• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

Smelting Pot ایک ایسا سخت اور بڑا برتن ہوتا ہے جس میں خام دھاتوں کو پگھلایا جاتا ہے تاکہ کسی بھی دھات کے خام اجزاء کو علیحدہ کر کے خالص دھات حاصل کی جا سکے۔ جبکہmelting Pot ایک ایسا برتن ہوتا ہے جس میں ڈالی جانے والی ہر چیز پگھل جاتی ہے اور اپنی شکل اور ساخت کھو دیتی ہے۔ اب جائزہ لیتے ہیں ہر ممکنہ پہلو سے بدلتی اور بے یقینی کا شکار پاکستان کی سیاست کا اور دیکھتے کہ یہ دونوں میں سے کس برتن میں ہے۔
سب سے پہلی بے یقینی اگلے سال ہونے والے الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے ہے۔ بارہا خدشاتی بازگشت سنائی دی جا رہی ہے کہ نگران حکومت غیر معینہ مدت کے لئے اقتدار سنبھالے رکھے گی یا ٹیکنو کریٹس کی حکومت ایک سے دو سال کے لئے اقتدار میں رہے گی۔ ان دونوں میں سے کسی ایک حکومت کے قیام اور طوالت کا ایک جواز ملک کے اندر جاری سیاسی افراتفری جو الیکشن کے قریب بڑھ جائے گی یا بڑھا دی جائے گی جبکہ دوسرا جواز قومی سطح کا ایک بھرپور قسم کا احتساب قیاس کیا جاتا ہے۔ اگرچہ آرمی چیف کے سینیٹ سے خطاب نے بہت ساری غلط فہمیوں کو دور کر دیا ہے جس سے انتخابات کے انعقاد کے التوا کی بازگشت اگرچہ کم ہوئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی۔ انتخابات کے التوا میں وہ تمام چھوٹی پارٹیاں دلچسپی لیتی نظر آتی ہیں جو انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں۔ مزید واضح رہے کہ اگرچہ حلقہ بندیوں کا بل دونوں ایوانوں سے منظور ہو چکا ہے مگر حالیہ مردم شماری پر اعتراضات کے بعد پانچ فیصد علاقوں میں آزمائشی طور پر آبادی کی گنتی دوبارہ کی جائے گی اور اگر نتائج مختلف نکلے تو حلقہ بندیوں کا سلسلہ طوالت اور تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔ مزید براں اگلے الیکشن سے پہلے سینیٹ کے الیکشن کا انعقاد ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ حکومت سے مستعفی ہونے کا اور قبل از وقت الیکشن کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں، بالخصوص پی ٹی آئی، کا ٹارگٹ حکومتی جماعت کو سینیٹ میں اکثریت سے محروم کرنا نظر آتا ہے۔ اس لئے اگلے الیکشن سے پہلے سینیٹ کے الیکشن کا انعقاد زیادہ اہم ہے۔
الیکشن ہونے کی صورت میں ممکنہ اتحاد اور محرکات بھی غیر واضح اور ہشت پہلو نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلے کراچی کی صورت حال ہے جہاں دہائیوں سے یکطرفہ جیتنے والی پارٹی یعنی ایم کیو ایم کی کمزور متزلزل پوزیشن کے بعد پی ایس پی کا قیام، پی ٹی آئی کے شہری علاقوں کی مضبوط جماعت ہونے، اور سب سے بڑھ کر کراچی جماعت اسلامی کا سابقہ گڑھ ہونے کے تناظر میں دیکھنا یہ ہے کہ ان تینوں جماعتوں میں سے کون سی دو یا تینوں جماعتیں ایم کیو ایم کو چت کرنے کے لئے اتحاد کرتی ہیں۔ اور ایم کیو ایم کتنی نشستوں پر کامیابی حاصل کر پاتی ہے۔ مزید براں سوال یہ ہے کہ کراچی میں پیپلز پارٹی کتنی مؤثر ثابت ہوتی ہے اور کتنی نشستیں حاصل کر پاتی ہے کیونکہ ایم کیو ایم کی خالی کردہ ایک سیٹ پیپلز پارٹی نے جیتی تھی مگر کہا جاتا ہے کہ یہ سیٹ پیپلز پارٹی کے اقتدار میں ہونے کی وجہ سے ملی۔ اگلا سوال یہ ہے کہ ملک گیر سطح پر کون سے اتحاد بنتے ہیں۔ اس سلسلے میں بالخصوص اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کے مقابل گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس تیاریاں پکڑ چکا ہے جس میں فنکشنل لیگ، ذوالفقار مرزا گروپ اور دیگر علاقائی قوم پرست جماعتیں متحد ہو چکی ہیں۔ واضح رہے پیپلز پارٹی اندرون سندھ تک محدود ہو چکی ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اتحاد پیپلز پارٹی کے لئے کتنا بڑا چیلنج ثابت ہوتا ہے اسی طرح بظاہر ایم ایم اے کے احیا کا عندیہ دے دیا گیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ یہ اتحاد کتنا مؤثر ہوتا ہے کیونکہ مذہبی جماعتیں مختلف دھڑوں میں تقسیم ہیں جیسا کہ مولانا سمیع الحق عمران خان سے اتحاد کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح مذہبی جماعتوں کے تناظر میں دیکھنا یہ ہے کہ پیر حمیدالدین کی سربراہی میں چلنے والی تحریک مزید کتنا مومینٹم پکڑتی ہے کیونکہ غیر سیاسی ہونے کے دعوے کے باوجود اس تحریک کا ایک سیاسی پہلو بہرحال واضح ہو چکا ہے کہ ن لیگ کو ووٹ نہیں دیا جائے گا۔ اگر اس تحریک کے تحت امیدوار میدان میں اتارے جاتے ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ یہ کتنے ووٹ حاصل کرتے ہیں اور یہ کس جماعت کے ووٹ توڑتے ہیں۔ اسی طرح ایک دلچسپ غیر یقینی یہ ہے کہ اگر کوئی جماعت واضح برتری حاصل نہیں کرتی تو دیکھنا یہ ہو گا کہ حکومت کی تشکیل کے لئے کون کون سی جماعتیں اتحاد کرتی ہیں؟
کچھ مزید دلچسپ اور غیر واضح محرکات بھی موجود ہیں۔ سب سے اہم فاٹا کا خیبر پختونخوا میں ضم ہونا ہے۔ ضم ہونے کی شکل میں اس صوبے کی سیاست یکسر بدل جائے گی۔ قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہو گا جس سے ووٹنگ پیٹرن اور ٹرن آوٹ زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ مزید یہ کہ اس انضمام کا کریڈٹ کونسی جماعت لے گی بظاہر یہ عمل لیٹ ہونے کی وجہ سے ن لیگ بیک فٹ پر نظر آتی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ مسلسل دو اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر رہی ہیں پہلی مدت پیپلز پارٹی نے پوری کی اور عوام نے اگلے الیکشن میں اس پارٹی کو مسترد کر دیا۔ دوسری مدت ن لیگ پوری کرنے جا رہی ہے دیکھنا یہ ہے کہ عوام اس جماعت کو دوبارہ منتخب کرتے ہیں، پیپلز پارٹی کی طرف جھکائو کرتے ہیں یا پی ٹی آئی کو باری دیتے ہیں۔ میڈیا نے بھرپور طریقے سے عوام کو شعور دیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ خاموش اکثریت ووٹ ڈالنے کے لئے نکلتی ہے کہ نہیں اور اگر نکلتی ہے تو جھکائو کس طرف دکھاتی ہے۔ اسی طرح الیکشن کے قریب کوئی سیاسی بہائو (Wave) تو نہیں آتا بالخصوص خدانخواستہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ اسی طرح نیشنل اور انٹرنیشنل، بظاہر غیر سیاسی ،actors اپنا اثر کس رخ دکھاتے ہیں اس سلسلے میں سیاست میں سرمائے کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس سال قومی اسمبلی کی ایک نشست کے اخراجات کا تخمینہ بیس کروڑ سے زیادہ بیان کیا جا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سب کچھmelting Pot میں پگھلتا ہے یا کہ Smelting Pot میں سے ہو کر خامیاں دور یا کم کر کے نکھر کر سامنے آتا ہے۔

تازہ ترین