• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ضمنی الیکشن میں شکست، PTI حکمت عملی پر نظرثانی کیلئے مجبور، قیادت سکڑتے سیاسی میدان سے پریشان

انصار عباسی

اسلام آباد :…پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت ہری پور کے ضمنی انتخاب میں ہونے والی مبینہ طور پر ’’مینجڈ‘‘ مگر غیر متوقع شکست پر مایوس ہے۔ یہ خیبر پختونخوا کا وہ اہم حلقہ ہے جہاں پارٹی کی صوبائی حکومت قائم ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق، اس شکست نے اعلیٰ قیادت میں سنجیدہ غور و فکر کو جنم دیا ہے، اور یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ کیا پارٹی کی طویل عرصہ سے جاری محاذ آرائی کی پالیسی کی وجہ سے اس کیلئے سیاسی میدان پھیلنے کی بجائے اب اپنے ہی گڑھ خیبر پختونخوا میں بھی سکڑتا جا رہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ قیادت اب مذاکرات کی سیاست اختیار کرنے پر غور کر رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سینئر رہنما ہری پور کی شکست کا جائزہ لے رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جس سیاسی میدان کو پی ٹی آئی گزشتہ کئی ماہ سے حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی وہ ’’خیبر پختونخوا میں بھی سکڑ رہا ہے‘‘ حالانکہ صوبے میں پارٹی کی اپنی ہی حکومت ہے۔ سابق قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف عمر ایوب خان کی نااہلی کے نتیجے میں خالی ہونے والی نشست پر ہونے والے انتخاب کے نتیجے میں ملنے والی یہ شکست پارٹی میں ایک وارننگ سمجھی جا رہی ہے کہ موجودہ طرز سیاست شاید اب مزید قابل عمل نہیں رہا۔ باخبر ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ ضمنی انتخاب کے نتائج کے فوراً بعد پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، عمر ایوب خان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کیلئے گئے جہاں دونوں رہنماؤں نے صورتحال پر مفصل بات چیت کی۔ بیرسٹر گوہر کے بقول انہوں نے ’’گزشتہ تین برسوں میں پارٹی کی سیاسی حکمت عملی کے فوائد اور نقصانات‘‘ کا جائزہ لیا۔ بیرسٹر گوہر نے رابطہ کرنے پر ملاقات کی تصدیق کی اور بتایا کہ انہوں نے اور عمر ایوب نے پارٹی کے مستقبل کے لائحہ عمل پر بات کی۔ عمر ایوب کی اہلیہ اس نشست پر امیدوار تھیں۔ پارٹی کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخاب کے بعد میڈیا سے گفتگو میں بیرسٹر گوہر کے وہ بیانات جن میں انہوں نے ہلکے لفظوں میں نئی حکمت عملی کی طرف اشارہ کیا، دراصل اعلیٰ قیادت کی موجودہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک ذریعے نے کہا کہ ’’یہ بات واضح ہے کہ مقتدر حلقے اب بھی پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کو پوری طرح تسلیم کرنے کو تیار نہیں‘‘ اور اسی احساس نے قیادت کو محاذ آرائی کے انداز پر ازسرنو غور کرنے کی طرف مائل کیا ہے۔ بیرسٹر گوہر علی خان کو طویل عرصے سے پی ٹی آئی کی معتدل آواز سمجھا جاتا ہے اور وہ تصادم اور محاذ آرائی کی بجائے مسلسل مذاکرات اور سیاسی عمل کو ترجیح دینے کی بات کرتے رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور کچھ زیر حراست رہنماؤں نے بھی مذاکرات کے آغاز کا کہا، لیکن پارٹی کے اندر موجود محاذ آرائی کے حامیوں نے کبھی اس سمت قدم بڑھنے نہیں دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہری پور کی شکست نے پارٹی کے اندر معتدل سوچ رکھنے والے حلقے کی رائے کو مزید مضبوط کر دیا ہے اور اب زیادہ رہنما سمجھتے ہیں کہ آگے بڑھنے کا واحد قابل عمل راستہ مذاکرات پر مبنی سیاست ہے۔ تاہم حتمی فیصلہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان ہی کریں گے جو اب تک معتدل مزاج رہنماؤں کی بجائے محاذ آرائی کے حامیوں کی بات سنتے آئے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید