اتحا د ، اتفاق اور نفاق بظاہر معمولی الفاظ نظر آتے ہیں لیکن ان کی طاقت وقت آنے پر ہی محسوس ہوتی ہے۔ ہر زبان ، سوسائٹی اور قوم میں اس کی اہمیت اور افادیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ مثلاً اتحاد میں طاقت ہے اور مل کر ہم کھڑے ہوتے ہیں اور تنہا گرتے ہیں۔ ہر قوم اور ہر زبان میں اس موضوع پر لاتعداد نصیحتیں اور مثالیں دی گئی ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارے لئے یہ نہ صرف مناسب ہے بلکہ لازم ہے کہ ہم دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس موضوع پر کیا فرمایا ہے اورکیا ہدایات فرمائی ہیں۔ ”اور (مومنو ) سب مل کر اللہ کی رسی (یعنی اللہ کے دین) کو مضبوطی سے پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جبکہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ(سورة آل عمران آیت 103)۔“ یہ تمہاری جماعت (قوم) ایک ہی جماعت (قوم ) ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو(سورة الانبیاء آیت92)۔“ اور یہ تمہاری جماعت (قوم) حقیقت میں ایک ہی جماعت (قوم ) ہے اور میں تمھارا پروردگار ہوں تو مجھ سے ڈرو(سورة المومنون آیت 52)۔“مومن (مسلمان) تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کر ا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے(سورة الحجرات آیت 10)
ہمارے قائداعظم ایک جیتے جاگتے فرشتہ تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو عقل خضرعطا فرمائی تھی ایک دینی عالم نہ تھے اور نہ ہی کبھی دعویٰ کیا تھا مگر آپ کے اقوال و اعمال اسلام کے سنہری اصولوں پر عملداری کا سنہری نمونہ ہیں آپ کا یہ نعرہ”اتحاد ، ایمان اور نظم “ اسلام کے سنہری اصولوں کی عکاسی کرتا ہے اور سب سے پہلے لفظ اتحاد مسلمانوں میں اتحادکو اولین ترجیح دینے کا ثبوت ہے۔
ایک پرانی کہانی ہے کہ ایک بزرگ تجربہ کار شخص نے اپنے بچوں کو بلا کر علیحدہ علیحدہ ایک ایک لکڑی دی اور توڑنے کو کہا۔ سب نے وہ لکڑیاں توڑ دیں پھر اس نے ان لکڑیوں کو اکٹھا باندھ کر ان کو توڑنے کو کہا۔ سب ناکام رہے تو اس نے کہا دیکھو! اتحاد میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکے گا۔ اگر الگ الگ مشکلات یا دشمن کا مقابلہ کرو گے تو شکست کھاؤ گے، ساتھ رہوگے تو تمہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ انگریز جو اپنی عیاری اور مکاری میں سب پر سبقت لے گئے انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول یہ بنایا تھا کہ لوگوں میں تفرقہ ڈالو(کمزور کرو) اور ان پر حکومت کرو۔ اس حکمت عملی پر عمل کر کے اس عیار قوم نے تقریباً پوری دنیا پر ہی قبضہ کر لیاتھا۔ مقامی لوگوں کو مقامی لوگوں سے قتل کروایا ، لٹوایا اور مظالم کروائے اور سیکڑوں سال حکمرانی کی ، لوٹا اورمال و دولت ہندوستان لے گئے۔ یہ سلسلہ آسٹریلیا سے لے کر امریکہ تک اور ملائیشیا ، سنگاپور سے لے کر نائجیریا اور کینیا تک جاری رہا۔ برصغیر میں انہوں نے شیعہ سنی ، قادیانی اور صوبہ پرستی جیسے کھیل کھیلے۔عوام کی بے پناہ قوت کا اندازہ حکمران جانتے ہیں اور اسی لئے ان کو نت نئے جھگڑوں میں، مشغلوں میں الجھائے رکھتے ہیں تاکہ وہ حکمرانوں کی بدمعاشیوں اور عیاشیوں پر تنقید نہ کر پائیں۔ پچھلے زمانوں میں شمشیر زنی ، گھوڑ دوڑ ، دنگل جیسے کھیلوں میں حکمران خود شریک ہو کر انعامات دیتے اور عوام کو خوش کر دیتے تھے۔ ہندوستان اپنے ملک میں عوام کا اتحاد قائم رکھنے کے لئے روز نت نئے نعرے پاکستان کے خلاف لگاتا ہے، الزام تراشی کرتا ہے اور جارحیت کے خطرہ کا نعرہ لگا کر عوام کا دھیان دوسرے مسائل سے ہٹاتا رہتا ہے اور قوم میں اتحاد قائم رکھتا ہے۔
