لاہور(آصف محمود بٹ)سابق مشیر اطلاعات وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ شدت پسندی اور دہشت گردی کو صرف طاقت کے ذریعے شکست نہیں دی جا سکتی بلکہ اس کے لیے انصاف، قانون میں اصلاحات، درست بیانیہ اور عوامی شمولیت ناگزیر ہے، خیبرپختونخوا کو تنازعات، غربت، بے روزگاری، کمزور طرزِ حکمرانی اور عدالتی و جرگہ نظام جیسے کثیرالجہتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور رکن اسمبلی سید علی حیدر گیلانی نے کہا کہ ٹی ٹی پی اور القاعدہ جیسے گروہوں کے بیانیے کو دلیل کے ساتھ رد کرنا مشکل نہیں ، معتبر آواز، سادہ زبان اور ایسے پلیٹ فارمز کی ضرورت ہے جو خطرے سے دوچار طبقات تک براہِ راست پہنچ سکیں ۔ انہوں نے یہ بات پنجاب سینٹر آف ایکسیلینس آن کاؤنٹرنگ وائلنٹ ایکسٹریمزم (سی وی ای) کے لیے پانچ سالہ حکمت عملی کی تیاری کے سلسلے میں منعقدہ دو روزہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔بیرسٹر سیف نے خیبرپختونخوا کے تجربات کی روشنی میں بتایا کہ آج کی شدت پسندی ایک ہائبرڈ خطرہ بن چکی ہے جس میں دہشت گردی، پروپیگنڈا اور قانون کے غلط استعمال جیسے عناصر شامل ہیں۔ انہوں نے“لا فئیر”کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جہاں ریاست قانون کو مثبت طور پر استعمال کر سکتی ہے، وہیں شدت پسند گروہ سست عدالتی نظام، گواہوں کے کمزور تحفظ اور کم سزا کی شرح کا فائدہ اٹھا کر دوبارہ سرگرم ہو جاتے ہیں، جس سے عوام کا انصاف پر اعتماد مجروح ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کو طویل تنازعات، غربت، بے روزگاری، کمزور طرزِ حکمرانی اور عدالتی و جرگہ نظام کے باہمی وجود جیسے کثیرالجہتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2024 میں پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل رہا جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، جن میں تقریباً 95 فیصد حملے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے۔ 2020 کے بعد کمی کے باوجود 2021 سے دوبارہ تشدد میں اضافہ دیکھا گیا۔