خدیجہ طیّب، اسلام آباد
اسلام میں گفتگو اور منطقی بحث کے حوالے سے بہت تاکید کی گئی ہے اور موافقت و مخالفت کے ساتھ اسے ایک پسندیدہ روش قراردیا گیا ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ سوال پوچھتا اور جواب تلاش کرتا ہے۔ بحث، بصیرت اور مکالمے میں قریبی تعلق ہے، جس میں مکالمہ (گفتگو) بحث اور بصیرت (سمجھ) کو فروغ دیتا ہے۔
بحث ایک ایسا عمل ہے، جس میں خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے، اور مکالمہ اس عمل کو ممکن بناتا ہے، جب کہ کسی بات کو گہرائی سے سمجھنا بصیرت کہلاتا ہے، جس میں بحث اور مکالمہ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، کیوں کہ یہ ہمیں مختلف نقطۂ نظر سے آگاہ کرتے ہیں، لیکن بعض اوقات گفتگو، بحث میں بدل جاتی ہے اور اصل موضوع سے ہٹ کر مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
نتیجتاً لایعنی باتوں میں وقت ضائع ہوجاتا ہے اور مسئلہ حل ہونے کی بجائےجوں کا توں رہتا ہے۔ ایسے میں منطق (logic) 'بحث (Argument) اور استدلال (Reasoning) سے کام لینا دانش مندی کی علامت ہے۔ منطق علمِ فکر ہے، جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دلیل کو کیسے درست طریقے سے ترتیب دیں، سوچ کو کس طرح منطقی بنائیں کہ نتیجہ درست ہو۔
استدلال وہ عمل ہے، جس میں ہم دلائل یا شواہد کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کرتے ہیں، جب کہ بحث وہ عمل ہے، جس میں ہم کسی بات کو ثابت کرنے یا سمجھانے کے لیے دلائل پیش کرتے ہیں۔ بحث میں استدلال اور منطق دونوں استعمال ہوتے ہیں، مگر بحث کا مقصد عام طور پر دوسروں کو قائل کرنا یا اپنانقطۂ نظر سمجھانا ہوتا ہے۔
منطق ، استدلال اور بحث کا درست استعمال کیا جائے، تو گفتگو نہ صرف مؤثر بلکہ نتیجہ خیز بھی ہو سکتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بھی ہماری فہم کے لیے باتیں سادہ اور واضح انداز میں بیان کی ہیں، تاکہ ہم پیچیدہ چیزوں کو آسانی سے سمجھ سکیں۔ترجمہ:’’اور ہم نے آپ ؐ پر یہ کتاب اُتاری تاکہ ہر چیز کے بارے میں واضح ہدایت ملے۔‘‘ (سورۃ النساء ، آیت 174)۔
یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ غیر ضروری پیچیدگی پیدا نہ کریں اور گفتگو یا بحث کو سادہ، واضح اور تعمیری رکھیں۔لیکن یہ کس طرح ممکن ہے، یہ جاننے کے لیے اس کی اقسام کو سمجھنا ضروری ہے۔1۔ قیاسی استدلال (Deductive Reasoning) ، جو عمومی اصول یا قاعدے سے کسی خاص نتیجے تک پہنچنے کا طریقہ ہے۔ اس میں اگر مفروضات (premises) درست ہوں، تو نتیجہ بھی ہمیشہ درست ہوتا ہے۔2۔عمومی قیاس (Inductive Reasoning) یہ مخصوص مشاہدات یا تجربات کی بنیاد پر عمومی نتیجہ نکالنے کا طریقہ ہے۔
اس میں نتیجہ ہمیشہ یقینی نہیں ہوتا، بلکہ زیادہ ترامکان پر مبنی ہوتا ہے۔ 3۔افضل وضاحت کا استدلال (Abductive Reasoning)یہ محدود شواہد یا معلومات کی بنیاد پر سب سے موزوں یا ممکنہ وضاحت اخذ کرنے کا طریقہ ہے۔ اس میں نتیجہ یقینی نہیں، بلکہ بہترین قیاس (Best Guess) ہوتا ہے۔4تمثیلی استدلال (Analogical Reasoning)یہ اس وقت استعمال ہوتا ہے، جب ایک چیز کو دوسری سے مشابہت دے کر سمجھایا جائے۔
اس میں similarities کی بنیاد پر نئے حالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ 5۔جذباتی استدلال (Emotional Reasoning)یہ اس وقت استعمال ہوتا ہے، جب دلیل، جذبات یا احساسات کی بنیاد پر دی جائے۔ اس میں منطق کا اثر کم اور جذبات کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔6۔ اخلاقی استدلال (Moral Reasoning) اس استدلال میں فیصلہ یا دلیل، اقدار، ضمیر یا اخلاق کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔
