زاہد انجم ، لاہور
2012ء میں برڈ ووڈ روڈ، لاہور میں قائم ہونے والا گورنمنٹ امیر الدین میڈیکل کالج، گزشتہ 13برس سے اپنی تعلیمی سرگرمیاں عارضی بنیادوں پر پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے چند حصّوں میں جاری رکھے ہوئے ہے۔
عذر پیش کیا جاتا ہے کہ فنڈز کی عدم دست یابی کے باعث اس اہم تعلیمی ادارے کو اب تک اپنی مستقل عمارت میسّر نہیں آسکی۔ حالاں کہ ایک طویل عرصے سے مستقل عمارت سے محروم اس کالج میں محدود سہولتوں کے باعث تدریسی عمل بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
اس اہم ادارے میں اساتذہ، طلبہ اور عملے کے لیے جگہ کی کمی، جدید لیبارٹریز اور کلاس رومز کے فقدان، اور دیگر بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے سبب میڈیکل کی تعلیم کے عالمی معیار پر عمل درآمد ایک چیلنج بن چکا ہے۔ کالج کے اساتذہ کا موقف ہے کہ امیر الدین میڈیکل کالج نے محدود وسائل کے باوجود شان دار تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن ادارے کی ترقی کی راہ میں بنیادی ڈھانچے کی کمی، رکاوٹ بن رہی ہے۔
جگہ کی کمی کے باعث طلبہ کو مختلف شعبہ جات منتقل کیا جاتا ہے، جس سے ان کی تعلیم اور تربیت متاثر ہوتی ہے۔ یاد رہے، امیر الدین میڈیکل کالج کا الحاق یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (یو ایچ ایس)سے ہے اور یہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل(پی ایم ڈی سی)سے منظور شدہ ہے، جو ہر سال سیکڑوں طلبہ کو داخلہ دے کر ملک کو مستقبل کے بہترین معالج فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔
لاہور جنرل اسپتال اس کا ٹیچنگ اسپتال ہے۔ اس ادارے کا مقصد پاکستان کے ہیلتھ سیکٹر کو باصلاحیت، تربیت یافتہ اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے بھرپور نوجوان ڈاکٹرز کی فراہمی تھی، لیکن افسوس، یہ تعلیمی ادارہ تاحال اپنی مکمل شناخت کے لیے درکار بنیادی سہولت یعنی ایک باقاعدہ مستقل کیمپس سے بھی محروم ہے، مطلب اس کی اپنی مستقل شناخت اور جگہ تاحال ایک خواب ہے۔
عوامی، تعلیمی و طبی حلقوں اورطلبہ کی جانب سے امیر الدین میڈیکل کالج کے لیے فوری طور پر مستقل عمارت کی منظوری اور فنڈز جاری کرنے کے حوالے سے حکومت ِ پنجاب سے بارہا مطالبہ کیا گیا، مگر ہنوز عمل درآمد کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔تاہم، کالج کے پرنسپل، پروفیسر ڈاکٹر محمد فاروق افضل پُرامید ہیں کہ حکومتِ پنجاب امیر الدین میڈیکل کالج کی نئی عمارت اور ہاسٹلز کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے گی۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ ’’بورڈ آف مینجمنٹ نے محکمہ اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کو باضابطہ درخواست جمع کروائی ہوئی ہے، جس میں کالج کی علیحدہ عمارت، طلبہ کے لیے ہاسٹلز اور جدید تدریسی سہولتوں کی فراہمی کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا گیا ہے۔‘‘ پروفیسر فاروق افضل کے مطابق ’’تمام تر مسائل کے باوجود امیر الدین میڈیکل کالج نے تعلیمی میدان میں خود کوتسلیم کروایا ہے، یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ نے پاکستان اور بیرونِ ملک نمایاں کام یابیاں حاصل کی ہیں۔
یہ ادارہ13برس سے میڈیکل گریجویٹ ہی تیار نہیں کر رہا، بلکہ طب کے شعبے میں تحقیق اور صحت عامّہ کے میدان میں بھی مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔ کالج کو اگر اپنی عمارت فراہم کردی گئی تو یہ نہ صرف لاہور بلکہ پورے پاکستان کے لیے فخر و نیک نامی کا باعث بن سکتا ہے۔ کالج میں ہر سال تقریباً ایک سو طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے اور الحمدللہ ،ہم نے انتہائی محدود وسائل کے باوجود اعلیٰ تعلیمی معیار برقرار رکھا ہوا ہے۔
تاہم خدشہ ہے کہ اگر ادارے کواپنی مستقل عمارت نہ ملی، تو نئے تعلیمی رجحانات اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی خاصی مشکل ہوجائے گی، کیوں کہ بہرحال ایک تعلیمی ادارے کی شناخت، وقار اور ترقی کے لیے بنیادی ڈھانچے اور عمارت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
امیر الدین میڈیکل کالج ایک خواب ہے، جسے اب تک تعبیر نہیں ملی، ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ کالج کو ایک مستقل، مکمل اور جدید عمارت فراہم کی جائے تاکہ ہم بھی دیگر طبّی اداروں کی طرح اپنی کارکردگی پر بھرپور توجّہ مرکوز کرسکیں۔‘‘