• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نشتر ہسپتال کا بجٹ نہ بڑھایا گیا تو جنوبی پنجاب کا صحت کا نظام تباہ ہو جائیگا

ملتان (سٹاف رپورٹر) جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے نشتر ہسپتال جس کے 1813 بیڈز ہیں جو نہ صرف پنجاب بلکہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ سے آنے والے ہزاروں مریضوں کا واحد سہارا ہے، کو موجودہ پنجاب حکومت کی جانب سے سنگین مالی نظر اندازی کا سامنا ہے۔ نشتر ہسپتال کا بجٹ نہ بڑھایا گیا تو جنوبی پنجاب کا صحت کا نظام تباہ ہو جائے گاہسپتال انتظامیہ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ رواں مالی سال میں پنجاب حکومت نے نشتر ہسپتال کو محض 605 ملین روپے (60.5 کروڑ) کی سالانہ گرانٹ جاری کی ہے، جو اس ہسپتال کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔ذرائع کے مطابق اس محدود بجٹ میں سےگیسز (آکسیجن، نائٹرس آکسائیڈ وغیرہ) کی خریداری پر 18 کروڑ روپے لیبارٹری کیمیکلز اور آلات پر 12 کروڑ روپے ڈسپوزیبل آئٹمز (سرنجز، گلوز، آئی وی سیٹس وغیرہ) پر 8 کروڑ روپے خرچ ہونے کے بعد دوائیوں کے لیے صرف 26 کروڑ روپے بچتے ہیں۔ہسپتال کے سینئر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ "صرف 26 کروڑ روپے سے تو نشتر ہسپتال کی ایمرجنسی نہیں چل سکتی، پورے ہسپتال میں مفت ادویات کیسے دی جا سکتی ہیں انہوں نے بتایا کہ ایمرجنسی، آئی سی یو، سی سی یو، آپریشن تھیٹرز اور وارڈز میں مریضوں کو اکثر مفت دوائیں دینا پڑتی ہیں، لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو ادویات فراہم نہیں ہو رہی نشتر ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر راؤ امجد علی نے بتایا کہ "ہم روزانہ 7 سے 8 ہزار او پی ڈی مریض دیکھتے ہیں، ایمرجنسی میں 1200 سے 1500 کیسز آتے ہیں۔ چاروں صوبوں سے مریض آتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے پنجاب حکومت اس ہسپتال کو وہ ترجیح نہیں دے رہی جو اس کا حق ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ لاہور اور راولپنڈی کے ہسپتالوں کو اربوں روپے ملتے ہیں، لیکن جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے ہسپتال کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ادھر پنجاب حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ "تمام ہسپتالوں کو وسائل کے مطابق فنڈز دیے جا رہے ہیں"، لیکن وہ نشتر ہسپتال کے لیے اضافی گرانٹ کے سوال پر خاموشی اختیار کر گئے۔
ملتان سے مزید