اتنے دنوں سے کالم نگار اور الیکٹرونک میڈیا کے مبصر حضرات اور اینکرز قیاس آرائیاں کر رہے تھے کہ مودی اچانک پاکستان کیسے آگئے؟ ویزہ کس نے کب اور کہاں دیا؟ وزیراعظم کی نواسی کی رخصتی کا دعوت نامہ کب اور کس نے مودی کو ڈیلیور کیا اور آیا یہ کہ یہ سیاسی میٹنگ تھی یا صرف شادی میں شرکت تھی وغیرہ وغیرہ۔ مختصر ملاقات میں جناب وزیراعظم نے گلابی رنگ کی پگڑی بھی سر پر سجا لی جو کہ انہیں جچ رہی تھی اور گلابی پگڑی کا لشکارا ان کے سرخ و گلابی چہرے سے میچ کر گیا تھا اور وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت اور پراعتماد نظر آ رہے تھے۔ دوطرفہ تعلقات کی بات بھی ہوئی اور وزراء خارجہ کی میٹنگ کے بارے میں بھی تاریخوں اور ملاقات کا اعادہ کیا گیا گویا کہ ہر طرف سے سب ٹھیک ہے کی آواز آرہی تھی۔ شادی کے شادیانوں میں پاک بھارت دوستی کے ترانے بھی گونج رہے تھے۔ میڈیا پریشان تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا اور سوال کر رہا تھا کہ کیا ملاقات اور اچانک آمد کے بارے میں فوج کو اعتماد میں لیا گیا یا نہیں اور اگر لیا گیا تھا تو ان کا کوئی نمائندہ ایئرپورٹ یا رائیونڈ میں کیوں دکھائی نہیں دیا؟ پارلیمنٹ تو گھر کا مسئلہ ہے۔ انہیں اعتماد میں لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ تو صرف ڈیسک بجانے اور واہ واہ کے گیت گانے کیلئے ہوتے ہیں سو یہ کام وہ بخوبی اور خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں اسکے بدلے میں انہیں اسلام آباد میں پارلیمنٹ لاجز انتہائی کم کرائے پر الاٹ کردیئے جاتے ہیں جہاں وہ اور ان کے مہمان سردی اور گرمی کی چھٹیاں گزارتے ہیں اور اسلام آباد کے پھولوں کے خوبصورت موسم اور ساون کی گھٹائوں اور بارش کے مزے لیتے ہیں۔ تو بات ہو رہی تھی مودی کی اچانک آمد اور ہمارے میڈیا کے مبصروں کی پریشانی اور کالم نویسوں کے بے لاگ تبصروں کی۔ اسی دوران کسی بدنظر کی نظر لگ گئی اور پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر دہشت گردی کی کارروائی ہوگئی۔ شکر ہے خدا کاکہ اس دفعہ فوری الزام ہم پر نہیں آیا صرف زیر لب ہلکی ہلکی شکایتیں انتہائی محتاط انداز میں کی گئیں۔ کہیں کہیں کسی لیڈرنے گھن گرج دکھائی بھی تو اسے زیادہ لفٹ نہیں کرائی گئی اور وزرائے خارجہ سیکرٹریز کے مذاکرات اور ملاقات کو اس وقت تک منسوخ یا ملتوی نہیں کیا گیاتھا۔ سب حیران تھے کہ آخر یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوگیا اور وہ کون سی جادو کی چھڑی مودی اور میاں صاحب کے ہاتھ لگ گئی ہے جس نے سارا ماحول ہی بدل اور سینہ چاکان چمن سے سینہ چاکان چمن کو ملا دیا۔ یہ بات زیادہ دن تک راز نہ رہ سکی اور آخر پس پردہ موسیقار کا بیان میڈیا پر آگیا۔ امریکہ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری کا میاں نواز شریف کو فون آگیا ۔ جس میں کہا گیا کہ انڈین حکومت نے پٹھان کوٹ حملے کے سلسلے میں جن دہشت گرد گروپوں پر شبہ ظاہر کیا ہے، اسلام آباد ان کے خلاف کارروائی کرے اور مزید یہ کہ ایئربیس حملہ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے اور مذاکرات کا شیڈول قائم رہنا چاہئے۔ گویا کہ اس تمام محبت اور دوستی کی داستان کے پیچھے امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جناب جان کیری کی اشیرباد شامل تھی اور وہ مذاکرات کو متزلزل ہوتے ہوئے دیکھ کر مزید چپ نہ رہ سکے( اگرچہ آخری خبر آنے تک مذاکرات کو مختصر مدت کےلئے ملتوی کر دیا گیا ہے) اور ہندوستان کی شکایات کا ازالہ کرنے کیلئے میاں صاحب کو فون کردیا اور ہندوستان کو بتا دیا کہ ’’کوئی بات نہیں ہے میں نے سمجھا دیا ہے، ایکشن لے لیں گے۔ تم اپنا کام جاری رکھو اور ہتھ ہولا رکھو!‘‘ یعنی کہ ہاتھ ہلکا رکھو‘‘ پاکستان اور انڈیا کے درمیان خوشگوار تعلقات کا ہونا ایک اچھی بات ہے اور ہر پاکستانی کی طرح میری بھی یہی خواہش ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم ہونی چاہئے اور اب 68 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد ہندوستان کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے کہ پاکستان ایک الگ آزاد ملک ہے اور اس کے لوگ گزشتہ 68برس سے اپنی مرضی سے آزاد اور خودمختار زندگی گزار رہے ہیں۔ گو کہ اس دوران تین جنگیں بھی ہوئیں اور ہم آدھے ملک سے محروم ہوگئے اور اسی مودی کی مہربانیاں بقول خود اس کے ’’مکتی باہنی‘‘ کیساتھ تھیں، جنہوں نے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ خیر نئے خوشگوار ماحول میں ہمیں پرانی تلخ حقیقتیں یاد نہیں کرنی چاہئیں مگر بقول فیض ’’لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے۔‘‘ مجھے امید ہے کہ اب تمام تبصرہ نگاروں اور اینکر حضرات کو سمجھ آگیا ہوگا کہ ’’ریموٹ‘‘ کہاں ہے اور کیسے مودی بن بلائے چپکے سے آگئے مجھے شاعر کا ایک شعر اس موقع پر یاد آیا ؎
ہم بند کئے آنکھیں بیٹھے ہوں تصور میں
ایسے میں کوئی چھم سے آ جائے تو کیا ہو!
مودی تو خیر چھم سے نہیں ’’دھم‘‘ سے آئے اور آ کر چلے بھی گئے اور اپنے پیچھے گلابی پگڑی سمیت بہت سی خوشگوار یادیں چھوڑ گئے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ امریکہ ہم پر اتنا مہربان کیوں ہوگیا اور یہ اچانک رویے میں تبدیلی کیسے آگئی۔ یہ تبدیلی اچانک نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ہماری چائنا کے ساتھ بننے والی اکنامک راہداری کو روکنے کی سازش ہے۔ آپ دیکھئے عین اسی موقع پر راہداری منصوبے کو متنازع بنانے کیلئے بیانات آنے لگے اور مجھے کسی استاد کا یہ شعر یاد آیا ؎
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ہم اپنے گھر کو خود آگ لگانے کے لئے کافی ہیں ہمیں باہر سے دشمن کی ضرورت نہیں۔ ہم گھر میں سانپ پالتے ہیں اور انہیں دودھ پلاتے ہیں، پھر سانپ جب ہمیں ہلکا ہلکا ڈستے ہیں تو ہم کراہتے نہیں اور نہ ہی درد سے چیختے ہیں بلکہ ہلکے ہلکے زہر سے میٹھی میٹھی نیند سو جاتے ہیں۔ ہم نے آج تک کالاباغ ڈیم نہیں بنایا۔ ہم نے ابھی تک تھر کا کوئلہ استعمال نہیں کیا۔ ہم نے ابھی تک بلوچستان کے سونے، چاندی اور تانبے کے ذخائر کو نکالنے کی کوشش نہیں کی۔ اسٹیل مل پر ہم سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں اور دودھ پی رہے ہیں ہمیں کون کون کنٹرول کہاں کہاں سے کرتا ہے۔ کوئی تو بتائو؟ ہم کب آزاد ہونگے۔ اب بلوچستان کی میٹنگ میں مولانا فضل الرحمن کی تصویر بھی نظر آ رہی ہے۔ تصویر ٹی وی پر دیکھ کر ایک پرانا شعر یاد آیا سوچا قارئین کی نذر کردوں ؎
اس زلف پہ پھبتی شب دھجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی