• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد اور راولپنڈی میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی اسکینڈل شہریوں سے کھربوں روپے کے فراڈ کا انکشاف

انصار عباسی

اسلام آباد :…وفاقی دارالحکومت اور اس سے ملحقہ شہر راولپنڈی میں زمینوں کے لین دین کے حوالے سے ایک بڑی جعلسازی کا انکشاف ہوا ہے، جس میں نجی ہائوسنگ اسکیموں اور کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹیز نے پلاٹس کی حد سے زیادہ فروخت، جعلی ممبرشپس اور دھوکہ دہی پر مبنی لینڈ مارکیٹنگ کے ذریعے گزشتہ کئی برسوں کے دوران شہریوں سے کھربوں روپے کا مبینہ فراڈ کیا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب راولپنڈی نے اس معاملے کی مفصل تحقیقات کی ہیں جن سے بے ضابطگیوں کی حیران کن حد کا انکشاف ہوا ہے۔ صرف اسلام آباد اور راولپنڈی کی بات کی جائے تو ہائوسنگ اسکیموں نے دستیاب زمین یا اپنے منظور شدہ لے آئوٹ پلانز (LoPs) سے تقریباً 91؍ ہزار زائد پلاٹس اور فائلیں فروخت کیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زمین کی غیر موجودگی کے باوجود 20؍ ہزار ممبرشپس فروخت کی گئیں۔ شاید سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ہائوسنگ اسکیموں نے تقریباً 80؍ ہزار کنال زمین کی تشہیر اور فروخت کی جو اُن کے منظور شدہ منصوبوں کا حصہ ہی نہیں تھی۔ ذرائع کی جانب سے اس نمائندے کو فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق نجی ہائوسنگ اسکیموں نے اپنے منظور شدہ لے آئوٹ پلانز یا دستیاب زمین سے تقریباً 26؍ ہزار زائد پلاٹس اور فائلیں فروخت کیں۔ انہوں نے مجموعی طور پر تقریباً 80؍ ہزار کنال زمین کی تشہیر اور فروخت بھی کی جو ان کے منظور شدہ ریکارڈ میں سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ ایک مخصوص نجی ہائوسنگ اسکیم (جس کا نام فی الحال ظاہر نہیں کیا جا رہا) کا معاملہ دیکھیں تو مسئلے کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ مذکورہ ہائوسنگ اسکیم نے 2022ء میں صرف 4؍ ہزار کنال زمین کیلئے لے آئوٹ پلان (ایل او پی) کی منظوری کی درخواست دی، لیکن عوام کو دکھایا گیا کہ یہ پروجیکٹ 75؍ ہزار سے ایک لاکھ کنال پر مشتمل ہے۔ تاہم، جب اس پروجیکٹ کی مارکیٹنگ کی گئی تو بتایا گیا کہ یہ پروجیکٹ 80؍ ہزار کنال کا میگا ہائوسنگ منصوبہ ہے، اس دوران 30؍ سے 40؍ ہزار پلاٹس فروخت کیے گئے، اور معصوم الاٹیز سے 50؍ سے 60؍ ارب روپے تک وصول کیے گئے۔ اس سب کے باوجود، تین سال گزرنے کے بعد بھی یہ اسکیم صرف 34؍ ہزار کنال زمین خرید پائی، وہ بھی بکھری ہوئی اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہے۔ ہائوسنگ سوسائٹی نے ریگولیٹر سے کوئی منظوری یا این او سی بھی حاصل نہیں کیا تھا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ معاملہ کسی ایک ہائوسنگ اسکیم تک محدود نہیں۔ کئی نجی ہائوسنگ اسکیموں یہی طرز عمل اختیار کیا، ضرورت سے زیادہ فائلیں فروخت، فرضی لینڈ بینک کی تشہیر، اور مناسب زمین خریدے یا ترقیاتی کام کرائے بغیر عوام سے اربوں روپے اکٹھے کیے گئے۔ کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹیز بھی بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں میں ملوث پائی گئیں، حالانکہ انہیں روایتی طور پر زیادہ محفوظ اور منظم سمجھا جاتا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق، ان سوسائٹیز نے زمین کی عدم دستیابی کے باوجود تقریباً 20؍ ہزار ممبرشپس جاری کیں۔ جبکہ تقریباً 65؍ ہزار پلاٹس ایسے منصوبوں میں فروخت کیے گئے جن میں زمین نہ ہونے یا ترقیاتی کام مکمل نہ ہونے کے باعث قبضہ دینا ممکن ہی نہیں تھا۔ ذرائع نے ایسی 4؍ کوآپریٹو سوسائٹیز کا ڈیٹا بھی شیئر کیا ہے جن کے نام فی الحال ہم ظاہر نہیں کر رہے۔ ان میں سے ایک سوسائٹی میں تقریباً 5؍ ہزار ممبرز آج بھی قبضے کے منتظر ہیں۔ دوسری سوسائٹی نے اپنی دستیاب یا منظور شدہ زمین سے کہیں زیادہ، تقریباً 35؍ ہزار پلاٹس فروخت کیے۔ تیسری ہائوسنگ سوسائٹی نے 6؍ سے 7؍ ہزار زائد پلاٹس یا ممبرشپس جاری کیں، جبکہ چوتھی سوسائٹی تقریباً 9؍ ہزار پلاٹس کا قبضہ دینے میں ناکام رہی ہے۔ اس نمائندے کے ساتھ شیئر کردہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ کئی دیگر سوسائٹیز اسی طرز پر کام کر رہی ہیں۔ وہ برسوں سے ترقیاتی کام اور قبضے کی یقین دہانیاں تو کرا رہی ہیں، لیکن ہر مرتبہ وعدے کے باوجود اپنے ممبرز کو زمین فراہم نہیں کر پائی۔ اس معاملے سے آگاہ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ عوام کو مجموعی طور پر سیکڑوں ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، متاثرین میں سرکاری ملازمین، پروفیشنلز، ریٹائرڈ افراد اور عام شہری شامل ہیں جنہوں نے وفاقی دارالحکومت کے علاقے میں گھر حاصل کرنے کی امید پر اپنی زندگی کی جمع پونجی لگا دی۔ ڈی جی نیب راولپنڈی وقار چوہان نے رابطہ کرنے پر ان اعداد و شمار کی تصدیق بھی کی۔ انہوں نے بتایا کہ نیب نے کوآپریٹو ڈپارٹمنٹ اور متعلقہ ریگولیٹرز کے ساتھ مل کر ڈیٹا اکٹھا کیا، تاکہ تمام نتائج ثبوتوں پر مبنی اور مکمل طور پر مستند ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہاؤسنگ سیکٹر کیلئے نیب ایک اصلاحاتی پیکیج تیار کرنے پر بھی کام کر رہا ہے تاکہ ان دیرینہ بڑے مسائل کو حل کیا جا سکے اور شہریوں کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ بیورو کی تحقیقات متاثرین کی شدید مشکلات کو اُجاگر کرتی ہیں۔ ہزاروں ایسے خاندان جنہوں نے بھاری رقوم ادا کیں، آج تک زمین، قبضہ یا ترقیاتی کاموں سے محروم ہیں۔ کئی لوگ دس برس سے زیادہ عرصے سے انتظار کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ بار بار کیے گئے وعدے آج تک وفا نہیں ہوئے۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ یہ بحران بنیادی طور پر ریگولیٹری کمزوریوں، انتظامی غفلت، اور ہائوسنگ ڈویلپرز کی جانب سے دانستہ دھوکے کا نتیجہ ہے، جنہوں نے قانونی خلا اور گمراہ کن مارکیٹنگ کا فائدہ اٹھایا۔ 

اہم خبریں سے مزید