پودے، زندگی کی وہ خاموش سانسیں ہیں، جو زمین کو زرخیزی، فضا کو پاکیزگی اور انسان و حیوان کو غذا فراہم کرتی ہیں۔ یہ نہ صرف زمین کا زیور، بلکہ ہماری بقاء کی بنیاد بھی ہیں۔ پورے ماحول کو آلودگی سے بچاتے اور آکسیجن پیدا کرکے فضا کو مضر مادّوں سے پاک کرتے ہیں، اسی لیے انھیں ’’زمین کے پھیپھڑوں‘‘ سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ نیز، ان کے سبب ہمیں جسمانی آسائشوں کے ساتھ ساتھ ذہنی فرحت و انبساط اور سکون بھی حاصل ہوتا ہے۔
غرض یہ کہ پودے انسانی زندگی کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ پودوں کی صحت، ماحولیاتی توازن، انسانی و حیوانی صحت اور معیشت کے مابین اس قدر گہرا تعلق ہے کہ دنیا بھر میں پودوں، انسانوں، جانوروں اور ماحول کا باہمی ربط اجاگر کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی خوراک و زراعت کی تنظیم (FAO) ہر سال ’’بین الاقوامی یومِ صحتِ نباتات‘‘ مناتی ہے۔
صحت مند پودے نہ صرف خوراک کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں، بلکہ آکسیجن مہیّا کرنے، آلودگی کم کرنے، زمین کے درجہ حرارت کو متوازن رکھنے اور حیاتیاتی تنوع کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اگر آلودگی یا دیگر عوامل کے سبب یہ بیمار ہوجائیں، تو پوری ماحولیاتی زنجیر متاثر ہوجاتی ہے۔
کیڑوں، فنگس، بیکٹیریا، وائرسز اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر میں کروڑوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ FAO کے مطابق، ہر سال تقریباً40فی صد زرعی پیداوار مختلف بیماریوں اور کیڑوں کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہے، جس سے دنیا بھر میں خوراک کی قلّت اور بھوک میں اضافہ ہوتا ہے۔
پاکستان میں زراعت، معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، لیکن بدقسمتی سے یہی شعبہ پودوں کی صحت کے بحران سے شدید متاثر ہے۔ کپاس، گندم، چاول، مکئی، سبزیاں اور پھل آئے روز کیڑوں، وائرسز اور فنگس کا شکار ہو کر تباہ ہوتے جا رہے ہیں۔ پلانٹ ہیلتھ ڈائیگنوسٹک لیبارٹریز کی کمی، کسانوں کی عدم آگاہی، ناقص کیڑے مار ادویہ اور موسمیاتی شدّت، صورتِ حال کو مزید ابتر کررہی ہیں۔
صحت مند پودے نہ صرف انسانوں اور جانوروں کو خوراک مہیّا کرتے ہیں، بلکہ ادویاتی اجزاء، صنعتی خام مال اور روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ اگر پودے بیمار ہوں، تو یہ تمام شعبے متاثر ہوجاتے ہیں۔ مزید برآں، کیڑوں اور بیمار پودوں پر حد سے زیادہ یا غیر معیاری زرعی ادویہ کا استعمال انسانوں اور جانوروں میں زہریلے اثرات، پانی و زمین کی آلودگی اور ماحولیاتی بگاڑ کا بھی سبب بنتا ہے۔ ’’ون ہیلتھ‘‘ کا تصوّر اس تناظر میں ایک جامع ماڈل پیش کرتا ہے۔
انٹرنیشنل پلانٹ پروٹیکشن کنونشن (IPPC) جیسے ادارے عالمی سطح پر پودوں کی صحت کے تحفّظ کے لیے تحقیقی، تربیتی پالیسی اور حفاظتی اقدامات پر کام کررہے ہیں۔ عالمی سطح پر کیڑوں کی منتقلی کو روکنے، بیماریوں کی بروقت تشخیص، بائیوسیکیوریٹی اور پائے دار زرعی طریقوں کو فروغ دینے کے لیے کئی قوانین نافذ کیے گئے ہیں، جو ’’فائٹو سینیٹری معیارات‘‘ تجارت کے دوران پودوں کی بیماریوں کو پھیلنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
پاکستان میں بھی اس حوالے سے Plant Protection Department،NARC،PARC سمیت صوبائی زرعی محکمے کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں نے پودوں کی بیماریوں کی تشخیص، کسانوں کی تربیت اور تحقیق کے میدان میں کچھ پیش رفت کی ہے۔ FAO اور CABI کے تعاون سے(Integrated Pest Management (IPM پروگرامز متعارف کروائے گئے ہیں، جن میں حیاتیاتی کنٹرول، فصلوں کی گردش اور ماحول دوست زرعی تیکنیکس شامل ہیں، مگر ان سب اقدامات کا دائرہ کارمحدود اور زیادہ تر دیہی علاقوں کی پہنچ سے دور ہے۔
دوسری طرف درختوں کی بے دریغ کٹائی، جنگلات کی کمی اور شہری پھیلاؤ کے باعث مُلک کو ماحولیاتی تباہی کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کا صرف 5فی صد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے، جو عالمی معیار (25 فی صد) سے کہیں کم ہے۔ اگرچہ خیبر پختون خوا، گِلگت بلتستان اور شمالی علاقوں میں قدرتی جنگلات اب بھی کسی حد تک موجود ہیں، مگر وہ بھی تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔
بلین ٹری سونامی اور ٹین بلین ٹری سونامی جیسے منصوبے اس مسئلے کا دیرپا حل ثابت ہو سکتے تھے۔ مذکورہ پروگرامز کے تحت اربوں درخت لگانے، نرسریز قائم کرنے اور مقامی افراد کو اس عمل میں شریک کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن نچلی سطح پر عدم دل چسپی کی وجہ سے یہ منصوبے اپنی افادیت کھونے لگے۔
اگر عدم دل چسپی کی روش یوں ہی برقرار رہی اور شجرکاری مہمّات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا، تو مستقبل میں پاکستان کو شدید ماحولیاتی بحرانوں ، یعنی پانی کی قلّت، شدید گرمی، فصلوں کی بربادی اور زمینی کٹاؤ جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ زرعی شعبے میں کیڑے مار ادویہ کا بے جا اور غیر سائنسی استعمال بھی ہے۔ پاکستان میں اکثر کسان سستی، غیر معیاری یا ممنوعہ ادویہ استعمال کرتے ہیں، جو نہ صرف پودوں کی صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں، بلکہ زمینی پانی، خوردنی اجناس اور فضا بھی آلودہ کر دیتی ہیں۔
اس ضمن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں پودوں کی صحت کو قومی ترجیح قرار دے کر بایولوجیکل کنٹرول، آرگینک فارمنگ اور ماحول دوست زرعی طریقوں کو فروغ دیا جائے۔ نیز، حکومت کو جدید لیبارٹریز، تربیتی مراکز، کسانوں کو آگاہی فراہم کرنے کی مہمّات اور قانون سازی پر بھرپور توجّہ دینے کے علاوہ اسکولوں میں ماحولیاتی تعلیم، کسانوں کے لیے موبائل ایپلیکیشنز اور مقامی زبانوں میں معلوماتی مہمّات شروع کی جانی چاہئیں۔
عوامی شعور بے دار کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہر فرد کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پودے صرف کھانے یا سایہ دینے کے لیے نہیں، بلکہ یہ ہماری بقا کے ضامن ہیں۔ مساجد، اسکولز، کالجز، میڈیا، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور کمیونٹی سینٹرز کو اس پیغام کا ذریعہ بنائیں کہ ’’ایک درخت لگائیں، ایک زندگی بچائیں۔‘‘
مزید برآں،FAO کے تھیم ’’ون ہیلتھ‘‘ کے تناظر میں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر ہم پودوں کی صحت کو محفوظ رکھیں گے، تو ہم خود بھی محفوظ رہیں گے۔ بیمار پودے بیمار ماحول پیدا کرتے ہیں، جو کہ بالآخر انسانوں اور جانوروں کی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
صحت مند پودے نہ صرف خوراک مہیّا کرتے ہیں، بلکہ فضا کو صاف، زمین کو زرخیز اور ماحول کو معتدل رکھتے ہیں۔ یاد رہے، اگر آج ہم نے پودوں کی صحت کو اپنی ترجیح نہ بنایا، تو کل ہمیں اپنی بقاء کی جنگ لڑنی پڑے گی۔ آئیے! آج ہی سے عملی قدم اٹھائیں، پودوں کی حفاظت کریں، اور سبز پاکستان کا خواب حقیقت بنائیں۔