یہ استدلال صحیح اور غلط کی شناخت میں مدد کرتا ہے۔7۔سبب اور نتیجے کا استدلال (Cause-and-Effect Reasoning)یہ اس وقت استعمال ہوتا ہے،جب کسی واقعے یا عمل کا نتیجہ سمجھنا ہو۔ اس میں عمل اورردّعمل کا تعلق واضح ہوتا ہے۔ روزمرّہ زندگی میں یہ استدلال فیصلوں میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔8۔ تنقیدی سوچ (Critical Thinking)اس میں کسی مسئلے یا معاملے پر مکمل غور و فکر کے بعد منطقی اور حقیقت پر مبنی نتیجہ نکالا جاتا ہے۔
اس میں کسی خیال، دعوے یا خبر کی صداقت چیک کی جاتی ہے اورمفروتوں یا تعصبات کو جانچا جاتا ہے۔9۔ تجزیاتی استدلال (Decompositional Reasoning)اس میں کسی چیز کو کچھ حصّوں میں تقسیم کرکے ہر حصّے کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور پھر پورے سسٹم کو سمجھا جاتا ہے۔
یہ تو تھے بحث کے وہ پہلو، جو گفتگو کو موثر بناتے ہیں۔ لیکن اسی بحث میں اکثر اوقات ایسےمنطقی (Fallacies) مغالطےبھی سامنے والے کی طرف سےپیش کی جاتےہیں، جو نہ صرف بحث کو پیچیدہ، غیر موثر بناتے ہیں، بلکہ مضبوط دلیل کو اور دینے والے کی شخصیت کو بھی مشکوک کردیتے ہیں۔ مغالطے وہ غلط یا دھوکا دینے والے استدلات ہیں، جو بحث کو اصل موضوع سے ہٹاتے ہیں یا فیصلہ کرنے میں گم راہ کرتے ہیں۔
مثلاً مخالف کو آسانی سے غلط ثابت کرنے کے لیے اصل دلیل کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جانا، شخصیت پر حملہ، موضوع بدل دینا ، منطق کے بجائے صرف جذبات یا احساسات کو دلیل کے طور پر استعمال کیا جانا وغیرہ۔ مغالطے استعمال کرنے کی وجہ علم کی کمی، جذباتی ذہانت کی کمی، نہ ماننے کی عادت، ہر بات منوانے کی عادت، بحث کرنے والے کی شخصیت سے ذاتی پُرخاش یا دیگر اور بھی بہت سی وجوہ ہو سکتی ہیں۔
خاص طور پر جو لوگ اقامتِ دین کے دعوے دار اور امّت کے رہنما ہوں، ان سے تو یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دلیل کی پختگی، انصاف اور حکمت سے بات کریں گے، لیکن جب وہی افراد منطقی مغالطوں کا سہارا لیتے ہیں، یعنی اصل سوال سے ہٹ جاتے ہیں، مخالف کی نیّت پر حملہ کرتے ہیں یا دلیل کو مسخ کر کے پیش کرتے ہیں، تو یہ طرزِعمل نہ صرف دل کو رنجیدہ کرتا ہے، بلکہ امّت کی فکری بنیادوں کو بھی ہلا کررکھ دیتا ہے۔
یہ رویّہ اس سوال کو جنم دیتا ہےکہ ہم کیسا نمونہ پیش کر رہے ہیں؟ کیا ہم واقعی وہ رول ماڈل ہیں، جو دوسروں کو سچّائی اور عدل کی طرف بلاتے ہیں، یا ہم بھی بحث کو جیتنے کے لیے سچائی کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں؟ یہی تضاد امّت کی کم زوری اور سچّائی کے دُھندلانے کی سب سے بڑی وجہ بن جاتا ہے۔
مغالطوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اصل سوال پر قائم رہیں، شخصیت پر حملہ نہ کریں، جذبات کے بجائے منطق استعمال کریں، مبالغہ آرائی سے گریز کریں، اور cause-effect کے تعلق کو درست معلومات کے مطابق سمجھیں۔
اس طرح گفتگو تعمیری اور مسئلہ حل کرنے والی بن سکتی ہے۔ گفتگو کرتے وقت بہت تیز رفتاری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ نہ ہی ایسی ہو کہ سننے والے کو سمجھنے میں دشواری ہو اور ایسا لہجہ بھی اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ سُننے والے کو بُرا لگے۔
یوں بھی چیخنا، چلّانا اور غیر مہذّب انداز میں گفتگو کرنا شرافت اور ذہانت کی دلیل نہیں۔ تعلیم کے جہاں بہت سے فوائد بیان کیے جاتے ہیں، وہاں یہ فائدہ بھی شامل ہے کہ تعلیم یافتہ انسان اپنی خود اعتمادی کھوئے بغیر مخاطب کی ہر طرح کی بات نہایت صبر و تحمّل سے سُنتا ہے۔