آپ نے دیکھا ہے کہ اکثر پرندے اور جانور بھی جھنڈ کی شکل میں رہتے اور حرکت کرتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اتحاد کے فوائد سمجھنے کی صلاحیت عطا کی ہے ۔ جنگلی کتے ایک ساتھ مل کر شیر کو بھگا دیتے ہیں ۔ لگڑ بھگے بھی شیر ، تیندوے کو بھگا دیتے ہیں۔ جنگلی بھینسوں کا غول جب شیر کی طرف دوڑ لگاتا ہے تو شیر دُم دبا کر بھاگتا نظر آتا ہے۔مخلص ، نیک اور ایماندار حکمران و رہنما بھی ہمیشہ سب سے پہلے اتحاد کی تلقین کرتے ہیں تاکہ اختلافات جنم نہ لے سکیں اور قوم متحد رہے۔
اسلام کی قبولیت سے پہلے عرب قوم قبائل میں تقسیم تھی مگر اسلام نے ان کو متحد قوم آہنی دیوار کی مانند بنا دیا۔ ایک دوسرے کے لئے جان و مال دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ شروع ہو گئی۔ بڑی بڑی طاقتور صیہونی اور دوسرے قوتوں کی چند سال میں اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ مکہ، مدینہ سے کاشغر ،ثمرقند ، اسپین ، ویانا کی سرحد تک مسلمانوں کی حکمرانی قائم ہوگئی لیکن چند سال بعد جب آپس میں نفاق پیدا ہوا، رسہ کشی شروع ہوئی تو تسبیح کی ڈوری ٹوٹ گئی اورتمام دانے بکھر گئے اور ہم ذلیل و خوار اور غلام ہوگئے ۔ علامہ اقبال نے مجبوراً دُکھ بھری آواز میں قوم سے پوچھا۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اور پھر فرمایا
فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
غریب اور کم تعلیم یافتہ طبقہ میں اتحاد کی کہاوتیں مشہور ہیں مثلاً ”چار ہاتھ دشمن پر بھاری“ ، ایک سے ایک ملے تو رائی بن سکتی ہے پربت“،کارل مارکس نے یہ راز سمجھ کر ہی کہا تھا کہ عوام سب سے بڑی طاقت ہے۔ مطلب پرست عناصر عوام کے اتحاد کے سب سے بڑے دشمن ہیں کیونکہ ان کا اتحاد ان مطلب پرستوں کے مذموم اداروں کی موت ہے۔ پہلے کچھ لوگوں کو لالچ، بلیک میلنگ یا زور سے توڑ لیا جاتا ہے پھر ان کے ذریعے ان کے اتحاد کو سبوتاژ کیا جاتا ہے لیکن عموماً یہ تدبیریں دیرپا ثابت نہیں ہوتیں۔
ایران ، فلپائن ، ہمارے یہاں ابھی چند دن پیشتر کرغیزستان میں آپ نے عوام کی یکجہتی اور اس کی قوت کا مظاہرہ دیکھ لیا۔
1835ء میں لارڈمیکلے (Lord Macaulay) نے دوفروری کو برٹش پارلیمنٹ میں جو بیان دیا تھا وہ انگریزوں کی عیاری اور دوررس پلاننگ کی آنکھیں کھولنے والی مثال ہے اس نے مشورہ دیا کہ کس طرح مقامی آباد کا تعلیمی نظام ،ثقافت ختم کر کے ان میں تفرقہ ڈال کر ان پر حکومت کی جائے ۔ اس نے کہا تھا:
”میں نے ہندوستان کے طول وعرض کا سفر کیا ہے اور مجھے ایک شخص بھی ایسا نظر نہ آیا جو فقیر ہو یا چور ہو۔ میں نے اس ملک میں بے حد دولت دیکھی ، اعلیٰ اخلاقی قدریں دیکھیں اور ایسے اعلیٰ پائے کے عوام دیکھے ہیں کہ میں تصور نہیں کر سکتا کہ ہم کبھی اس ملک کو فتح کر سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی نہ توڑ دیں اور یہ اس قوم کی روحانی اور ثقافتی میراث ہے۔ اس لئے میرا یہ مشورہ ہے کہ ہم ان کا پرانا تعلیمی نظام بدل دیں(تباہ کر دیں) کیونکہ جب ہندوستانی اس بات کا یقین کریں گے کہ بیرونی اور انگلش چیز ان کی اپنی چیزوں سے بہتر ہے تو وہ اپنی خود اعتمادی اور خود ارادی کھو دیں گے، اپنی ثقافت کھو دیں گے اور پھر وہی بن جائیں گے جیسا ہم چاہتے ہیں یعنی ایک حقیقی محکوم قوم“۔
بالکل یہی پالیسی روسیوں نے وسط ایشیاء کی مسلمان حکومتوں اور عوام کے خلاف اپنائی اور ان کے اپنے اعلیٰ نظامِ تعلیم اور ثقافت کو ختم کر دیا۔
