بہت برسوں پہلے کی بات ہے۔ ایک آدمی نے حج کیا اور کعبۃ اللہ کی چوکھٹ تھام کر دعا مانگی کہ ’’تمام تعریفیں صرف اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اس کی تمام تر صفات کے ساتھ، جنہیں میں جانتا ہوں اور ان کے ساتھ بھی جنہیں میں نہیں جانتا، ان سب کی سب نعمتوں پر بھی جن کو میں جانتا ہوں اور ان پر بھی جن کو میں نہیں جانتا، اس کی اس تمام مخلوق کے برابر بھی جس کو میں جانتا ہوں اور اس کے برابر بھی جس کو میں نہیں جانتا۔‘‘ یہ کلمات کہہ کر وہ چلا گیا۔ بزرگان دین نے لکھا ہے کہ وہ اگلے سال پھر حج کے لیے آیا اور ایک بار پھر کعبۃ اللہ کی چوکھٹ تھام کر انہی کلمات کو دہرانے کا ارادہ کیا۔ جو اس نے پچھلے برس کہے تھے۔ تو غیب سے آواز آئی۔ ’’تونے گزشتہ سال یہ کلمات ادا کرکے فرشتوں کو تھکا دیا کہ وہ ابھی تک ان کلمات کے ثواب کو لکھنے سے فارغ نہیں ہوئے۔‘‘وہ ایک روشن اور چمکتی ہوئی صبح تھی جب لندن سے سعودی ایئر لائن کی پرواز نے جدہ ایئر پورٹ پر لینڈ کیا اور پھر تھوڑی دیر بعد ہماری گاڑی عظمتوں اور برکتوں والے شہر مکہ کی جانب رواں دواں تھی کہ جس کے بارے میں اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام دعا مانگا کرتے تھے کہ ’’اے رب! اس شہر مکہ کو پرامن شہر بنادے۔ اور اس کے باشندوں کو پھلوں کا رزق عطا فرما۔‘‘ اور میرے اللہ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور سورۃ عمران میں اس شہر کے بارے میں ارشاد ربانی ہے کہ ’’سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے عبادت کی غرض سے بنایا۔ وہ جو مکہ المکرمہ میں ہے، جو باعث برکت ہے اور تمام روئے زمین کے لوگوں کے لیے باعث ہدایات ہے۔ اس میں نشانیاں ہیں ظاہر۔ جسے مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوا وہ ہوگیا امن میں۔یہ شہر مکہ عظمتوں اور برکتوں والا اس لیے بھی ہے کہ میرے آقا دوجہاںؐ اسی شہر میں پل بڑھ کر جواں ہوئے اور پھر اسی شہر سے دین اسلام کا وہ مہتاب طلوع ہوا جس نے کفر کے اندھیروں کو مٹاکر اللہ کی وحدانیت کے نور سے دنیا کو منور کیا۔ گاڑی رواں دواں تھی، جوں جوں شہر مکہ نزدیک آرہا تھا، تلبیہ میں جوش و خروش بڑھنے لگا۔ ’’اے اللہ میں حاضر ہوں۔ میں تیری خدمت میں حاضر ہوں۔ میں تیری خدمت میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں بے شک سب تعریف اور نعمت تیرے لیے ہی ہے اور ملک تیرا ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ ہوٹل پہنچ کر سامان رکھا اور تھوڑی دیر بعد مسجدالحرام میں داخل ہورہا تھا کہ جس کے بارے میں میرے آقاؐ نے ارشاد فرمایا۔ ’’مسجد الحرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ہے۔‘‘ تھوڑی دیر چلنے کے بعد میرے اللہ کا گھر اپنی پوری جلال و ہیبت کے ساتھ میرے سامنے موجود تھا، میں وہیں رک گیا، کہ یہ وہی گھر تھا کہ جس کے بارے میں حضرت آدمؑ کو حکم دیا گیا کہ میرا گھر تیار کرو اور اس کے گرد طواف کرو اور مجھے یاد کرو، جس طرح فرشتوں کو میرے عرش کے گرد طواف کرتے ہوئے تونے دیکھا تھا۔ اللہ کا یہ حکم سن کر حضرت آدم علیہ السلام نے اس کعبۃ اللہ کی بنیاد رکھی۔ اس میں نماز پڑھی اور اس کا طواف کیا۔ حضرت آدم علیہ السلام جب کعبۃ اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو بارگاہ الٰہی میں دعا کی۔ ’’ہر مزدور کو مزدوری ملتی ہے۔ کیا میری بھی مزدوری ہے۔ فرمایا ہاں… تو بھی مجھ سے مانگ لے۔ آپ علیہ السلام نے دعا کی۔ ’’اے میرے پروردگار! تونے مجھے جہاں سے نکالا ہے وہیں واپس لوٹا دے۔‘‘ جواب ملا تمہاری دعا قبول ہوئی۔ پھر دعا کی۔ ’’اے میرے پروردگار! میری اولاد میں سے جو شخص اس گھر میں آئے اور اپنے گناہوں کا اقرار کرے۔ جیسے میں نے اقرار کیا ہے۔ اسے بھی بخش دے۔ جواب ملا، تمہاری یہ دعا بھی قبول ہوئی۔