• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تعلیم کے نام پر ’’کاروبار‘‘

صوبائی محکمہ تعلیم کی عدم توجہ کے باعث سندھ میں اچھی اور معیاری تعلیم کا حصول مشکل اور مہنگا ہوگیا ہے۔ سندھ میں سرکاری اسکولوں کی حالت انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میٹرک کے کراچی میں ہونے والے سالانہ امتحانات میں 75فیصد طلبہ کا تعلق نجی اسکولوں سے ہوتا ہے اور محض 25فیصد طلبا سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں۔

گزشتہ برس اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اسکول کی فیسوں میںہوشربا اضافہ ہونے کے بعد پاکستان میں تعلیم بہت مہنگی ہو جانے کا خدشہ ہے۔ اسٹیٹ بینک کے افراط زر کا جائزہ لینے والے نگران شعبے کے مطابق مکانوں کے کرایے میں اضافے کے بعد تعلیم کا شعبہ افراط زر میں سب سے زیادہ اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

نیشنل ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (این ای ایم آئی ایس) کے جاری کردہ 2015-16کے اعداد و شمار کے مطابق ، اسکول جانے والے بچوں کی تعداد دو کروڑ چالیس لاکھ بچوں سے کم ہو کر دو کروڑ چھبیس لاکھ رہ گئی ہے۔

لیکن یہ تو اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں کمی کا احوال ہے جب کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ کسی گنتی میں ہی نہیں آتی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 5 سے 15 سال کی عمر کے 44 فیصد بچے اب بھی اسکول سے باہر ہیں۔

ہر سال سرکاری اسکولوں میں انرولمنٹ کی شرح کم اور نجی اسکولوں میں بڑھ رہی ہے ،جس کی وجہ’’ معیار تعلیم‘‘ ہے۔ اچھی اور معیاری تعلیم کے لئے والدین نجی اسکولوں کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہیں، اسی بات کا فائدہ نجی اسکول اٹھا رہے ہیں اور من مانی فیسیں وصول کررہے ہیں،یہی نہیں، اپنے اسکولوں کی پبلسٹی کرنے کے لیے اسکول کے نام کی اسٹیشنری،کاپیاں اور کتابیں اسکول ہی میں فروخت کر کے والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ یہ سامان اسکول ہی سے خریدیں۔

اس کے علاوہ حیلے بہانوں سے مختلف دن،ایکٹیویٹی اور فنکشن پارٹیوں کے نام پر بٹورے جانے والے پیسوں کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں۔یہ دن دہاڑے ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔مجبور والدین پیٹ پر پتھر باندھ کر اعلیٰ اور نامی گرامی اسکولوں کے جھانسے میں باآسانی آجاتے ہیں۔نجی اسکولوں کو قابو میں کرنے کے لئے حکومت نے قانون بنایا ہے تاہم اس کا اطلاق نہیں ہورہا۔ 

بالکل ایسا ہی سڑکوں پر نظر آتا ہے جس طرح غلط سمت میں گاڑیاں سڑکوں پر دندناتی پھرتی ہیں اور ٹریفک سارجنٹ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے کچھ ایسا ہی حال محکمہ تعلیم کا ہے، وہ ان اسکولوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا،ا گرچہ قانون موجود ہے کہ یہ اسکول صرف پانچ فیصد سالانہ فیس ہر سال بڑھا سکتے ہیں، مگر اس کی بھی پیشگی اجازت لینا ضروری ہے ،تاہم اس کے برعکس ہوتا ہے۔ کیمرج سسٹم کے تحت چلنے والے اسکول، پانچ تو دور کی بات دس سے پچاس فی صد فیس بڑھا لیتے ہیں اورکوئی کچھ نہیں کر پاتااور نہ ہی کوئی پوچھتا ہے۔

قانون کے مطابق نجی اسکول داخلے کے وقت تین ماہ کی مقررہ ٹیوشن فیس سے زیادہ داخلہ فیس نہیں رکھ سکتاہے، مگر ہوتا کچھ اور ہے، اگر ٹیوشن فیس پانچ ہزار روپے ماہانہ ہے تو داخلہ فیس پندرہ ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے لیکن سیکڑوں نجی اسکول ٹیوشن فیس کے دس گنا زیادہ فیس داخلے کی مد میں لے رہے ہیں۔ 

قواعد کہتے ہیں کہ نہ سیکورٹی کے نام پر فیس لی جاسکتی ہے اور نہ ہی سالانہ چارجز اور نہ ہی لائبریری یا کمپیوٹر کی مد میں، مگر اسکول یہ فیس بھی لے رہے ہیں اور محکمہ تعلیم آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ غرض کہ نجی اسکولوں نے تعلیم کو کاروبار بنایا ہوا ہے اور حکومت اس حوالے سے کچھ کرنے پر تیار ہی نہیں ہے۔

