• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ملک میں اس وقت جہاں مسائل سے عوام پریشان ہیں ۔وہاں اداروں اور حکمرانوں کی کشمکش بھی عروج پر پہنچ چکی ہے ہر صبح ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے۔ عدلیہ نے تہیہ کرلیا ہے کہ وہ کرپشن کو جڑ سے ختم کرےگی مگر حکومت اس کے جزوی فیصلوں پر عمل درآمد کرتی ہے اور جو فیصلے اس کو پسند نہیں ان پر ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے۔ جعلی ڈگریوں کے قومی، صوبائی اور سینیٹ کے ارکان اب تک اسمبلیوں میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ڈگریوں کی تصدیق کا سلسلہ رک چکا ہے۔ موجودہ سینیٹ کے الیکشن میں زبردست دھاندلی دیکھنے میں آئی اور ووٹوں کی بڑے پیمانے پر خرید وفروخت کی گئی۔ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئر مین کے چنائو کےلئے پھر خرید وفروخت شروع ہوگئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنا امیدوار نامزد کرانا چاہتی ہے جبکہ مسلم لیگ ن اپنا امیدوار لانا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف نے اپنا پلڑا وزیراعلیٰ بلوچستان کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کے 3اور پی ٹی آئی کے ایک سینیٹر کا دہری شہریت کے الزام میں نوٹیفکیشن روکنے کا حکم جاری کردیا ہے، دیکھتے ہیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا سب کو 12مارچ کا انتظار ہے۔ دوسری طرف عدلیہ نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس میں اُس کے سی ای او شعیب شیخ کو دوبارہ گرفتار کروادیا ہے اور اس کیس کا پہلا فیصلہ کرنے والے جج کو برطرف کردیا گیاہے اور اُس پر مقدمہ چلانے کا حکم دیا ہے ۔
میں اکثربیرونی ممالک کے واقعات لکھتا رہتا ہوں۔ چند سال قبل لندن میں، میں نے اخبارات میں پڑھا کہ وہاں کے وزیراعظم اسپتال میں اپنے باڈی گارڈ کے ساتھ کسی سے ملنے پہنچ گئے۔ اتفاق سے اسپتال کے انچارج سرجن اور ڈاکٹروں کی ٹیم بھی اپنے مریضوں کی روزانہ کی چیکنگ کیلئے معائنہ کررہی تھی۔ انہوں نے وزیراعظم صاحب کے ساتھ جو اتنے بندے دیکھے تو سرجن نے آگے بڑھ کر وزیراعظم صاحب سے اُن کے بغیر اطلاع آنے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اسپتال سے چلے جانے کو کہا جواب میں وزیراعظم نے بھی فراخدلی سے اپنی غلطی تسلیم کرلی۔ اُس وقت مریضوں سے ملنے کا وقت نہیں تھا۔ کیا ہمارے ملک میں ایسا کوئی سر پھراسرجن اتنی جرات کرسکتا ہے کہ وہ وزیراعظم کو مریضوں کے اوقات کے علاوہ آنے سے روک سکے۔ ان ممالک کی ترقی کا راز قانون کی حکمرانی پر منحصر ہے، جو اسلام کا بنیادی حصہ ہے کہ ’’عدل قائم کرو‘‘ مگر آج مسلمان عدل سے خود کو دُور کرچکے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ چند سال قبل کینیڈا کے شہر وین کور میں بھی پیش آیا تھا جب اُن کی آئس ہاکی ٹیم مہمان ٹیم سے ہار گئی تو وہاں موجود اسٹیڈیم سے نکلنے والے افراد اپنی ٹیم کی ہار برداشت نہیں کرسکے، انہوں نے چند گھنٹوں میں وین کور کی سڑکیں، تجارتی مراکز پر غصے کے حالت میں توڑ پھوڑشروع کردی۔ پورا شہر دہشت گردی کا شکار ہوگیا مگر فوری طور پر پولیس اور ہنگامی دستے پورے شہر میں پھیل گئے اور لوٹ مار کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ صرف 2دن میں پورے شہر کو شرپسندوں سے نجات دلوا کر اور شہریوں کی جان ومال کی حفاظت یقینی بناکر پولیس نے کارکردگی کا نمونہ پیش کردیا۔ وہاں کے عوام ایسی دہشت گردی کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔مگر وہاں بھی ایسا واقعہ ہوسکتا ہے اس لئے انہوں نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے فورس بنا رکھی ہے جو صرف ایسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل G.20کی میٹنگ جو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں منعقد ہوئی تھی، اس کے تمام اہم ممبران ٹورنٹو آئے تھے ۔جن میں امریکی صدر بھی تھے، کینیڈین پولیس نے زبردست حفاظتی انتظامات کئے تھے ۔ٹورنٹو کے ڈائون ٹائون شہر کو سیل کر کے 3دن تک آنے جانے کے تمام راستے بند کئے گئے۔ رکاوٹیں لگا کر 100میل تک شہریوں کے داخلے بھی بند کردیئے گئے تھے۔ وہاں کی ایک تنظیم کے لوگ جو اس G.20کے خلاف تھے نے آگے آنے کی کوشش کی تو ایک شخص کو ایک پولیس والے نے جو ہیلمٹ سے چہرہ چھپائے ہوئے تھا بہت بے دردی سے مار کر واپس جانے پر مجبور کیا چونکہ اس کا چہرہ ہیلمٹ سے چھپا ہوا تھا اس کی نشاندہی نہیں ہوسکی۔ میڈیا پر وہ ہمارے میڈیا کی طرح باربار دکھاتے رہے۔ ایک سال بعد اس پولیس والے کی نشاندہی بھی میڈیا نے اپنے ذرائع سے کی اور اس کو اب عدالتی کارروائی سے گزرنا پڑرہا ہے کیونکہ وہاں پولیس ایسا وحشیانہ لاٹھی چارج نہیں کرسکتی وہ بھی عوام اور قانون کو جواب دہ ہے۔ انسان تو کجا کینیڈا میں کسی جانور کو بھی نہیں مارسکتے، کسی درخت کو نہیں کاٹ سکتے، کسی عام پرندے کو اپنے گھر سے بچے ہوئے کھانے یا اجناس نہیں ڈال سکتے۔ اگر آپ نے ایسی غلطی کی اور پولیس کو کسی نے اطلاع کردی تو آپ کو سزا ہوسکتی ہے۔ اگر آپ نے کینیڈا میں اپنے ہی چھوٹے بچے کو گھر میں محفوظ نہیں رکھا اور کسی طرح دروازہ کھول کر باہر وہ نکل گیا اور کوئی پولیس کو فون کردے کہ کوئی چھوٹا بچہ ہاہر گھوم رہا ہے تو فوراً مقامی پولیس کی گاڑی حرکت میں آجاتی ہے اور بچے کو اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ پھر والدین کی تلاش ہوگی اور والدین سے سوال ہوگا کہ یہ بچہ آپ کے گھر سے باہر کیسے آیا۔ آپ نے اسکی حفاظت کیوں نہیں کی وغیرہ وغیرہ۔ پھر والدین کو تاکید کر کے بچہ واپس کردیا جاتا ہے اور اگر پھر یہ واقعہ پیش آئے تو پولیس بچے کو نگہداشت کے اداروں کے حوالے کردیتی ہے، پھر بچہ 18سال تک وہیں پرورش پاتا ہے۔ جوان ہونیکے بعد اس کے والدین کو کہا جاتا ہے کہ اگر بچہ واپس گھر جانا چاہتاہے تو ٹھیک ورنہ وہ پھر آزاد ہوجائے گا اور اگر اس کے پاس کوئی روزگار نہیں ہو تو حکومت اس کی کفالت کرتی ہے۔ یہی اسلام کا درس تھا جو ہم بھلا چکے ہیں ایسے ہزاروں قانون کی حکمرانی کے واقعات یورپ، امریکہ اور ترقی پذیر ملکوں میں آج بھی ہوتے ہیں، انہوں نے مسلمانوں سے ان کی آسمانی کتاب قرآن کی تعلیمات حاصل کر کے انہیں اپنے ملک کے قانون کا حصہ بنادیا ہے مگر آج مسلمان عدل کو بھلا کر خود خوار ہورہے ہیں اور اب تو عدلیہ کو بھی نیچا دکھا کر اس کے مقام کو گرا رہے ہیں۔ جیسا کہ نہال ہاشمی کو ایک ماہ سزا اور جرمانہ کیا گیا تھا مگر سزا کاٹ کر رہا ہونے کے بعد انہوں نے پھر عدلیہ کے خلاف دل کھول کر بھڑاس نکالی اور اب عدلیہ نے انہیں دوبارہ توہین عدالت کا نوٹس بھیج دیا ہے۔ ماضی میں جب سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عدلیہ نے نااہل قرار دیا تو اُس وقت نواز شریف علی الاعلان کہہ رہے تھے کہ عدلیہ کا فیصلہ بالکل درست ہے اور اب جبکہ اُن کو نااہل قرار دیاگیا ہے تو وہ اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ کھل کر یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ عوام نے انہیں کامیاب کرایا ہے مگر عدلیہ نااہل قرار دے رہی ہے ایسا تضاد کہیں نہیں دیکھا۔ اب تو وزیراعظم صاحب بھی جلسوں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ اور میڈیا کا فیصلہ قبول نہیں عوام کا فیصلہ فیصلہ ہوتا ہے۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین