو ختم کر دیتے ہیں اور اسے تنازع کا حصہ بنا دیتے ہیں، جو بالآخر قابض اسرائیل کے حق میں جاتا ہے۔ واضح رہے کہ حماس کا مؤقف ہے کہ وہ اپنے ہتھیار غزہ امن منصوبے کی ابتدائی شکل کے مطابق ایک مکمل خود مختار اور آزاد فلسطینی حکومت کے سپرد کرے گی جبکہ سلامتی کونسل کی قرارداد میں اس شرط کی تکمیل کے بغیر بین الاقوامی فورس کو حماس کو غیر مسلح کرنے کا ذمہ دار بنادیا گیا ہے۔

پاکستان کی جن تجاویز کو منظور نہیں کیا گیا ، پاکستانی مندوب کے مطابق ان میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے واضح طریقہ کار، فلسطینی اتھارٹی کا مرکزی کردار اور بین الاقوامی استحکام فورس اور بورڈ آف پیس کے بارے میں مکمل وضاحت شامل ہے۔ چین ، روس اور حماس کے اعتراضات اور پاکستان کی منظور نہ کی جانے والی ان تجاویز سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہے کہ صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ غزہ میں امن کے قیام کا ذریعہ بننے کے بجائے شرق اوسط میں بدامنی کا دائرہ مزید بڑھانے کا سبب بنے گا۔ بین الاقوامی استحکام فورس میں شامل ملکوں اور آزادی فلسطین کے حامی گروپوں کے درمیان کشیدگی دنیا کے بہت بڑے حصے میں بے چینی اور تصادم کے ماحول کو فروغ دے گی ۔ ایسی فلسطینی حکومت جس کی سربراہی فلسطینی عوام کے حمایت یافتہ کسی فلسطینی لیڈر کے بجائے روز ِاول سے اسرائیل کے پشت پناہ اور سرپرست ملک امریکہ کے صدر کے ہاتھوں میں ہو ، فلسطین کے لوگ اسے آخر کیوں قبول کریں گے؟

صدر ٹرمپ کے اس منصوبے کا یہ پہلوبھی انتہائی قابل غور ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی دو سال سے زیادہ مدت سے جاری درندگی پر ذرّہ برابر گرفت نہیں کی گئی جبکہ منصوبے کے پہلے مرحلے کے مطابق جنگ بندی کے بعد بھی صہیونی حکومت کی جانب سے بمباری اور قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔ نیتن یاہو برملادوریاستی حل کو مسترد کرنے کے اعلانات کررہے ہیں لیکن اس پر صدر ٹرمپ اور امریکی حکومت کی جانب سے کوئی مؤثر ردعمل اور نتیجہ خیز اقدام سامنے نہیں آیا۔ سلامتی کونسل کی قرارداد بھی اسرائیلی حکومت کی من مانیوں کی کسی مذمت سے بالکل خالی ہے۔

صدر ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ تمام فریقوں نے ان کے غزہ امن منصوبے کو قبول کرلیا تھا، درست نہیں کیونکہ حماس نے شروع ہی سے یہ بات واضح کررکھی ہے کہ اس نے امن منصوبے کے صرف پہلے مرحلے سے اتفاق کیا تھا جس میں غزہ میں باقی ماندہ اسرائیلی قیدیوں کو ایک مستقل جنگ بندی کے تحت اسرائیل واپس بھیجنا اور انسانی امداد کی بحالی شامل ہے اور اسرائیل نے تاحال جس کی تعمیل نہیں کی ہے۔حماس نے ہمیشہ واضح طور پر کہا کہ اس کے پاس ٹرمپ منصوبے کے دیگر حصوں پر بات چیت کا کوئی اختیار نہیں کیونکہ وہ سب فلسطین کی مستقبل کی حکومت سے تعلق رکھتے ہیں۔ حماس اپنے اس اصولی مؤقف پر اٹل ہے کہ خودمختار فلسطینی ریاست کے مکمل طور پر قائم ہونے کے بعد وہ اپنے ہتھیار فلسطینی ریاست کی نئی مسلح افواج کے حوالے کر دے گی ۔

ان حقائق سے واضح ہے کہ صدر ٹرمپ کی سربراہی میں بننے والی فلسطینی انتظامیہ اور اس کے ماتحت بین الاقوامی فورس کے خلاف فلسطینی مزاحمت جاری رہے گی ۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اردن، قطر، امارات اور سعودی عرب اس فورس کا حصہ بننے سے انکار کرچکے ہیں لیکن گزشتہ مہینے آسٹریلیا، کینیڈا، قبرص کے علاوہ مسلم ملکوں میں سے مصر، انڈونیشیا، آذربائیجان، ترکی، ملائیشیا اور پاکستان نے امریکی حکام کو بتایا تھا کہ وہ غزہ میں مجوزہ بین الاقوامی استحکام فورس میں شرکت کیلئے اپنے فوجی بھیجنے پر غور کریں گے۔تاہم اب حالات جو رخ اختیار کررہے ہیں ان کے پیش نظر ٹرمپ منصوبے کی بین الاقوامی فورس میں شمولیت مسلم ملکوں کے لیے ایسا جال ثابت ہوسکتی ہے جو انہیں پوری عرب اور مسلم دنیا کے عوام کی شدید نفرت کا ہدف بنانے کا سبب بن جائے۔لہٰذا پاکستان سمیت کسی بھی مسلم ملک کو اس بین الاقوامی فورس کا حصہ نہیں بننا چاہیے جبکہ اس منصوبے کی ناکامی فی الحقیقت نوشتہ دیوار ہے۔

تازہ ترین