یوں تو تاریخ کے اوراق میں بادشاہوں اور چنگیز صفت حکمرانوں کے عروج و زوال کی بہت سی کہانیاں زیر مطالعہ رہیں مگر جو تصویر ’’میرا سلطان‘‘ نے پیش کی وہ سب سے انوکھی اور معلوماتی ہے۔ وقت کا جبر، معاشرتی چپقلش اور محلاتی سازشیں ایک طرف، ماحول کی رنگینیاں، بادشاہ کی دھاک اور مراعات دیکھ کر بہت سے جذباتی اور جنونی لوگوں کا من ضرور للچاتا ہے۔ وہ جاگتی آنکھوں لمحہ بھر کو اس مقام پر کسی نہ کسی کردار کا پیرہن اوڑھ کر اپنی خواہشات کی تشفی کرتے ہیں لیکن اگر وہ جنون کے ساتھ ساتھ سیاسی اور حکومتی مزاج کے حامل ہوں تو پھر اسے عملی شکل دینے کے لئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ وہ اپنے خواب کی تعبیر کے لئے مختلف طاقتوں سے سودے بازی کرتے ہیں۔ آج کل وزیر اعظم ہائوس کے محاصرے سے پرانے وقتوں کی جنگوں کے فلمی مناظر یاد آ گئے۔ جہاں سب سے مضبوط بادشاہ کا قلعہ ہوتا تھا کیوں کہ یہ اس کی سلطنت کا استعارہ تھا۔ اگر یہ قائم تو بادشاہ کی حکومت بھی قائم سمجھی جاتی تھی اس لئے مخالف فوجیوں کا ٹارگٹ قلعے کا حصار اور اس میں موجود بادشاہ کو قابو میں کرنے کی تدبیر ہوا کرتا تھا کیوں کہ اس کا مقصد جنگ جیتنا سمجھا جاتا تھا کیوں کہ قلعے کی فتح کا اعلان برسرِ پیکار بادشاہ کی فوج اور عوام کو اطاعت پر مجبور کر دیتا تھا اور باقی مسئلے خود بخود حل ہو جاتے تھے۔ موجودہ وزیراعظم ہائوس کا حصار یہی سوچ کر کیا گیا ہے۔ دونوں انقلابیوں پر تاریخ کی کتابوں کے مطالعے کے دوران کشف ہوا کہ وہ عام آدمی نہیں اور ان کی طبیعت میں تمام بادشاہانہ خوبیاں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ایک شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں تو اسے بادشاہانہ بنانے میں کیا حرج ہے، یوں اس سوچ کے عوض یہ تمام معرکہ آرائی کی گئی (ویسے بھی وہ میاں نواز شریف کو بھی بادشاہ سمجھتے ہیں) اس لئے ان کے خوابوں کا حسین تاج محل وہ کرسی ہے جسے نواز شریف چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اہل دانش نے بھی اس حوالے سے آئینی اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہیں ڈٹ جانے کا مشورہ ہی دیا ہے۔ پانچ سال کا عرصہ گزارنا بہت مشکل تھا اس لئے پورے نظام کو خرابیوں کی آماجگاہ قرار دے کر آزادی اور انقلاب کا نعرہ لگایا گیا تا کہ چڑھائی ممکن بنائی جا سکے۔
اس مادر پدر آزاد مراعات یافتہ طبقے کو نہ بجلی کا مسئلہ ہے نہ مہنگائی ان کے لئے اہمیت رکھتی ہے، وہ صرف شوق خود نمائی میں تشریف لائے ہیں اس لئے ان میں زیادہ تر وہ پرامن لوگ ہیں جو چند گھنٹے سیر و تفریح، ہلہ گلا اور موج مستی کر کے اپنے آرام دہ گھروں یا ہوٹلوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ صرف کچھ دہاڑی دار ہیں جو وقت پڑنے پر آگے پیچھے بھی ہو جاتے ہیں اس لئے بھرپور غلامی سے سرشار یرغمال ذہنوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے انقلاب مارچ کے ٹھیکیدار کو ساتھ ملایا گیا جو معاشرے کی نفسیات سے بہرہ ور ہے، جس نے معاشرے کے پِسے اور ٹھکرائے ہوئے طبقے کے غم و غصہ کو اپنی اشتہاری مہم کا حصہ بنایا۔ ان کی لاٹھیوں، غلطیوں اور چھری چاقو سے زیادہ خطرناک وہ انتشار ہے جو ان کے ذہنوں میں بھر دیا گیا ہے۔ اگر موجودہ انقلاب اور آزادی مارچ کا تجزیہ کریں تو مندرجہ ذیل سانحات سامنے آتے ہیں: پہلا اور بڑا ظلم کہ معاشرے کو تقسیم کر کے ملکی ہم آہنگی کو بری طرح متاثر کیا گیا ہے۔ لوگ ایک بار پھر طبقوں اور فرقوں میں بٹ رہے ہیں۔ پوری دنیا میں پاکستان ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ ہم لکھ لکھ کر دنیا پر واضح کرتے رہے کہ ہم پرامن لوگ ہیں مگر اس حرکت کے ذریعے یہ پیغام دنیا کو دیا گیا ہے کہ ہمارے ہاں کا فرد بھلے آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ ہو یا کینیڈا کی یونیورسٹی میں لیکچر دیتا ہو تخریب اس کا امتیازی نشان ہے۔ ہمسایہ ملک سے برابری کو للکارنے والے ذرا ان کے میڈیا پر چلنے والے تبصرے اور تذکرے سنیں تو انہیں علم ہوا کہ جذباتی پن کی کیا عمدہ تشہیر کی جا رہی ہے۔ جو میں کہتا ہوں وہ سچ ہے بڑی دیر بعد اس مقولے کو پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کا ہر ورکر اپنی رائے سے الگ رائے رکھنے والے کو یزید، غدار اور بکائو قرار دے کر فسطائیت کے فلسفے کو فروغ دے رہا ہے یعنی فضیلت کا معیار ان کی ہاں میں ہاں ملانا اور ان کے سامنے سرنڈر کرنا ہے اس لئے صاحبِ رائے لوگ ہر لمحہ ان کی توپوں کے دھانے پر ہیں۔ کتنے سالوں بعد وزیرستان آپریشن کے بعد اِک ذرا سکون کے ماحول کے پیدا ہونے کے آثار ہوئے تھے کہ پھر وہی بے چینی، لڑائی، مارکٹائی شروع ہو گئی۔ پاک فوج کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات اور ابہام پیدا کئے گئے ہیں جیسے یہ سب کچھ ان کی ایماء پر ہو رہا ہے جو سراسر غلط ہے مگر ہر دوسرا شخص اس حوالے سے بات کرتا نظر آتا ہے۔ ایک ایسے وقت جب ہماری فوج وزیرستان آپریشن میں موجود ہے۔ سول نافرمانی کی صورت میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر ریاست کی سلامتی کو للکارا گیا ہے۔ جیو آفس کی توڑ پھوڑ کو سیریس نہ لینے کی وجہ سے بات آگے بڑھ گئی ہے اور سرکاری ٹی وی کے ایک حصے پر قبضہ کر کے نشریات روک دی گئی ہیں۔ وزیراعظم ہائوس پر دھاوا، توڑ پھوڑ، بجلی کی تاریں اور پولیس کو مشقِ ستم بنانے کے بعد مبارکبادیں دینا کیا معنی رکھتا ہے۔ یاد رہے یہ وزیراعظم نواز شریف کی ملکیت نہیں قومی اثاثہ ہے۔ ان سب کی توڑ پھوڑ کا اثر ہم پر پڑے گا۔ ہم نواز شریف کے ساتھ نہیں نظام اور جمہوریت کے ساتھ ہیں کیوں ہم نے بدامنی کے واقعات دیکھ رکھے ہیں۔ ا سکول کے قریب دھماکوں سے سماعت سے محروم ہونے والے بچوں کی آنکھوں میں اترتی بے بسی دیکھی ہے۔ ہم یہ خوف اپنے بچوں میں منتقل نہیں کرنا چاہتے۔ ایسی فضا چاہتے ہیں جس میں وہ آزادی اور سہولت سےاسکول، پلے گرائونڈ اور پارک میں جا سکیں۔ صرف چار حلقوں کے لئے ملک میں آگ لگانے والا کیسا محب وطن ہے؟ ہمیں سانحہ ماڈل ٹائون کا دلی قلق ہے اور اس حوالے سے غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوئی تو خفیہ ہاتھ ضرور سامنے آئے گا ورنہ کوئی پاگل حکومت ہی اپنے خلاف ایسے ایکشن لے سکتی ہے نیز لال مسجد اور بارہ مئی کے قاتلوں کی فائلوں پر سے بھی گرد جھاڑ کر تحقیقات مکمل کرنی چاہئے۔ طالبان اور ان دہشت گردوں میں کیا فرق ہے؟ کم از کم انہوں نے ہمارے اثاثہ جات پر اس طرح حملہ تو نہیں کیا، یہ تو ان سے بھی بدتر ہیں۔ کچھ لوگوں نے پولیس کی ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس سے زخمیوں کو شہید بنا کر پیش کیا۔اس واقعے کو کربلا کا واقعہ بنانے والوں کا بھی احتساب ہونا چاہئے ۔ یہود و ہنود سے توجہ ہٹا کر اپنے ہی لوگوں کو کافر قرار دے کر نئی جنگ کا آغاز کیا گیا ہے اوریہ لو گ اسے حسینیت کی جنگ کہہ کر حق و باطل کو نئے معنی عطا کر رہے ہیں۔ آخر کوئی ا سٹیج شو کرنے والے انقلابیوں سے کیوں نہیں پوچھتا کہ انہوں نے معصوم بچوں اور عورتوں کو یرغمال بنا کر قربانی کے لئے کیوں پیش کیا ہے؟ دنیا میں ہمارا تعارف پھر مجروح ہو گیا ہے۔ ہمارا پاسپورٹ ہماری شناخت پھر زخمی ہو گئی ہے۔ کیا ہم دہشت گرد ذہنیت رکھتے ہیں؟ اگر نہیںتو قانون کی حکمرانی کے لئے باہر نکلئے ورنہ ان چند ہزار کو ہماری سوچ سمجھ کر ہمارا فیصلہ کر دے گی۔ آخر ہم اٹھارہ کروڑ عوام کا کیا قصور ہے؟ ہماری سوچ کو کیوں خوف اور پریشانی کی صلیب سے باندھ دیا گیا ہے؟
آخر اسٹیج پلے کب تک جاری رہے گا؟ اگر کل کسی اور دہشت گرد گروپ یا غیر ملکی قوت کے بھیجے گروپ نے ایسا کیا تو پھر بھی ایسا ہی لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا اور سرکاری عمارت پر حملے کرنے والوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے گا اور انہیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی تو پھر ملک کی تمام جیلوں میںبند لوگوں کو رہا کر دیا جائے۔ حکومت اگر ان تمام واقعات پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے تو اسے رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو کر نئے الیکشن کا اعلان کر دینا چاہئے تا کہ سب پر اصلیت واضح ہو سکے۔