• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج تک ٹریفک سگنلز کے بارے میں یہی سننے میں آیا ہے کہ ان سے ٹریفک کنٹرول کیا جاتا ہے، عوام الناس کو ڈسپلن سکھایا جاتا ہے چنانچہ سرخ بتی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب آپ چوک کراس نہیں کرسکتے لہٰذا جہاں ہیں وہیں رک جائیے۔ پیلی بتی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اشارہ تبدیل ہونے والا ہے اور سبز بتی اس امر کی علامت ہے کہ بلادھڑک سڑک پار کر جائیں! رات کے وقت یا کم رش والے علاقوں میں پیلی بتی جل بجھ رہی ہوتی ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ آپ دائیں بائیں دیکھ کر سڑک کراس کریں یا رک جائیں یعنی فیصلے کا اختیار آپ کو دے دیا جاتاہے ۔
لیکن کچھ ’’اشارے‘‘اس کے علاوہ بھی ہیں جن کے مطابق ’’اہل نظر ‘‘رک جانے، آگے بڑھنے یا ادھر ادھر دیکھ کر پیش قدمی کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں مگر وہ کالم کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، اس کے لئے محلے والوں کو کانفیڈنس میں لینا پڑتا ہے۔ تاہم اس وقت میں جن اشاروں کی بات کر رہا ہوں وہ عام نوعیت کے معاملات کے حوالے سے ہیں، ماشااللہ ہم ایک مہذب ملک کے شہری ہیں چنانچہ ہمارے ہاں بھی وہ تمام اچھے قوانین موجود ہیں جو مہذب ملکوں میں پائے جاتے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ وہاں یہ سب کے لئے ہیں ہمارے ہاں کچھ کے لئے ہیں، کچھ کے لئے نہیں ہیں۔ عوام الناس کے لئے ہم نے ایک بہت بڑی سرخ بتی جلا رکھی ہے جو آتش پرستوں کی آگ کی طرح ہر وقت جلتی رہتی ہے، اس سرخ بتی کا مطلب ہے آپ اپنی جگہ کھڑے رہیں، دوسری طرف سبز بتی جل رہی ہوتی ہے جو خواص کیلئے ہوتی ہے اور وہ بلادھڑک ادھر ادھر سے گزرتے چلے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے ہی میں نہیں آتا، جب عوام واویلا مچانا شروع کرتے ہیں اور حالات بے قابو ہونے کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے تو تھوڑی دیر کے لئے انہیں بھی گزرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے لیکن پھر فوراً ہی سرخ بتی آن ہو جاتی ہے اور خواص ایک دفعہ پھر جوق در جوق اپنے پسندیدہ رستوں سے یوں گزرنا شروع کر دیتے ہیں جیسے بہشتی دروازے سے گزر رہے ہوں۔ کئی دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ دکھاوے کیلئے حکمرانوں کو سرخ بتی جلانی پڑی ہے لیکن اس سے پہلے وہ طبقہ خواص کو پیلی بتی جلا کر اشارہ دے دیتے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد بتی سرخ ہونے والی ہے چنانچہ وہ اپنا اسٹاک (جو گناہوں کا بھی ہو سکتا ہے ) مارکیٹ میں لے آئیں یا اسے روک لیں، سو یہ وہ سلسلہ ہے جو گزشتہ 67 برس سے جاری و ساری ہے اور ’’باخبر ذرائع کے مطابق ‘‘ مستقبل قریب میں بھی جاری رہے گا !
میں نے اپنے ایک دوست سے اس صورتحال کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ اس میں کڑھنے کی کوئی بات نہیں، اس کی دلیل یہ تھی کہ ٹریفک کے قوانین لچک دار ہوتے ہیں یعنی چوک میں کھڑے سپاہی کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ ٹریفک سگنلز کی موجودگی کے باوصف معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیکر جدھر سے چاہے ٹریفک گزار دے اور جدھر سے چاہےروک دے ۔کیونکہ اگر قانون پر آنکھیں بند کرکے عمل کیا جائے تو اس سے کئی طرح کے ’’بحران‘‘ پیدا ہو سکتے ہیں، اسی طرح یہ لچکدار رویہ عام قوانین کے ضمن میں بھی برتا جا سکتا ہے ، اگر دوسرے مہذب ملکوں میں اس کا رواج نہیں ہوتا، مہذب ملکوں کے قوانین سے پابندی کرانے سے اتنے بڑے بڑے سیاسی بحران تو پیدا نہیں ہوتے جتنے ہمارے ہاں پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ اگر ہمارے ہاں ٹریفک سگنلز کی موجودگی کے باوجود ایک وردی والا معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے تو وہ ٹھیک کرتا ہے !