دونوں کا نتیجہ یہی نکلا کہ قوم دو طبقوں میں بٹ گئی ۔ ایک نام نہاد مغربی تعلیم یافتہ اور دوسری وہی پرانی ۔ اس طرح دونوں سامراجی قوتوں کو سیکڑوں برس حکومت کا موقع مل گیا۔
آج کل ہندوستان اور پاکستان کے سیاسی حالات اور حکمرانوں کے اخلاق و کردار پر نظر پڑتی ہے تو سابق وزیر اعظم انگلستان سر ونسٹن چرچل کے وہ تاثرات یاد آ جاتے ہیں جو انہوں نے ہمارے حکمرانوں کے بارے میں کہے تھے اور اب ساٹھ سال بعد وہ کس قدر صحیح نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا: ”طاقت بے ایمان، بد معاش ، لالچی اور مجرموں کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ برصغیر کے تمام لیڈر نہایت نچلے وصف و کر دار کے ہوں گے ، یہ گھاس و پھونس کے بنے ہوں گے اور ان میں اخلاقی قوت کا فقدان ہو گا۔ ان کی زبان میٹھی ہو گی مگر دل عیار ہوں گے۔ یہ آپس میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے لڑتے جھگڑتے رہیں گے اور برصغیر اسی سیاسی دنگل میں تباہ ہو جائے گا۔ مجھے برصغیر کے لوگوں سے نفرت ہے وہ وحشی لوگ ہیں اور وحشی مذہب کے پیروکار ہیں وہ ہوا اور پانی پر ٹیکس لگا دیں گے۔
چرچل کے یہ تاثرات غالباً (مذہب کے بارے میں )ہندو مذہب کے بارے میں تھے جس میں لوگ نہ صرف گائے کی پوجا کرتے تھے بلکہ اس کا پیشاب بھی پیتے تھے۔ کئی ہاتھوں والی کالی دیوی اور ہاتھی کے سر والے ہنومان کی پوجا کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ لوگ گائے کے گوبر کو مبارک اور پاک جان کر اس سے گھر میں پلاسٹر کرتے ہیں۔ اسلام کے بارے میں وہ یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ لاتعداد مغربی مفکروں نے اسلام کے سنہری اصولوں کی تعریف میں لاتعداد کتابیں اور مضامین لکھے ہیں۔ جہاں تک ہندوستانی لیڈروں کے بارے میں تاثرات کا تعلق ہے تو وہ ہندوستان سے زیادہ بد قسمتی سے ہمارے لیڈروں کے بارے میں زیادہ صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ جن برائیوں اور اخلاقی پستی کا اس نے ذکر کیا ہے وہ ہمارے لیڈروں میں بکثرت موجو د ہیں۔
آج ہمارے ملک میں سب سے زیادہ ضرورت اتحاد ، نظم و نسق کی ہے۔ ہمارے حکمران آنکھیں بند کئے حالات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ چند سال پیشتر آپ نے ایران میں عوام کی طاقت کا مظاہرہ دیکھا تھا ۔ اپنے آپ کو طاقتور ترین سمجھنے والے شہنشاہ پر زمین تنگ ہو گئی تھی اور اسے مصر میں بمشکل دو گز زمین دفن ہونے کو ملی تھی۔ ابھی کرغیزستان کے واقعے سے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلی ہیں۔ جب پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے تو ایک بوند اس کو چھلکانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ اگر ان حالات میں کسی جوشیلے لیڈر نے عوام کے غیض و غضب کو متحد کر کے اس کا رخ موڑ دیا تو اس سیلاب کو کوئی نہ روک سکے گا۔کوئی بھاگ نہ سکے گا ، سڑکیں لاشوں اور خون سے بھر جائیں گی۔ جس طرح بھوکے پیٹ والے سے حب الوطنی کا تقاضا احمقانہ ہے اسی طرح عوام سے جو بے روزگاری ، مہنگائی ، ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی اور لوڈ شیڈنگ کے وزن سے دب کر مرے جا رہے ہیں ان سے حب الوطنی اور اتحاد ، نظم و نسق کی امید رکھنا چاند حاصل کرنے کے برابر ہو گا۔ اٹھارویں ترمیم آزادی کی نہیں قتل و غارت گری کا پیش خیمہ ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اس ملک و قوم پر رحم کرے۔ (آمین)