لطف نہیں کرم نہیں
جور نہیں ستم نہیں
برسر عالم وجود
کون سی شے عدم نہیں
(فراق گھورک پوری)
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں مودی کی اچانک پاکستان آمد، پاک بھارت دوستی کے تانے بانے پھر پٹھان کوٹ پر حملہ اور جان کیری کے ٹیلی فون کے بارے میں لکھا تھا۔ ابھی پٹھان کوٹ حملے کی تفتیش جاری تھی کہ اچانک مذاکرات ملتوی ہوئے اور پھر چارسدہ یونیورسٹی کا سانحہ پیش آ گیا جس میں 25 خوبرو جوان جو حصول علم کیلئے یونیورسٹی ہاسٹل میں رہائش پذیر تھے اور ایک پی ایچ ڈی پروفیسر جان کی بازی ہار گئے۔ 40طلبہ شدید زخمی ہیں۔ پشاور اسکول کا غم ابھی تازہ تھا کہ یہ نیا سانحہ پیش آ گیا۔ اس کی تفتیش متعلقہ حکام کر رہے ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس سانحہ کے تانے بانے بھی ہندوستان سے ملتے ہیں۔ ابھی کچھ کہنا یا لکھنا قبل از وقت ہے۔ ہماری تمام ہمدردیاں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ خدا تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل دے۔ کہنا بہت آسان ہے جس پر بیتتی ہے دکھ وہی جانتا ہے۔ اولاد کا صدمہ کبھی ختم نہ ہونے والا صدمہ ہے اور یہ وہ واحد دکھ ہے جو والدین اپنے ساتھ قبر میں لے جاتے ہیں۔ یہ زخم وقت گزرنے کے ساتھ مندمل نہیں ہوتا، ہمیشہ تازہ رہتا ہے اور یہ غم گلےکا ہار بن جاتا ہے۔ خدا ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچائے جو ان پھولوں کو مسل دیتے ہیں۔ تفتیش بھی ہو جائے گی۔ اس کے پیچھے کارفرما ہاتھ بھی سامنے آ جائیں گے مگر جو لوگ ہم سے رخصت ہو گئے ہیں وہ کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ غم دے کر چلے گئے ہیں اور اب اس غم کے سہارے ان کے پیارے کبھی جئیں گے کبھی مریں گے کبھی مر مر کہ جئیں گے۔ حکومتوں کو چاہئے کہ اپنی سیاسی جنگ، سیاسی انداز میں لڑیں۔ دہشت گردی سے پرہیز کریں کیونکہ اس سے معصوم جانوں کا زیاں ہوتا ہے اور وہ لوگ بھی اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں جن کا سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسا قومی نقصان ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ میں نے پہلے بھی شبہ ظاہر کیا تھا کہ یہ تمام واقعات پاک چائنہ اکنامک کوریڈور یا راہ داری کو روکنے کی سازشوں کی کڑی ہے جس کی ہم بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ اب خدا کرے کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے۔ معلوم نہیں کہ ابھی مزید اور کتنی رکاوٹیں آتی ہیں اور کس کس طرف سے وار ہوتے ہیں۔ آپریشن ضرب عزب تو ابھی جاری ہے جس میں ہماری فوج کے بے شمار خوبصورت جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں۔ یہ آپریشن بھی اب پایہ تکمیل تک پہنچنے والا ہے۔ ملک کے اندرونی سیاسی حالات تو آج کل کافی پرسکون ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ بھی خدا کے فضل و کرم سے تقریباً پورے ملک میں مکمل ہو گیا ہے۔ اب اوپر کے عہدوں کے چنائو باقی ہیں جو بڑی خوش اسلوبی سے سیاسی جماعتیں پرسکون طریقے پر مکمل کر رہی ہیں۔ ملک کے معاشی حالات بھی پہلے سے بہتر ہیں۔ آہنی ہاتھ کرپٹ، بڑی بڑی موٹی گردنوں پر پڑ رہے ہیں اور مزید کی امید باقی ہے۔ فی الحال کرپشن میں پکڑ دھکڑ کی وجہ سے کچھ سستی آئی ہے اور اب پہلے جیسا حال نہیں۔ لینڈ مافیا بھی آج کل جگالی کر رہا ہے اور زمینوں پر ناجائز قبضوں اور چائنا کٹنگ کا سلسلہ تھم گیا ہے مگر ایسے میں دہشت گردی کے واقعات پھر سے بڑھنے لگے ہیں۔ اسٹریٹ کرائمز بھی جو گزشتہ دنوں کم ہو گئے تھے پھر انگڑائیاں لے کر جاگ رہے ہیں۔ موبائل اور پرس چھیننے کے واقعات گلیوں، محلّوں میں پھر بڑھ رہے ہیں۔ گینگ وار ختم ہونے کے بعد اب ان کے کارندے اپنے تئیں گلی، محلّوں اور شادی ہالوں کے باہر اکّا دکّا وارداتیں روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ اگرچہ پولیس اور رینجرز چوکس ہیں مگر اس کے باوجود انفرادی طور پر جرائم پیشہ افراد اپنی جیب خرچ کیلئے یہ وارداتیں کر رہے ہیں۔ درحقیقت بیروزگاری کی وجہ سے کچھ لوگوں نے جرائم کو آمدنی کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اب ان کا اس کے بغیر گزارہ ممکن نہیں۔ وہ اپنے روزمرّہ کے اخراجات کیلئے اپنی مشق سخن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اکّا دکّا پکڑے بھی جاتے ہیں مگر ہیں اتنی کثیر تعداد میں کہ ختم نہیں ہو پا رہے۔ نہتے عوام ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس طرح بہ حالت مجبوری اپنی جیب کا بوجھ ہلکا کر دیتے ہیں۔ جان بچانا بھی تو لازمی ہے۔ انسان کیا کرے؟ ایف آئی اے کی کارکردگی گزشتہ دنوں اپنے عروج پر تھی۔ اگرچہ ان کے راستے میں بھی بڑی بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔ الزامات کی بوچھاڑ ہے مگر اب معاملات عدالتوں میں آ رہے ہیں۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اور کون کتنا گناہ گار ہے؟ اس کا فیصلہ بھی ہو جائے گا۔ صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن بھی انگڑائیاں لے رہا ہے مگر انہیں سمجھ نہیں آتی کہ کام کہاں سے شروع کریں؟ ہر طرف اپنے ہی بیٹھے ہیں، کس پر ہاتھ ڈالیں؟ مجموعی طور پر حالات بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ملک کے اندرونی حالات کافی پرسکون ہیں۔ آج کل دھرنے بھی بند ہیں اور بڑے بڑے جلسے بھی نہیں ہو رہے، شاید سیاست دان تھک گئے ہیں اور اب آرام فرما رہے ہیں۔ آصف زرداری صاحب اپنا دبئی کا مسکن چھوڑ کر پہلے لندن گئے اور اب امریکہ روانہ ہو گئے ہیں یا جانے والے ہیں۔ عمران خان بھی ان دنوں زیادہ ایکٹو نہیں ہیں۔ ان کی سابقہ زوجہ ایک چینل پر اینکر کے فرائض انجام دے رہی ہیں اور سب طرف شانتی ہے۔ علامہ طاہرالقادری کی بھی آواز نہیں آ رہی۔ اینکر حضرات پریشان ہیں کہ کس موضوع پر کس سے بات کریں کیونکہ کوئی نیا مسئلہ سامنے درپیش نہیں ہے۔ وزیراعظم بھی بیرونی دوروں سے فرصت پا کر وطن واپس آ گئے ہیں۔ انکم ٹیکس کا نیا قانون بھی اسمبلی تک پہنچ گیا ہے۔ سینیٹ والوں کو تحفظات ہیں لیکن امید ہے کہ وہاں سے بھی یہ قانون پاس ہو جائے گا۔ میئر کے اختیارات کا مسئلہ اٹکا ہوا ہے۔ پراسی کیورٹر کے اختیارات کا قانون بھی سپریم کورٹ میں چیلنج ہو گیا ہے۔ تمام تبصرے آج کل ٹھنڈے پڑ گئے ہیں، ایسے پرسکون حالات میں چارسدہ کے سانحہ نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب دیکھیں تفتیش کا رخ کدھر مڑتا ہے؟ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آئندہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور دشمنوں کی بدنظر سے بچائے۔ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ہے کہ ہمارا ملک بہت اچھا ملک ہے، رہنے کیلئے بھی اور کمانے کیلئے بھی۔ جو لوگ ملک سے باہر روزگار کیلئے جاتے ہیں ان کا دل بھی پاکستان ہی میں اٹکا ہوا ہوتا ہے۔ لندن یا امریکہ میں جس پاکستانی کے گھر جائو، انہوں نے پاکستانی چینل لگا رکھے ہوتے ہیں۔ گویا وہ لندن اور امریکہ میں رہ کر بھی ہر دم اپنے ہی ملک کی خبریں سننا چاہتے ہیں، یہیں کے ڈرامے دیکھتے ہیں اور پاکستان ہی کی باتیں کرتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ خدا پاکستان کو سلامت اور خوشحال رکھے۔ (آمین) آخر میں فراق گورکھ پوری کے اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں:
بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم
جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی
فراق کو کبھی اتنا خموش دیکھا تھا
ضرور اے نگہ ناز کوئی بات ہوئی