• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچوں کا تاریخی اور نسلی پس منظر...مجید اصغر

بلوچستان کے بارے میں چند کالم شائع ہونے کے بعد ملک کے مختلف علاقوں خصوصاً پنجاب سے جنگ کے قارئین نے اپنی دلچسپی کے اظہار کے لئے ٹیلی فون کئے۔ ان میں دوسروں کے علاوہ بعض علمی اور سیاسی شخصیات بھی شامل تھیں۔ ان کی گفتگو سے ظاہر ہوا کہ بلوچستان سے باہر دوسرے صوبوں میں رہنے والے اکثر لوگ ملک کے اس سب سے بڑے صوبے کے متعلق بہت کم، محض سطحی، نامکمل یا ناقص معلومات رکھتے ہیں، اس بنا پر وہاں کے مسائل کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتے اور غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ کسی تعصب کی بنا پر نہیں بلکہ بلوچوں کا حقیقی پس منظر نہ جاننے کی وجہ سے انہیں شورش پسند کا درجہ دیتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔ بحیثیت مجموعی بلوچ امن پسند اور محبت کرنے والے لوگ ہیں تاہم ان کی کچھ قبائلی روایات ہیں جنہیں چھیڑا جائے تو وہ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ انہیں اپنے ثقافتی ورثے اور آزادمنش زندگی سے بے پناہ پیار ہے اور یہی جذبہ ان کی قوم پرستی کی بنیاد ہے۔ بلوچ مختلف قبائل میں تقسیم ہیں اور قبائلی طرز معاشرت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ معاشرے میں کسی قبیلے کا وقار برقرار رکھنے کیلئے اس کا طاقتور ہونا اور بوقت ضرورت اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا بنیادی لوازمات میں شامل ہے۔ بلوچ معاشرے میں اعلیٰ مقام اور مرتبہ حاصل کرنے کا دارومدار وسیع رقبے کی ملکیت یا برادری کی اکثریت نہیں بلکہ اس اصول پر ہے کہ اس خاندان یا قبیلے میں جنگی صلاحیت کتنی ہے اور بلوچستان کی تاریخ میں اس قبیلے نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پشتونوں یا پٹھانوں کی طرح بلوچ بھی اپنا تشخص قائم رکھنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اپنے وطن، قبیلے اور گدان (خیمے) پر بری نظر ڈالنے والے کو کبھی معاف نہیں کرتے اور اپنی اس جبلت پر فخر کرتے ہیں۔ وہ اپنے وطن، قبیلے اور روایات کی حفاظت کے لئے ہمیشہ سینہ سپر رہتے ہیں۔ اپنے قبیلے یا اس کے کسی فرد کی عزت و آبرو پر حرف آئے تو غیرتو غیر، خود اپنے ہمسایہ قبائل سے بھی لڑپڑتے ہیں۔ ان کی تاریخ ایسی بے شمار جنگوں سے بھری پڑی ہے جو سالہا سال تک جاری رہیں اور ہزاروں لوگ تہ تیغ ہوئے۔ جنگ میں ان کی فتح ہو یا شکست، دونوں کی یاد احساس تفاخر کے ساتھ مناتے ہیں اور اپنے شہیدوں اور دلاوروں کی شجاعت کے گیت گاتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بلوچ اپنی تاریخ کے کسی بھی دور میں مکمل یکسو ہوکر نہیں بیٹھے۔ محققین کے مطابق بلوچ شام کے علاقے حلب سے تقریباً 6سو سال قبل مسیح میں ہجرت کرکے اپنے مال مویشیوں کے ساتھ پانی اور چراگاہوں کی تلاش میں سفر کرتے کرتے بلوچستان پہنچے۔ اس سے پہلے یہاں کول اور دراوڑ نام کی دو ہندو قومیں آباد تھیں جو رفتہ رفتہ جنوبی ہندوستان کی طرف کوچ کر گئیں۔ بعض موٴرخین بلوچوں کو عربی یا سامی النسل بھی قرار دیتے ہیں۔ ایک انگریز پروفیسر کی تھیوری یہ ہے کہ بلوچ بابل کے بادشاہ جس کا لقب بیلوس تھا سے تعلق رکھتے اورکلدانی الاصل ہیں۔ یہی بیلوس بعد میں بلوچ ہوگیا۔ عرب موٴرخین نے بلوچوں کے عربی النسل ہونے پر اصرار کیا ہے۔ خود بلوچوں کی روایات بھی یہی ہیں کہ ان کی اصلیت عرب ہے جو حلب سے نقل مکانی کرکے پہلے ایران اور اس کے بعد بلوچستان میں داخل ہوئے۔ بلوچوں کا ذکر فردوسی نے اپنے شاہنامے میں بھی کیا ہے اور انہیں مشہور بادشاہوں، کیکاؤس، انوشیروان اور خسرواول کے لشکری قرار دیا ہے، تاہم اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ بلوچوں کی تاریخ کئی ہزار سال پرانی ہے۔ علم الآثار قدیمہ کے ماہرین نے مہرگڑھ کی قدیم بستی پر تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ بلوچستان کی تہذیبی زندگی کی ابتدا سات ہزار سال قبل مسیح میں ہوئی۔ یہاں کے قدیم باشندے دیوی دیوتاؤں پر یقین رکھتے تھے۔ ظہور اسلام کے بعد انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور فقہی اعتبار سے اب وہ حنفی مسلمان ہیں۔ بلوچوں کے سترہ یا اٹھارہ بڑے قبائل ہیں جو ایک دوسرے پر سیاسی اور اقتصادی برتری کے لئے مسلسل تگ و دو میں رہتے ہیں اور اس کوشش میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تاریخ میں دوتین مواقع کے سوا کبھی متحدہ بلوچ سلطنت قائم نہ کرسکے۔ میرچاکر خان جو چاکراعظم کے پرشکوہ نام سے یاد کیا جاتا ہے پہلا حکمران تھا جس نے بلوچوں کو متحد کر کے ایک مضبوط ریاست قائم کی۔ اس کا دارالحکومت سبی یاسیوی تھا۔ وہ ایک لشکرجرار کے ساتھ ہندوستان کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا اور پنجاب پر حملہ کرکے ملتان اور جنوبی پنجاب پر قابض ہوگیا۔ جنوبی پنجاب میں آج جو بلوچ آباد ہیں کہا جاتا ہے کہ ان کے آباؤاجداد وہ لوگ تھے جو چاکراعظم کے ساتھ ہندوستان کی تسخیر کے لئے نکلے تھے لیکن بعد میں واپس آنے کی بجائے ان علاقوں میںآ باد ہوگئے۔ موت نے میرچاکر خان کو آگے بڑھنے کی مہلت نہ دی ورنہ ہندوستان کی تاریخ شاید مختلف ہوتی۔1551ء میں اس کی ناگہانی رحلت کے بعد اس کے لشکر کی یلغار رک گئی اور آخرکار اس کی مملکت دوبڑے بلوچ قبائل رند اور لاشار کی باہمی جنگ کی وجہ سے ختم ہوگئی۔ بلوچ حکمرانوں میں ایک اور بڑا نام میرنصیر خان نوری کا ہے۔ اس نے بلوچوں کو متحد کرکے ایک بڑی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ وہ اپنی رعایا میں سماجی اصلاحات، اچھے نظم و نسق، عدل و انصاف اور عسکری فتوحات کی وجہ سے بہت مقبول اور ہردلعزیز تھا۔ عام لوگ اسے ولی بھی قرار دیتے تھے کیونکہ وہ صوم و صلوٰة کا سختی سے پابند تھا۔ وہ سفر میں جہاں نماز پڑھتا وہ جگہ مسجدنصیر خان نوری کے نام سے مشہور ہوجاتی۔ یہ مسجد صرف مختصر قطعہ زمین پر چاروں طرف پتھر رکھ کر بنائی جاتی۔ ایسی ان گنت مسجدیں آج بھی بلوچستان میں موجود ہیں۔ 1761ء میں احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر حملہ کیا تو میرنصیر خان نوری سے بھی مدد طلب کی۔ نصیر نوری نے 25ہزار فوجی اور ایک ہزار اونٹوں کے ہمراہ اس کا ساتھ دیا اور پانی پت کی جنگ میں مرہٹوں کو شکست فاش دی۔
