کراچی (بابر علی اعوان / اسٹاف رپورٹر) سندھ میں ریبیز اور آوارہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات ایک سنگین عوامی صحت کے بحران کی صورت اختیار کر چکے ہیں،جناح اور انڈس اسپتال میں 18 ہلاکتیں رپورٹ۔ وزارِت صحت سندھ کے مطابق صوبے بھر میں ایک سال کے دوران کتے کے کاٹے کے 2 لاکھ 84 ہزار 138 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ ماہرین کے مطابق رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی تعداد بھی ہزاروں میں ہو سکتی ہے کیونکہ صوبے میں بیماریوں کے اعداد و شمار جمع کرنے کا کوئی مکمل اور منظم نظام موجود نہیں۔دوسری جانب انڈس اسپتال کورنگی میں زیرِ علاج جیکب آباد سے تعلق رکھنے والا 12 سالہ حیدر علی بدھ کو ریبیز سے انتقال کر گیا، جس کے بعد انڈس اسپتال میں رواں سال ریبیز سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 9 ہو گئی ہے۔ انڈس اسپتال کی انتظامیہ کے مطابق ان ہلاکتوں کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جاں بحق ہونے والے پانچ افراد نے قریبی مراکز سے ریبیز سے بچاؤ کی ویکسین لگوائی تھیاس کے باوجود ریبیز کا مرض ان میں سرائیت کرگیا اور وہ جانبرنہ ہو سکے جس سے ویکسین کی افادیت اور لگانے کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی میں بھی رواں سال ریبیز سے 9 مریض جاں بحق ہوئے۔ اس طرح صرف دو اسپتالوں میں ریبیز کے باعث 18 افراد انتقال کر چکے ہیں، جو بیماری کی شدت اور سنگینی کو واضح کرتا ہے۔ماہرین کے مطابق کتے کے کاٹے کے بیشتر متاثرین کو بروقت اور مکمل پوسٹ ایکسپوژر پروفیلیکسیس (PEP) میسر نہیں آ پاتی، جس کے باعث معمولی زخم بھی جان لیوا بیماری میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ریبیز ایک مکمل طور پر قابلِ بچاؤ مرض ہے تاہم علامات ظاہر ہونے کے بعد یہ تقریباً ہمیشہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ماہرین صحت کے مطابق سندھ میں آوارہ کتوں کی آبادی، ویکسینیشن، نس بندی اور ریبیز کو کنٹرول کرنے کے نظام میں واضح کمزوریاں موجود ہیں اس لئےجب تک مؤثر ڈاگ کنٹرول، ماس ویکسینیشن اور ٹھوسعملی اقدامات نہیں کئے جاتے ریبیز سے انسانی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ جاری رہنے کا خدشہ ہے۔