میں بجٹ پر کالم لکھنے کا سوچ رہا تھا کہ میرے ساتھ واردات ہوگئی۔ یوں تو بجٹ میں پوری قوم کے ساتھ واردات ہوگئی ہے لیکن میرے ساتھ جو واردات ہوئی ہے وہ بالکل انوکھی نہیں ہے۔ روزانہ لاکھوں شہریوں کے ساتھ ہوتی ہے بلکہ کل ایک خبر نے چونکا دیا کہ لاہور کا ایک شہری ایک دن میں تین مرتبہ ڈاکوؤں کے ہاتھوں لوٹا گیا۔ میں خبر پڑھنے سے پہلے سوچ میں پڑ گیا کہ جب اس شہری نے پہلا ڈاکہ برداشت کیا ہوگا تو ڈاکو نے تین کپڑوں کے علاوہ تو کچھ نہیں چھوڑا ہوگا تو پھر باقی کے دو ڈاکوں میں اس کا کیا نقصان ہوا ہوگا لیکن صاحبو لٹنے والے نے باقی کے دو ڈاکوں کے لئے خاطر خواہ اہتمام کیا ہو ا تھا۔ وہ ایسے کہ پہلا ڈاکہ صبح دس بجے پڑا۔ وہ دفتر گیا، پھر گھر گیا۔ دوسرا ڈاکہ شام پانچ بجے پڑا جب اس کی جیب میں بیوی کا موبائل اور نقدی تھی۔ اس کے بعد وہ پھر گھر گیا اور پھر اس نے نقدی اور گھر کی کچھ اشیاء بشمول بیٹے کا موبائل ہاتھ میں رکھا ہوا تھا اور یہ تیسرا ڈاکہ رات آٹھ بجے اس پر وارد ہوا۔ ویسے موبائل فون سے یاد آیا یہ لفظ وارد جو ہم اردو میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کوئی اچانک آگیا۔ لو جی اسی لفظ نے مجھے لوٹ لیا اور میرے ساتھ واردات ہوگئی۔ مجھے پہلی بار وارد کا مطلب سمجھ میں آیا۔ وہ جو شہری تین بار ڈاکوؤں کا نشانہ بنا اس کے موبائل میں بھی کچھ ایسی ہی سم ہوگی۔ بجٹ پر کالم ضرور لکھوں گا پہلے واردات کی بات ہو جائے۔
میں ایک بزدل شہری ہوں یہ سب جانتے ہیں۔ میرے باپ کی ایک نالی بندوق میرے بہن بھائیوں نے بغیر سوچے سمجھے بڑا بھائی سمجھتے ہوئے مجھے ورثے میں دیدی۔ میرے والد ہر ہفتے اس بندوق کی نالی کو صاف کرنے کے لئے ایک ڈوری پر لپٹا کپڑا اس نالی میں داخل کرتے تھے اور پھر ڈوری کھینچتے تھے۔ اس کے جرمن کارتوسوں کا ڈبہ وہ ہر ہفتے چیک کرتے تھے۔
پھر کیا ہواکہ ہمارے گھر ڈاکہ پڑا چوروں نے گھر کی دیوار میں نقب عین اس جگہ لگائی جس دیوار پر وہ ایک نالی بندوق لٹک رہی تھی۔ انہوں نے وہ بندوق تیار کی کہ اگر میرے والد جاگ جائیں گے تو انہیں فوراً سلا دیا جائے گا۔ ہماری خوش قسمتی ہمارے والد گہری نیند سے نہ جاگے۔ وہ بندوق چور لے گئے۔ میرے والد نے اپنے سید ہونے اور پیر و مرشد ہونے کی آزمائش کی۔ وہ بندوق چور ہمارے گھر چھوڑ گئے۔ میرے والد نے اس بندوق سے کوئی گولی کبھی نہیں چلائی تھی۔ اس بندوق کے ہوتے ہوئے آج میں کسی بھی آتشیں اسلحہ کو ہاتھ میں نہیں اٹھا سکتا۔ اس لئے میری گاڑی میں پستول نہیں ہوتا۔ تو صاحبو آج بجٹ پر کالم لکھتے ہوئے مجھے پنجاب آرٹس کونسل کے ڈرامہ فیسٹیول میں شام سات بجے باغ جناح کے اوپن ایئر تھیٹر میں جانا تھا کہ پنجاب آرٹس کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر غلام مصطفی نے مجھے اس فیسٹیول کی جیوری میں شامل کیا ہوا تھا۔ غلام مصطفی پاکستان کے نامور مصور ہیں۔ جنہوں نے اندرون شہر کی تہذیب کو اپنی مصوری میں زندہ رکھا ہوا ہے اور پاکستان کی زندگی کے بے شمار گوشے ان کی مصوری میں سانس لیتے ہیں اس ڈرامہ فیسٹیول کا آج پانچواں کھیل تھا۔ جو بہاولپور آرٹس کونسل کی پیشکش تھی۔ اس ڈرامے کا نام ”روھی کی بیٹی“ تھا۔ مجھے اس کھیل سے ایک جذباتی خوشبو محسوس ہوئی کہ ٹیلیویژن پر میراپہلا سیریل ”دریا“ اسی روھی چولستان کی زندگی کے حوالے سے تھا۔ ”روھی کی بیٹی“ ایک اچھی پیشکش ثابت ہوا لیکن پہلے میرے ساتھ جو واردات ہوئی اس کا ذکر ضروری ہے۔
قصہ گوئی میں ایک فن ایسا ہوتا ہے کہ قصہ گو کہانی سناتے ہوئے کہانی کو روکتا ہے اور سننے والوں کو محسوس نہیں ہونے دیتا۔ تو آج میں بھی قصہ سناتے ہوئے کہانی کو روک روک کے آپ کو بتاؤں گا۔ تو صاحبو! اپنے والد کی ایک نالی بندوق کا ایک واقعہ ضرور بتاؤں گا۔ وہ بندوق لائسنس یافتہ تھی۔ اب بھی ہے۔ میرے پاس ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ میں نے آٹھویں کا بورڈ کا امتحان دیا۔ بورڈ لاہور کا تھا میں ملتان کا طالب علم تھا۔ امتحان دینے کے بعد والد صاحب نے پہلی بار لاہور دکھانے کا وعدہ پورا کیا۔ میں میری والدہ، چھوٹا بھائی ہم سب انار کلی کے دہلی مسلم ہوٹل میں ٹھہرے۔ ایک دن والد صاحب لاہور میوزیم کے سامنے ڈی پی آئی کے دفتر کے باہر سے گزرتے ہوئے کہنے لگے۔ تمہارے پرچے اس عمارت کے پاس کہیں آئے ہوں گے۔ میرے اندر خوف پیدا ہوا کہ میں نے آٹھویں جماعت کے پرچوں میں جو گل کھلائے ہوں گے۔ کہیں والد صاحب اس کا حساب کتاب دیکھتے توہمیں یہاں نہیں لاتے لیکن ایسا نہ ہوا وہ ہمیں لوہاری لے گئے اور ایک تانگے کو روکا۔ اور کہا کہ جہانگیر کے مقبرے کے لئے کتنے پیسے لو گے۔ اس بے چارے نے معلوم نہیں کتنے پیسے مانگے بس اتنا یاد ہے کہ والد صاحب نے کندھے سے لٹکی ایک نالی بندوق کو غلاف سے نکالا اور اس پر تان کے کہا تم نے اتنے پیسے کیوں مانگے۔ خیر لوگوں نے بیچ بچاؤ کرا دیا۔ اب والد صاحب کا اصرار تھا کہ وہ مقبرہ جہانگیر جائیں گے تو اسی تانگے میں بیٹھ کر جائیں گے۔ لوگوں نے تانگے والے کو راضی کر لیا جب تانگہ چلا تو والد صاحب نے اس سے گپ شپ شروع کر دی۔ اسی دوران والد صاحب نے پوچھا تم نے اتنے زیادہ پیسے کیوں مانگے تھے۔ تانگے والے نے کہا آپ نے بندوق لٹکائی ہوئی تھی۔ میں سمجھا ساہیوال کا کوئی زمیندار سیر کے لئے آیا ہے۔ واضح رہے کہ اس زمانے کے زمیندار کے مالی حالات بہت اچھے ہوا کرتے تھے۔
اب اس واردات پر آتا ہوں جو گزشتہ شام میرے ساتھ ہوئی۔ میں ڈرامہ فیسٹیول میں جانے کے لئے شام سات بجے شادمان اور لاہور کالج کے بے حد مصروف ٹریفک سگنل پر پہنچا۔ سگنل بند ملا۔ کم سے کم سو گاڑیاں چار لین میں کھڑی تھیں اور بے شمار موٹر سائیکل بھی اشارہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ اشارہ کھلنے سے چند سیکنڈ پہلے میری گاڑی کی اگلی سیٹ کا دروازہ ایک نوجوان نے کھولا اور سیٹ پر رکھا میرا موبائل اٹھایا اور دروازہ بند کرنے کے بعد مختلف گاڑیوں کو پھلانگتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔ سب یہ منظر دیکھ رہے تھے مگر کوئی اس کے پیچھے نہیں بھاگا۔ میں بے بسی سے اسے دور تک بھاگتے ہوئے دیکھتا رہا۔
میرا موبائل فون کوئی مہنگا فون نہیں تھا ایک غیر جذباتی سا عام موبائل تھا اس لئے کہ میں صرف ایس ایم ایس پڑھ سکتا ہوں۔ ایس ایم ایس کرنا مجھے نہیں آتا اس فون میں بے شمار جدید قسم کی سہولتیں موجود تھیں لیکن میرے لئے ان کا کوئی مصرف نہیں تھا کہ مجھے صرف فون سننا اور فون کرنا آتا ہے۔ البتہ اس موبائل سے ایک جذباتی رشتہ ضرور تھا کہ یہ میری بیوی نے مجھے سالگرہ پر تحفے میں دیا تھا۔ اس موبائل کے چھن جانے کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ میں اپنے دوست ناصر بشیر کی خبر رساں ایجنسی کی خبروں سے کچھ دنوں کے لئے محفوظ ہوگیا ہوں۔
یہ سارا واقعہ لکھنے کا ایک ہی مقصد ہے کہ لوگ گاڑیوں کو اندر سے لاک کرکے ڈرائیو کیا کریں اور موبائل فون اگلی سیٹ پر نہ رکھیں۔ بجٹ پر اگلے کالم میں لکھوں گا کہ ہماری یونیورسٹیوں کے پیٹ پر لات مار کے کچھ اچھا نہیں کیا۔ آج اگر تعلیم پر خرچ نہیں کریں گے تو کل قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دس گنا زیادہ خرچ کرنا پڑے گا اس لئے کہ آنے والے وقتوں میں ڈاکو اور دہشت گردوں کی تازہ فصلیں پک کر تیار ہو جائیں گی۔