ماضی کے تعلیمی ادارے، تہذیب و تمدّن کے اہم مراکز، سرچشمے ہوا کرتے تھے، جہاں صرف نصابی تعلیم ہی نہیں، اخلاقیات، ثقافت اور معاشرتی اقدار بھی سکھائی جاتی تھیں، جن سے فرد اور معاشرے کی مجموعی تربیت ہوتی تھی۔
اُس دَور کے تعلیمی ادارے اپنی روایات، تاریخ اور ادبی ورثے کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کا ذریعہ تھے، جہاں مذہبی اور اخلاقی تعلیمات پر زور دیا جاتا تھا، جس سے معاشرے میں امن اور رواداری کو فروغ ملتا اور تعلیم یافتہ افراد معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے اور نظم و ضبط قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔
جب کہ آج کل تعلیمی اداروں (اسکولز، کالجز) میں اگرچہ باقاعدہ نصاب کے ذریعے علم تو سکھایا جاتا ہے، مگر ان اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے بیش تر طلبہ رٹّا لگانے کی مشینیں بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ تعلیم کا وہ طریقہ ہے، جس میں طالب ِعلم بغیر سمجھے، محض یادداشت کے بل بُوتے پر اپنی محدود معلومات دہراتے ہیں، تاکہ امتحانات میں کام یابی حاصل کرسکیں۔
اس عمل سے تخلیقی سوچ اور گہرا علم قطعی پروان نہیں چڑھتا۔ لہٰذا فی زمانہ ہمیں اپنے تعلیمی ڈھانچے میں جدّت، عملی تجربے اور عالمی معیار کے مطابق تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے، جو طلبہ کو صرف رٹی رٹائی باتیں ہی نہیں سکھائے، بلکہ حقیقی فہم اور عملی علم پر بھی زور دے۔
بدقسمتی سے آج ملک کے گلی کُوچوں میں پھیلے نجی اسکول، باہر سے تو قلعۂ علم دکھائی دیتے ہیں، مگر اندر قدم رکھتے ہی ایک منڈی کا منظر پیش کرتے ہیں، جہاں علم ترازو میں تولا جاتا ہے، طالبِ علم سکّے اور استاد دکان دار کی صُورت سامنے کھڑا ہوتا ہے، جو نصاب کی آڑ میں قیمتیں بڑھاتا جاتا ہے۔ یہ اسکولز، درس گاہیں نہیں، علم کے مُردہ خانے ہیں، جہاں فہم و فراست کی لاشیں پڑی ہیں اور ان پر نوٹس کی چادریں ڈال دی گئی ہیں۔
استاد کی آنکھوں میں اب جذبہ نہیں، بلکہ تن خواہ کی فکر واضح نظرآتی ہے۔ وہ اپنی تخصیص سے عاری، ہر مضمون کی مشین بن چکا ہے۔ عجب صورتِ حال ہے کہ بائیولوجی کا ماہر کیمسٹری پڑھا رہا ہے، فزکس کا استاد ریاضی کے سوال سمجھا رہا ہے اور اردو کا شاعر معاشرتی علوم کا تذکرہ کررہا ہے۔ افسوس، تعلیم اب ایک مقدّس عمل نہیں، بلکہ کاروبار بن چکی ہے اور یہ ایسی مشینیں پیدا کررہی ہے، جو صرف رٹا سکتی ہیں، سوچ سمجھ نہیں دے سکتیں۔
ثانوی جماعت کے طالبِ علم، سائنس کے بنیادی تصوّرات،مختلف نظام، اصلاحات، تراکیب وغیرہ صرف حفظ کر لیتے ہیں، سمجھتے بالکل نہیں۔ ان کا ذہن ایک ’’میموری کارڈ‘‘ بن چُکا ہے، جو بھرنے کے بعد وقتاً فوقتاً خالی کردیا جاتا ہے، مگر اس میں تخلیقی اَپ لوڈ کی کوئی گنجائش نہیں۔ بہت سے بچّے، پلانٹ اور اینمل سیل میں فرق نہیں کر پاتے، انھیں محض فوٹو سینتھیسز کا مطلب رٹا دیا گیا، مگر اس کے پچھلے عمل سے نابلد رکھا گیا۔
ایسے بچّوں سے جب ’’نیوٹریشن‘‘ یا ’’سیل ڈویژن‘‘ سے متعلق پوچھا جاتا ہے، تو ان کے دماغ کسی غیر زبان کے لفظ پر الجھ جاتے ہیں۔ ان کے لیے سائنس ایک داستان ہے، جس کا آغاز ’’یاد کرو‘‘ سے ہوتا ہے، تو انجام ’’نمبر لو‘‘ پر۔دراصل، ہمارا نظام بس روایتی علم پر مرکوز ہے، جب کہ مغرب کے نظامِ تعلیم میں جدّت، لچک اور طالبِ علم کی مجموعی نشوونما پر زور دیا جاتا ہے، جس میں سائنس، ٹیکنالوجی، فنون لطیفہ، اور سماجی وذہنی نشوونما وغیرہ شامل ہیں۔ہمارے یہاں وہ تعلیمی اصطلاحات، جنہیں بین الاقوامی سطح پر بنیادی حیثیت حاصل ہے، یا تو استعمال ہی نہیں ہوتیں یا پھر صرف اساتذہ کی سطح پر رہ جاتی ہیں۔