اگر میرے قارئین میں کسی سادہ لوح قاری کا خیال ہے کہ میں نے اپنے اس دوست سے اختلاف کیا ہو گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے، میں ’’وہ‘‘ جماعتیں پاس ہوں ،مجھے پتہ ہے کہ کہاں اختلاف کرنا ہوتا ہے اور کہاں نہیں کرنا ہوتا، البتہ اس ضمن میں مجھے ایک معمولی سا اختلاف ہے اور اس قسم کے صحت مند اختلاف کی اجازت انتہائی آمرانہ نظام میں بھی ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں تو ماشا اللہ جمہوریت ہے، اختلاف یہ ہے کہ عوام اور خواص کے لئے علیحدہ علیحدہ قوانین میں یقینا کوئی حرج نہیں لیکن رکھ رکھائو بھی کوئی چیز ہے ،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کے چوراہوں میں سگنلز نصب ہیں، یہ سگنلز جن کے کنٹرول میں ہیں ان کے اشارے سے جلتے بجھتے بھی عوام کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ ان کی باری آنے پر بتی اچانک سرخ کیوں ہو جاتی ہے اور خواص کے لئے یہ مستقل سبز کیوں رہتی ہے لیکن قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے پھیلائو کی وجہ سے عام لوگوں تک بھی وہ باتیں پہنچنا شروع ہو گئی ہیں جو خواص تک سینہ بہ سینہ پہنچائی جاتی تھیں اور ظاہر ہے یہ بات ملک و قوم کے مفاد میں نہیں چنانچہ اگر ہمارا مقتدر طبقہ چل چلائو نہیں چاہتا تو اسے رکھ رکھائو کا یہ رویہ اپنانا پڑے گا ، خدانخواستہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی بدعنوانیوں پر مشتمل جو نظام ہم نے اتنی ہمت سے اور اتنے طویل عرصے میں نافذ کیا ہوا ہے اسے درہم برہم کر دیا جائے بلکہ میری ان گزارشات کا مطلب صرف یہ ہے کہ احتیاط سے کام لیا جائے عوام کےساتھ وہی کچھ کیا جائے جو مقتدر طبقہ ان کے ساتھ کرنا چاہتا ہے لیکن یہ سب کچھ اتنا واضح نہ ہو کہ اپنی بدحالی کا جو الزام وہ صدیوں سے مقدروں کو دیتے آئے ہیں وہ خوامخواہ مقتدر طبقے کے کھاتے میں ڈالنا شروع کر دیں ۔ امید ہے میری یہ تجویز مقتدر طبقے کو پسند آئے گی اس صورت میں مال غنیمت میں کچھ حصہ اس ازلی وفادار کو بھی ملنا چاہئے۔ متعلقہ حلقوں سے درخواست ہے کہ تجویز کی معقول قسم کی ’’رسید ‘‘ سے براہ کرم جلد از جلد مطلع فرمائیں، شکریہ !
اور اب آخر میں اپنی ایک تازہ ’’غزل‘‘ جو سراسر بکواس ہے، ملاحظہ فرمائیں !
عاشقی واشقی ہے سب بکواس
ہوتی ہو گی کبھی، یہ اب بکواس
ہجر کے اور وصال کے قصے
شاعری وائری ہے سب بکواس
عشوہ و غمزہ و ادا بیکار
چشم و رخسار ہو یا لب بکواس
اپنا دن ہے نہ رات اپنی ہے
دن ہے بکواس اور شب بکواس
زندگی کتنی خوبصورت تھی
کتنی لگنے لگی ہے اب بکواس
بوجہل آج کے زمانے کے
کرتے رہتے ہیں روز وشب بکواس
ایک خلقت جمع ہے سننے کو
آپ حضرت، کریں گے کب بکواس
کوئی بکواس کی وجہ تو ہو!
کرتے رہتے ہو بے سبب بکواس
کوئی تو عقل کی بھی بات کرے
صبح سے شام تک عجب بکواس
تیرے منہ سے تو پھول جھڑتے ہیں
میری باتیں ہیں سب کی سب بکواس
کس قدر دوستی ہے دونوں میں
رہبری رہزنی کے ڈھب بکواس
سب سے پہلے انا کی رکھوالی
عاشقی میں ہو بندگی؟ بکواس
کیا کروں میں جو دیکھ بیٹھا ہوں
زہد و لہو و لعب بکواس
بھونکنا جب نہیں کروں گے بند
دوسرا بھی کرے گا تب بکواس
کوئی مطلب نہ ڈھونڈنا اس میں
میں نے کہہ جو دیا ہے سب بکواس
ایک یہ زاویہ بھی ہے صاحب
جو بھی دیکھتا ہے سب کا سب بکواس
کچھ نہ کچھ تو عطا ہوا ہو گا
کوئی کرتا ہے ورنہ کب بکواس
تازہ ترین