کراچی (ذیشان صدیقی/ اخترعلی اختر) کراچی میں "18ویں عالمی اردو کانفرنس 2025 جشن پاکستان" کا شاندار آغاز، عالمی شہرت یافتہ ادیبوں، دانشوروں اور شعراء کا میلہ، جنگ اور جیو کانفرنس کے میڈیا پارٹنر ہیں ، احمد شاہ کا خطبہ استقبالیہ،قائد اعظم کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا، نوجوانوں سمیت بڑی تعداد میں عوام شریک۔ تفصیلات کے مطابق آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے چار روزہ ”اٹھارہویں عالمی اردو کانفرنس 2025۔ جشن پاکستان “ کاآغاز کردیا گیا، افتتاحی تقریب میں مہمان خصوصی گورنر سند ھ کامران خان ٹیسوری نے خصوصی شرکت کی، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے تمام مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا۔افتتاحی تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک کے بعد قومی ترانہ بجا کر کیا گیا جبکہ عالمی اردو کانفرنس پر بنائی گئی شو ریل پیش کی گئی۔ ”18ویں عالمی اردو کانفرنس 2025۔ جشن پاکستان“ میں نوجوان طلباءسمیت عوام کی بڑی تعداد ہال میں موجود تھی، اس موقع پر قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ اور کرسمس کا کیک بھی کاٹا گیا، افتتاحی اجلاس میں معروف شاعر افتخار عارف،اسد محمد خاں، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، نورالہدی شاہ،مصطفی قریشی، طارق رفیع ، اصغر ندیم سید، حفیظ خان، ثروت محی الدین، اعجاز فاروقی، ہما میر، ناصر عباس نیر ، یوسف خشک،مظہر عباس، منور سعید ،غازی صلاح الدین ، معروف صحافی سہیل وڑائچ نے شریک تھے۔ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ جبکہ معروف ادیب و نقاد ناصر عباس نیئر کلیدی خطبہ پیش کیا۔ تقریب کی نظامت کے فرائض ہما میر نے انجام دیے، اس سال 18ویں عالمی اردو کانفرنس کی تھیم ”جشن پاکستان“ رکھی گئی ہے ، اس موقع پر آڈیٹوریم پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ میں تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ اردو کانفرنس ایک کہکشاں ہے، یہاں پاکستانی ادیب، شاعر ، فنکار اور اداکار سب جمع ہیں، میں 20، 25برس پہلے آیا تو اس شہر میں کوئی ایسا ادارہ نہیں تھا ، پورا ہندوستان اجڑا تو یہاں ادب ،موسیقی اور فنون کے سارے بڑے لوگ یہاں آئے، پورے پاکستان سے ہجرت ہوئی ، لیکن بدقسمتی سے کوئی ادارہ نہیں تھا جو ادب اور ثقافت کے لیے کام کرے، میرے بزرگ جو اس دنیا سے گزرگئے میں سمجھتا ہوں وہ جنتی لوگ تھے، اس میں مشتاق احمد یوسفی، فاطمہ ثریا بجیا، جمیل الدین عالی، جمیل جالبی، اسلم فرخی، فرمان فتح پوری صاحب سمیت اس شہر اور ملک کے شامل تھے، ہندوستان کا ہر بڑا ادیب اس کانفرنس میں شریک ہوا ، ڈاکٹر ضیاءالحسن اور ان کی بیگم حمیدہ شاہین کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ واہگہ بارڈر سے شمیم حنفی، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، خلیق انجم، شاہد ماحولی ، شہزاد احمد ، افضال قاضی اور دیگر جتنے بھی اکابرین آتے تھے پہلے ان کو گھر لے جاتے پھر یہاں لاتے، انتظار حسین ، عبداللہ حسین ، حمید اختر، ناصر کاظمی،سلیم اختر صاحب کو ساتھ لاتے۔ یہ سب ہمارے معاشرے کا روشن چراغ ہیں، جمیل الدین عالی ، انتظار حسین کے سو برس پر بھی ہم سیشن کررہے ہیں، 18ویں عالمی اردو کانفرنس کو ہم نے ”جشن پاکستان“ کا نام دیا ہے، ہم آرٹ اور کلچر کا ادارہ ہیں، ہم ان سارے لوگوں کو منا رہے ہیں جو سب اپنے حصے کا کام کرکے چلے گئے، اس میں مصور، موسیقار، گلوکار، فلم کے ایکٹر ڈائریکٹر بھی شامل ہیں، سلیم الزماں صدیقی سے لے کر صادقین تک ، ظہور الاخلاق سے لے کر شاکر علی تک، انور جلال شمزہ سے لے کر Callen Davidتک جو لوگ اس ملک میں آئے یا یہاں کے باشندے تھے انہوں نے اس فنون کو آگے بڑھایا، یہ کانفرنس ان سب کو ٹربیوٹ ہے، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی ، افتخار عارف ، پروفیسر سحر انصاری، فاطمہ حسن سمیت کئی لوگ شروع دن سے ہمارے ساتھ ہیں، جب ہم نے اردو کانفرنس شروع کی تو ایک روپیہ نہیں تھا، پھر یہ سب سے زیادہ بڑی کانفرنس ہوئی جو سات دن تک چلی ۔ دنیا بھر سے لوگ آئے، کراچی کے رہنے والوں نے اپنے دروازے کھولے، اپنے گھروں میں رکھا، کچھ کراچی یونیورسٹی کے ہوسٹل میں ٹھہرے، کچھ کی کراچی کے لوگوں نے ٹکٹیں خریدیں۔ پورے شہر نے مل کر دنیا کی اتنی بڑی کانفرنس کی بنیاد ڈالی، یہاں نہ کوئی عمارت تھی اور فنڈنگ ، لیکن سب میں ایک جذبہ تھا، نبی بخش بلوچ، شمیر الحیدری، ڈاکٹر سراج الحق میمن، آغا صاحب جتنے زندہ لوگ تھے وہ سب یہاں آئے، سوبھوگیان چندانی اور حاجرہ مسرور ہماری پہلی کانفرنس میں ہمارے ساتھ تھے۔