کبھی نیکی بھی اس کے جی میں، گر آجائے ہے، مجھ سے
جفائیں اپنی کر کے یاد، شرما جائے ہے، مجھ سے
خدایا! جذبہ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے!
کہ جتنا کھینچتا ہوں، اور کھچتا جائے ہے مجھ سے
(غالب)
میں نے گزشتہ کئی روز سے کالم نہیں لکھا۔ وجہ یہ ہے کہ تمام ساتھی کالم نویس اورٹاک شوز کے اینکر حضرات ایک ہی تکرار میں مصروف تھے اور وہ تھی پاناما لیک الیکشن کمیشن میں نواز شریف کی نااہلی کا ریفرنس، کرپشن، ہائیڈ پارک نمبر 1کی پراپرٹی، مولانا طاہر القادری اور عمران خان کے یکے بعد دیگرے ریلیاں اور دھرنے، مزے کی بات ہے کہ ان تمام چیزوں میں ایک ہی قدر مشترک تھی اور وہ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ اور ان کی ذاتی شخصیت پر ذاتی نوعیت کے حملے اورجملے بازی، سچی بات ہے کہ مجھ سے ایسی باتیں نہ کی جاتی ہیں نہ لکھی جاتی ہیں۔ میں پاکستان میں پیدا ہوا، جوان ہوا اور پھر اب بوڑھا بھی ہوگیا، میں نے کبھی اس طرح کی بے مقصد اور لاحاصل بحث کا کوئی نتیجہ نکلتے ہوئے نہیں دیکھا، یہ فضول کی تکرار صرف ورق کالے کرنے کے لئے ہوتی ہے دوسرے لفظوں میں اسے غیبت بھی کہتے ہیں یا کہہ سکتے ہیں، یہ کوئی سیاست نہیں ہے۔ یہ الزام تراشی ہے، الزام تراشی کا جواب بھی الزام تراشی ہی ہوتا ہے اور یہ سمجھ نہیں آتا کہ دونوں میں سچا کون ہے، میں نے اپنے ان کالموں میں کئی دفعہ لکھا ہے اور آج پھر لکھ رہا ہوں کہ اس ملک میں تبدیلی ٹاک شو اور ریلیاں نکالنے سے نہیں آتی، دھرنے ناکام ہوچکے ہیں بلکہ بدنام ہوچکے ہیں، اس ملک میں آج تک جب بھی تبدیلی آئی ہے تو وہ فوج لے کر آئی ہے،ا سکندر مرزا کو جنرل ایوب خان نے فارغ کیا، ایوب خان کو جنرل یحییٰ خان نے گھر بھیجا، یحییٰ خان کو جنرل گل حسن اور ان کی ٹیم نے فارغ کر کے بھٹو کو پاکستان کا پہلا سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا۔ بھٹو کو جنرل ضیا الحق نے فارغ کیا اور جنرل ضیا الحق کا طیارہ بھی جس نے گرایا اب سب کو معلوم ہوگیا ہے، 90 کی دہائی میں بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتیں غیبی ہاتھوں کے ذریعے 258-Bکے تحت فارغ ہوئیں اور آخر میں اکتوبر 99ء میں جنرل پرویز مشرف کو طیارے سے لایا گیا اور کراچی ایئر پورٹ پر اتار کر چیف ایگزیکٹو بنادیا گیا۔ جنرل پرویزمشرف اندرونی سازشوں سے فارغ ہوا جس کا اب سب کو علم ہے۔ این آر او کے دستخط کرنے سے لے کر گارڈزآف آنر دینے تک اپنے ہی ملوث تھے۔ گویا تبدیلی کبھی خود سے نہیں آتی، صرف یوسف رضا گیلانی کو افتخار چوہدری نے خط نہ لکھنے کی پاداش میں توہین عدالت کا مرتکب قرار دے کر برخاست عدالت سزا دی اور انہوں نے اپنی ہی پارٹی کے راجہ اشرف کے لئے جگہ بنادی۔ پارٹی بھی وہی رہی۔ پالیسی بھی وہی رہی، کمانڈ بھی آصف زرداری صاحب کی برقرار رہی اور فرق کچھ بھی نہیں پڑا۔ اب جو لوگ ریلیاں نکال رہےہیں یا دھرنے دے رہے ہیں یا عید کے بعد احتجاج کے نئے نئے طریقے نکال رہے ہیں میں ان پر پہلے بھی ان کالموں کے ذریعے واضح کرچکا ہوں کہ کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ بیچارا ڈاکٹر شاہد میرا دوست ہے۔ وہ پیش گوئیاں کرتا کرتا خود 45 دن کے لئے زیر عتاب آگیا اور میرے خیال میں ابھی تک کسی عدالت میں بھی اس کی سنوائی نہیں ہوئی۔ میں یہاں کے سسٹم سے واقف ہوں۔ پچھلے چالیس سال سے پورے سیاسی نظام کا بغور مطالعہ کررہا ہوں اور بغور جائزہ بھی لیتا ہوں۔ آپ دیکھ لیجیے تمام تر اپوزیشن کے باوجود میاں صاحب نے آزاد کشمیر کا الیکشن ڈنکے کی چوٹ پر جیتا، اب جو ضمنی انتخاب جہلم میں ہوا۔ عمران خان کی جہلم آمد کے باوجود مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو کامیابی ملی، میں نے سب سے پہلے اس کالم میں لکھا تھا کہ اگر حالات یہی رہے تو 2018ء کا الیکشن بھی میاں صاحب ہی جیتیں گے اور اب یہ بات ان کی پارٹی کے لیڈروں نے بھی کہنی شروع کردی ہے۔ اس ملک کی سیاست میں کرپشن، اقربا پروری، دھاندلی اور دولت کی لوٹ مار، سیاست دانوں کا راتوں رات امیر ہوجانا برانہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ ان کا حق سمجھا جاتا ہے اور معاشرے کا رواج سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی سیاسی پارٹی ان بنیادوں پر اپنی الیکشن کی مہم چلاتی ہے یا چلانے کا ارادہ رکھتی ہے کہ وہ ان تمام چیزوں کی اصلاح کرے گی تو میں اس پارٹی کو ایڈوانس میں ناکامی کی نوید دیتا ہوں۔ یہ تمام مسائل ہمارے کلچر کا حصہ ہیں اور ہمارے سیاستدانوں کے وسائل ہیں۔ سیاست سے کماکر سیاست پر خرچ کرتے ہیں۔ آج کل ایم این اے کی ایک سیٹ جیتنے کے لئے کم از کم 8 کروڑ روپے کا بجٹ درکار ہے۔ بیچارا غریب سیاست دان کمائے گا نہیں تو عوام پر خرچ کہاں سے کرے گا۔ اسے سیٹ نکالنے کے لئے، پارٹی کا ٹکٹ لینے کے لئے، پولنگ ایجنٹوں اور ٹینٹوں کے کرایوں کے لئے خاصی رقم درکار ہوتی ہے۔ پیسے کو پیسہ کھینچتا ہے۔ اس لئے یہ سمجھنا کہ میاں نواز شریف کی حکومت جلسوں، جلوسوں، دھرنوں اور تقریروں سے ختم ہوجائیگی، خام خیالی ہے، میاں صاحب نہ صرف ہر ضمنی انتخاب جیتتے ہیں وہ 2018ء کا الیکشن بھی جیتیں گے اور چوتھی دفعہ وزیراعظم بن کر ریکارڈ قائم کریں گے۔ خیر ایک اندرونی اطلاع یہ ہے کہ میاں صاحب 2018ء کا الیکشن جیت کر شاید خود وزیراعظم نہ بنیں۔ وہ صدر پاکستان بن جائیں اور زرداری کی طرح پیچھے بیٹھ کر ڈوریاں ہلائیں، وزیر اعظم کے لئے محترمہ مریم نواز یا اسحاق ڈار کے نام آسکتے ہیں۔ خیر یہ تو ابھی صرف خیال ہے۔
ہنوز دلی دور است
اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں نے اتنے دن کالم کیوں نہیں لکھا۔ ایک ہی بات روز روز لکھنے کو جی نہیں چاہتا ڈنکے کی چوٹ پر بتا رہا ہوں کہ میاں صاحب وزیراعظم رہیں گے اور اپنا عرصہ اقتدار 2018ء تک آرام سے پورا کریں گے آخر میں قارئین کی خدمت میں حسب معمول اور حسب حال فراق گورکھپوری کے اشعار پیش کرتا ہوں
مجھ سے شاکی نہیں تو کیا ہیں آپ؟
آخر اس درجہ کیوں خفا ہیں آپ
میری ہر بات یوں نہ مانتے تھے
خوش ہیں؟ ناخوش ہیں؟ آج کیا ہیں آپ
.