صرف کراچی میں 7ہزار کے لگ بھگ نجی اسکول ہیں جن میں 250 سے زائد کیمبرج اسکول بھی ہیں، جن کے آگے حکومت بالکل بے بس ہے۔ ان اسکولوں کا اپنا قانون اور اپنا طریقہ کار ہے اور چونکہ اعلیٰ طبقات اور بااثر لوگوں کے بچے وہاں زیر تعلیم ہیں تو وہ ہر قاعدے قانون سے آزاد ہیں۔

اگر محکمہ تعلیم کوئی کارروائی کرنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو اس پر اس قدر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ پھر اس جانب رخ کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔

’’پرائیویٹ اسکولز‘‘ اس قدر موثر کاروبار ہے کہ اب ان کی فرنچائز بھی شروع ہوچکی ہیں۔ کئی معروف نجی اسکولوں نے فرنچائز کے لئے باقاعدہ اشتہارات بھی دیئے ہیں اور اب یہ کاروبار بھی تعلیم کے نام پر زور پکڑتا جارہا ہے جبکہ ریاست اس پر خاموش ہے۔

 ماضی میں نجی اسکولوں سے متعلق شکایات پر عمل بھی ہوجاتاتھا جس میں اسکولز، ڈائریکٹر اسکولز کے ماتحت ہوتے تھے، لیکن پیپلز پارٹی کے دور میں ان نجی اسکولوں کے لئے ڈائریکٹوریٹ بھی علیحدہ کیا جاچکا ہےاور اس میں تعیناتی کے لئے سفارشیں چلتی ہیں ،صرف بیس رکنی عملہ کراچی کے 7ہزار اسکولوں کو مانیٹرکس طرح کرے گا۔ ظاہر ہے پھر تو نتیجہ کچھ اور ہی نکلے گا۔

بدقسمتی یہ ہے کہ حکمران ، بیوروکریٹ اور اعلیٰ طبقات کے بچے تو ٹاپ کلاس کے کیمبرج یا مشنری اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور زیادہ فیس ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں، مگر غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والےبچے کہاں جائیں۔بس ایک بار بچے کو ان اسکولوں میں داخل کردیں،پھر وہ اسکول انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ کاش، حکومت، تعلیم کو اہمیت دے اور سرکاری اسکولوں کی حالت زار کو بہتر بناسکے، مگر اس کے لئے حکومت ، بیوروکریٹس اور اعلیٰ طبقات کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنےبچے سرکاری اسکولوں میں داخل کروائیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو صوبے کے تمام سرکاری اسکول نہ صرف آباد ہو جائیں گے بلکہ مہنگے نجی اسکولوں کی طرف کوئی رخ بھی نہیں کرے گا اور ان کا کاروبار ٹھپ ہوجائے گا۔

گزشتہ کچھ عرصہ قبل، نجی اسکولوں کی جانب سے بلاجواز اور کئی گنا بڑھائی گئی فیسوں پروالدین کی جانب سےہونے والے مظاہروں اور احتجاج کے باوجود محکمہ تعلیم کی خاموشی اورایکشن نہ لینے کی پالیسی کو دیکھتے ہوئے کئی والدین کو عدالت جانا پڑا۔

 اگرچہ اس میں کچھ وقت لگا مگر عدالت نے سٹی ، بیکن ہائوس اور فائونڈیشن کے اسکولوں کی جانب سے کیا گیا اضافہ غیرقانونی قرار دیا اور کہا کہ وہ زائد وصول کی گئی فیس واپس کریں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ محکمہ تعلیم یہ کام کیوں نہیں کرسکا۔ درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ محکمہ تعلیم ایکشن لینےپر قادر ہی نہیں ہے، جبکہ محکمہ تعلیم میںدو سیکریٹریز ہونے کی وجہ سے صورت حال مزید خراب ہے۔

 پرائیویٹ کالجز اور انسٹی ٹیوشنز، سیکریٹری کالجز کے ماتحت ہیں اور میٹرک تک اسکول سیکریٹری اسکول ایجوکیشن کے ماتحت ہیں،جبکہ ڈی جی پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز ان دونوں سیکرٹریز کو رپورٹ کرتے ہیں۔ تاہم کوئی کارروائی ہو نہ ہو ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز حکمرانوں اور بیورو کریٹس کے بچوں کو ان کے من پسند اسکول میں ضرور داخلہ دلادیتے ہیں۔ گزشتہ پندرہ سال سے ڈاکٹر منسوب حسین صدیقی ڈی جی پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز ہیں، کیا اتنے طویل عرصے تک سرکاری عہدے پر ایک ہی شخص کا فائز رہنا درست ہے یا نہیں۔ اس کا فیصلہ تو وزیر تعلیم کو ہی کرنا چاہئے۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ والدین کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر اب ان نجی اسکولوں نے ڈیڑھ تا دو سال تک کی عمر کے بچوں کے لئے بھی ’’پلے گروپ‘‘ کے نام سے کلاسیں شروع کردی ہیں۔ یہ وہاں کیا پڑھاتے ہیں؟ کس طرح پڑھاتے ہیں؟ اس سے بھی محکمہ تعلیم لاعلم ہے۔ ’’پلے گروپ‘‘ کے نام پر بھی بھاری فیسیں لی جارہی ہیں۔ پھر اس کے بعد پری نرسری، نرسری ، کے جی اور پھر چار سے پانچ سال بعد بچہ پہلی کلاس میں آتا ہے۔