بچّوں کو نہ تو ’’سائیکو پیڈا گوگی‘‘ کے تحت (نفسیات کا ایک ایسا شعبہ، جو طلبہ کی علمی و جذباتی نشوونما میں معاونت کرتا ہے) تعلیم دی جاتی ہے، نہ ہی تعمیراتی نظریات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ انہیں یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ علم باہر سے ٹھونسا نہیں جاتا، بلکہ اندر سے جنم لیتا ہے۔
بچّے کو سیکھنے کے لیے سہارا، مسلسل رہنمائی، سوال کرنے کی اجازت اور سوچنے کی آزادی چاہیے۔ تاہم، نجی اسکولز کے مالکان کے دماغوں پر وہی دھواں چھایا ہوتا ہے، جو کسی فیکٹری کی مشین سے اٹھتا ہے۔
بس پیداوار نکلنی چاہیے، معیار کی پروا نہیں۔ استاد کو اس کی قابلیت، تجربے، یا جذباتی وابستگی سے نہیں ناپا جاتا۔ وہ استاد، جو کبھی روحانی باپ ہوا کرتا تھا، اب یوزر فرینڈلی روبوٹ بن چکا ہے۔ جسے جب چاہیں استعمال کریں، جب چاہیں عضوِ معطل بنادیں۔ طلبہ میں نہ استاد کا احترام باقی رہا ہے، نہ علم کا تقدّس۔ والدین، جن کا کردار کبھی ’’ معاون‘‘ کا تھا، اب ’’کسٹمرز‘‘ بن چکے ہیں، اورعام تاثر یہ ہے کہ کسٹمر ہمیشہ درست ہوتا ہے، چاہے وہ استاد کی بےعزّتی کرے، یا نظمِ جماعت کو چکنا چُور۔
ہماری نصابی کتب، خاص طور پر مقامی بورڈز کی نویں اور دسویں جماعت کی سائنس کی کتابیں، کیمبرج کی ابتدائی جماعت کی سطح سے بھی کم ہیں، جہاں چھٹی جماعت میں بچّوں سےقیاس ،مشاہدہ کرنے، اندازہ لگانے اور رپورٹس لکھنے کو کہا جاتا ہے، جب کہ ہمارے یہاں نویں جماعت کا طالبِ علم بھی ’’سیل‘‘ کی تعریف رٹ رہا ہوتا ہے۔
یہاں نہ تحقیقی سوالات ہوتے ہیں، نہ تنقیدی سوچ کا تصوّرہے، نہ کوئی لیبارٹری کی بنیاد پر تشخیص، نہ کوئی پراجیکٹ پر مبنی تعلیم۔ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے استاد کو ’’تعلیم کا معمار‘‘ تسلیم کرنا ہوگا، نہ کہ ایک مزدور۔ اس کی تربیت، تن خواہ، عزّت اور تدریسی آزادی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ہر استاد کو اُس کے مضمون میں مہارت حاصل ہو، مثلاً وہ تشکیلاتی تشخیص، ہم مرتبہ جائزوں، تفریقات اور سہاروں سے واقف ہو۔
اسکولز میں متعلقہ مضامینہ سے متعلق تعلیم لازمی ہونی چاہیے، تاکہ بائیولوجی کا استاد صرف بائیولوجی ہی پڑھائے اور اس میں گہرائی، تحقیق اور سائنسی نظریات کو بہتر طریقے سے منتقل کرے۔ اسی طرح بچّوں کو یہ سکھایا جائے کہ ہر سائنسی مشاہدہ ایک سوال کی طرف جاتا ہے اور ہر سوال، تحقیق کی جانب۔ ان میں خود تشخیصی اور سیکھنے کی ذمّے داری کا شعور پیدا کیا جائے۔
انہیں بتایا جائے کہ علم صرف امتحان پاس کرنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ زندگی سمجھنے کا ہنر ہے۔ یہ بھی لازم ہے کہ نصاب کو بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کیا جائے۔ آکسفورڈ یا کیمبرج کی کتب کو صرف فیشن نہ بنائیں، بلکہ ان میں موجود سائنسی مہارتوں، تصویری وضاحتوں اور تحقیقی سوالات کو بھی مقامی نصاب کا حصّہ بنائیں۔
ہر مضمون میں پراجیکٹ بیسڈ لرننگ، لیب ٹاکس، اورل پریزنٹیشن اور رئیل لائف ایپلی کیشنز کو شامل کیا جائے، تاکہ بچّوں کا ذہن محض محفوظ معلومات کا ڈبّا نہیں، تجزیاتی سوچ کا چشمہ بنے اورجب تک ہم یہ بنیادی اصلاحات نہیں کریں گے، عقل و شعور، فہم و ادراک سے عاری روبوٹس ہی پیدا کرتے رہین گے۔
یاد رکھیے، اگر تعلیم تجارت بن جائے، تو استاد دکان دار، طالبِ علم خریدار اور کتاب محض رسید بن کے رہ جاتی ہے۔ ایسی قومیں کبھی اپنی تقدیر خود نہیں لکھ سکتیں، بس دوسروں کا لکھا ہی دہراتی، رٹتی رہتی ہیں۔