‘‘پھر زمانے بدلتے گئے، طوفان نوح میں کعبہ منہدم ہوگیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے تک یوں ہی رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو کعبۃ اللہ کی تعمیر کا حکم دیا اور فرمایا کہ ’’دونوں مل کر میرے گھر کو طواف کرنے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھا کرو۔‘‘ پہلی نظر پڑنے پر میں نے وہیں کھڑے کھڑے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ اس کعبۃ اللہ کو دیکھ رہا تھا کہ رات دن میں کوئی گھڑی ایسی نہیں گزرتی جبکہ دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے چہرے اور دل اس کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ دھوپ میں تیزی اور تپش بڑھ گئی تھی، لیکن گرمی کی شدت سے بے نیاز ہزاروں بندگان خدا دیوانہ وار اپنے رب کے اس مقدس گھر کے چکر لگا رہے تھے اور پھر چند لمحوں بعد میں بھی لبیک، لبیک پکارتا ان دیوانوں کے ہجوم میں شامل ہوگیا۔ میں طواف کرتے ہوئے رب کعبہ کی کبریائی اور بڑائی بیان کررہا تھا۔ اللہ پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے، طاقت اور قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے، جو بزرگی اور عظمت والا ہے۔ پھر اچانک دل میں خواہش ابھری، میں ملتزم یعنی بیت اللہ کے دروازے کی جانب بڑھا۔ ایک ہجوم تھا۔ اللہ کے بندے بیت اللہ کی دیوار، غلاف اور دروازے کی چوکھٹ سے لپٹ کر بلک بلک کر رو رہے تھے۔ عاجزی اور زاری سے اس گھر کے مالک کو پکار پکار کر اپنی لغزشوں اور گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے۔ غرض یہ کہ ایک کہرام مچا ہوا تھا اور پاس ہی سیکورٹی پر مامور پولیس والا لوگوں کو وہاں ہجوم نہ کرنے اور ہٹنے کو بھی کہتا جارہا تھا۔ میں نے نظر اٹھائی۔ ہیبت و جلال والے گھر کا دروازہ میرے سامنے تھا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے دروازے کی چوکھٹ کو مضبوطی سے تھام کر اپنا سینہ دیوار کے ساتھ لگا دیا کہ میرے آقا دو جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک بار اپنا چہرہ مبارک اور سینہ مبارک اس مقام پر چمٹا لیا تھا۔ میں اپنی خوش نصیبی اور خوش بختی پر اس مقدس گھر کے مالک کی کبریائی اور بڑائی بیان کرتے کرتے وہی کلمات دہرانے لگا۔ جو پہلے وقتوں میں حج کے بعد ایک آدمی نے اسی چوکھٹ کو تھام کر کہے تھے کہ جس کو میں ابھی تھامے کھڑا تھا۔ ’’کہ تمام تعریفیں صرف اللہ ہی کے لیے ہیں، اس کی تمام تر صفات کے ساتھ جنہیں میں جانتا ہوں اور ان کے ساتھ بھی جنہیں میں نہیں جانتا، ان سب کی سب نعمتوں پر بھی جن کو میں جانتا ہوں اور ان پر بھی جن کو میں نہیں جانتا، اس کی اس تمام مخلوق کے برابر بھی جس کو میں جانتا ہوں اور اس کے برابر بھی جس کو میں نہیں جانتا۔ گرمی کی تپش اور ہجوم کی وجہ سے جسم پسینہ سے شرابور ہورہا تھا۔ اچانک نہ جانے کدھر سے ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا جسم سے ٹکرایا۔ ایک عجیب سا سکون۔ اطمینان اور خوشی کی لہر میری روح، قلب اور رگ وپہ میں اتر گئی اور پھر گردش ایام جسے رک سے گئے اور میں زمین و مکان سے کٹ گیا۔ بیت کی چوکھٹ تھامے میں وہاں موجود بھی تھا اور نہیں بھی… ماحول میں چاروں طرف ایک عجیب سی خاموشی اور سکوت چھا گیا۔ مجھے اپنے اردگرد لوگوں کی عاجزی اور زاری سے پکارنے اور رونے کی آوازیں سنائی دینا بند ہوگئیں۔ سب کچھ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ میں کہاں، کیوں اور کدھر کھوگیا، نہیں معلوم… بس اتنا یاد ہے کہ جب ہوش آیا تو محسوس ہوا، جیسے صبح صادق کا وقت ہو اور اندھیرے اجالوں میں طواف کرنے والوں کا ہجوم رواں دواں ہے۔میں ایک بار پھر سے اس ہجوم کا حصہ بن گیا۔ اللہ پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ طاقت اور قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ جو بزرگی اور عظمت والا ہے اور پورے جلال، ہیبت اور آب و تاب کے ساتھ میرے اللہ کا گھر میرے سامنے تھا۔
.