اصل عمر جس میں بچے کو اسکول جانا چاہئے، وہاں تک آنے میں یہ نجی اسکول بچے کے والدین سے لاکھوں وصول کرچکے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بچے پانچ سال کی عمر میں اسکول جاتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے ہمارے ہاں کون سا کام ہے جو قاعدے قانون کے مطابق ہورہا ہے؟؟

والدین کیا کہتے ہیں.....

بھاری فیسوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے،مسزشہاب درانی

میرے تین بیٹے شہر کے معروف پرائیویٹ اسکول میں زیر تعلیم ہیں،جہاں کیمبرج سسٹم کے تحت تعلیم دی جاتی ہے۔ہم اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے انہیں نجی اسکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بیٹوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو،ظاہر ہے ایسا صرف کیمبرج اسکول میں تعلیم دلوا کرہی ممکن ہے، کیوں کہ سرکاری اسکولوں کا حال سب ہی کو پتااور گلی محلوں میں کھلنے والے نجی اسکولوں کا معیار ناقص ہے جہاں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔

جہاں تک بھاری فیس کا تعلق ہے تواس پہ سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔محض فیس ہی نہیں مختلف ایونٹ پر بھی پیسے وصولے جاتے ہیں۔بچوں کو اعلی اسکول میں تعلیم دلوانے کے لیے ہم خواہشات تو دور کی بات ضروریات پر بھی سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔حکومت اگر تعلیمی نظام بہتر بنا دے توکیمبرج سسٹم کے ذریعے ہمارا سرمایا دوسرے ملک نہ جائے۔

اسکول کی فرمائشوں سے گھریلو بجٹ متاثر ہوجاتا ہے،حمیرا مقبول

میرابیٹا اور بیٹی شہر کے ایک معروف نجی اسکول کی فرنچائز میں زیرتعلیم ہیں۔ میرے شوہر پرائیویٹ ملازمت کرتے ہیں۔ہمارے گھریلو بجٹ میں دیگر اخراجات کے علاوہ سب سے بڑا خرچہ اسکول کی فیس کا ہوتا ہے۔اسکول کی روز روز کی فرمائشوں سےاکثر ہمارا بجٹ ہی متاثر ہوجاتا ہے۔ہر سال تنخواہ نہیں بڑھتی ،لیکن اسکول کی فیس میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

یونیفارم،کتابیں اور کاپیاں بھی ہمیں اسکول سے ہی خریدنا پڑتی ہیں،اس کے علاوہ ایکٹیویٹی کےنام پر فنکشنز کے لیے بھی پیسے مانگے جاتے ہیں۔بچوں کو لنچ میں کیا دینا ہے یہ بھی اسکول والے ہی بتاتے ہیں۔کسی نے صحیح کہا ہے کہ یہی کسر رہ گئی ہے کہ نجی اسکول اب جائیداد میں سے بھی حصہ نہ مانگ لیں۔

اعلیٰ عدلیہ سے اپیل ہے ،توجہ دے، محمدریحان

میرے دو بیٹے پرائیویٹ اسکول میں زیرتعلیم ہیں،جس طرح سے اُن کی کلاسز آگے بڑھ رہی ہیں فیسوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے،گزشتہ برس 40فی صد اضافہ کیا گیا۔جب اسکول انتظامیہ سے بات کی تو انہوں نےاس مسئلے پر بات تک کرنا گوارا نہ کی اور صاف کہہ دیا آپ کہیں اور پڑھوالیں۔

ان اسکولوں کی دیکھا دیکھی اسکول وین مافیا بھی بے قابو ہوچکا ہے،خستہ حال ویگنوں میں بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھرنے کے باوجود ہر نئے سیشن پر ان کی فیسیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ہم اعلیٰ عدلیہ سے اپیل کرتے ہیں کے اس جانب توجہ دے۔

قارئین ِ کرام!!

’’نجی اسکولوں کی من مانیوں اور بڑھتی ہوئی بھاری فیسوں‘‘کے موضوع پر اگر آپ اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں یا والدین اس حوالے سے اپنے تجربات شیئر کرناچاہیں توہمارا’’تعلیم‘‘کا صفحہ حاضر خدمت ہے ،ہمارا پتہ ہے:

انچارج صفحہ’’تعلیم‘‘مڈویک میگزین،

فرسٹ فلور،میگزین سیکشن،اخبار منزل،روزنامہ جنگ،آئی آئی چندریگرھ روڈ،کراچی۔

تازہ ترین