موجودہ بلوچستان ریاست قلات، اس کی باجگزار ریاستوں مکران، خاران، لسبیلہ، ساراوان، جھالاوان وغیرہ اور انگریزوں کو دیئے گئے مستجار علاقوں کے علاوہ برٹش بلوچستان پر مشتمل ہے۔ برٹش بلوچستان کی اصطلاح انگریزوں نے ان علاقوں کے لئے وضع کی تھی جو اصل میں افغانستان کا حصہ تھے۔ انگریزوں نے ان پر قبضہ کرکے براہ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ ریاست قلات ایک آزاد اور خودمختار مملکت تھی جس کا حکمران خان کہلاتا تھا۔ تاریخ میں اس کے سیاسی اور تجارتی روابط ہمیشہ عربوں، ایرانیوں خصوصاً افغانستان کے افغانوں کے ساتھ رہے۔ ہندوستان کے ساتھ اس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں برطانیہ کو جب خطرہ محسوس ہوا کہ روس افغانستان پر قبضہ کرکے وہاں سے بلوچستان کے راستے گرم پانیوں تک پہنچنے کے لئے سرگرم ہوگیا ہے تو اس نے درہ بولان اور کوئٹہ کے راستے افغانستان پر چڑھائی کردی۔ خان آف قلات کے افغانستان کے ساتھ بڑے مضبوط رشتے استوار تھے اس لئے اس نے راستہ دینے سے انکار کر دیا۔ انگریز چونکہ ہرحالت میں افغانستان پہنچنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے حملہ کرکے قلات کو زیرنگیں کرلیا۔ بعد میں 1876ء میں ہونے والے معاہدے کے تحت سلطنت برطانیہ نے چند شرائط کے تحت قلات کی خودمختاری تسلیم کرلی۔ یہ معاہدہ براہ راست لندن کی حکومت اور خان قلات کے درمیان تھا۔ دہلی میں قائم انگریزوں کی حکومت کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا۔ قیام پاکستان کے وقت بھی یہی صورتحال تھی۔ قلات نیپال کی طرح ہندوستان کی ریاست شمار نہیں ہوتی تھی۔ برطانوی حکومت کو بلوچستان میں جو مراعات حاصل تھیں اس کے عوض وہ خان قلات کو ایک لاکھ روپے سالانہ ادا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ قلات کو دوسرے ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے کا بھی اختیار تھا۔ انگریزوں سے خان کا یہ وعدہ بھی تھا کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت جب پاکستان اور ہندوستان دوآزاد ملک وجود میں آجائیں گے تو قلات کو بھی وہ آزادی واپس مل جائے گی جو 1876ء کے معاہدے سے قبل اسے حاصل تھی۔ اسی پس منظر میں 15/اگست 1947ء کو خان میر احمد یار خان نے جو قائداعظم کے دوست اور دست راست بھی شمار ہوتے تھے بعض بلوچ نوابوں، سرداروں اور قوم پرست لیڈروں کے دباؤ پر پاکستان سے الحاق کی بجائے مکمل آزادی کا اعلان کر دیا جس سے بلوچوں اور مسلمانوں کی نوزائیدہ مملکت کے درمیان بدمزگی اور کشمکش کا آغاز ہو۔
تازہ ترین