• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے کمرے کی کھڑکی

منیزہ نورالعین صدیقی

میرے کمرے کی کھڑکی سڑک کی جانب کھلتی ہے. میں کھڑکی سے باہر کی دنیا کا نظارہ کرتی ہوں .فرصت کے لمحات میں زندگی کو یوں بھاگتے دوڑتے دیکھنا قدرت کی کاری گری پر غور وفکر کرنا اور پھر خیالات میں گم ہوجانا یہ سب میرا پسندیدہ مشغلہ ہے۔

یوں تو چوبیس گھنٹوں میں زندگی کا ہر لمحہ اپنی نوعیت کے اعتبارسے بہت اہم ہوتا ہے، مگر جب کمرے کی کھڑکی کھول کر تازہ ہوا میں گہری سانس لیتے ہوئے لمبی سڑک کے کنارے ہرے بھرے درختوں کودیکھتی ہوں تب فضا میں کرنیں بکھیرتا سورج بہت خوبصورت لگتا ہے ۔

چہچہاتے پرندے فضا میں ایک خاص نغمگی پیدا کرتے ہیں، کوشش کرتی ہوں کہ اس کھڑکی کے ذریعے زندگی کو لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھتے دیکھوں، مگر ہمیشہ ایسا ممکن نہیں ہوتا ہاں ، جب شام کو فرصت ملتی ہے چائے کی پیالی ہاتھ میں لیے میں اپنی مخصوص کرسی پر براجمان ہوکر کھڑکی سے نظارہ کرتی ہوں، تب بے ہنگم ٹریفک کی آواز سماعتوں کو بری نہیں لگتی ۔

لمبی اور طویل سڑک پر اکثر ہی ٹریفک جام ہوتا ہے، دھواں اڑاتی گاڑیاں بار بار ہارن بجا کر اپنے غم وغصے کا اظہار کرتی ہیں، ایسے میں ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی گاڑی کو وہاں سے نکال سکے، میں ہر ایک کو دوسرے پر بازی لے جاتے ہوئے دیکھتی ہوں۔ پیدل چلنے والوں کو بھی خاصی جلدی ہوتی ہے۔

سڑک کے اطرف ان گنت دکانیں سجی ہوتی ہیں ،جہاں خریداروں کا ہجوم دیکھ کر یوں لگتا ہے،جیسے کہ مفت کا مال بٹ رہا ہو، ان دکانوں پرضروریات زندگی کی سب ہی اشیاء دستیاب ہوتی ہیں ،لگتا ہے زندگی نے یہاں اپنا مستقل ٹھکانہ کیا ہوا ہے، ہرعمراورہر طبقہ کے لوگ خریداری کے لیے موجود ہوتے ہیں۔

زندگی زندہ دلی کا نام ہے کہ مصداق یہاں کے لوگ فارغ اوقات میں ہلہ گلہ اور تفریح کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ زندگی کا ایک انداز یہ بھی ہے پھر اچانک ان ہی میں سےوہ لوگ نمایاں ہوجاتے ہیں، جنہیں غمِ روزگار نے مایوس کر رکھا ہے، مسکراہٹ ان کے چہروں پر شاذونادر ہی نمودار ہوتی ہے، سڑک کے کنارے اداس چہرے لیے مزدوری کے انتظار میں وہ صبح سے شام کردیتے ہیں۔

کچھ حوادث زمانہ کے ستائے ہوئے لوگ، جنہیں ہم عرف عام میں پاگل کہتے ہیں، قہقہوں اور پتھروں کی زد سے اپنے آپ کو بچاتے اورگذرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو زمانے سے اب کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی یہ منظر مجھ سے دیکھا نہیں جاتا ،تب میں کچھ دیر کے لیے کھڑکی سے ہٹ جانے میں عافیت سمجھتی ہوں، سوچتی ہوں کون سے حالات نے انہیں حال سے بیگانہ کردیا ہے،بہرحال یہ بھی زندگی کاایک رنگ ہے ۔سرشا م کھڑکی کے سامنے مشہورومعروف ریستوران خوبصورت قمقموں سے سج جاتا ہے۔ رات کو یہ سڑک فوڈاسٹریٹ کا منظر پیش کرتی ہے۔

خوش شکل اور خوش لباس لوگ خریداری میں مصروف ہوتے ہیں، انواع و اقسام کے کھانے میزوں پر چنے ہوتے ہیں۔ بڑے، بچے اور جوان سب ہی کھانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

 پیشہ ور گداگر ہر راہ پر رکاوٹ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں، ان میں کچھ ضعیف اور سفید پوش مساکین ہاتھوں میں چھوٹی موٹی ضروریات زندگی کا سامان لیے بیچتےنظر آتے ہیں، میں زندگی کے اس رنگ کو بھی غور سے دیکھتی اور محسوس کرتی ہوں۔ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک ہر دن ایک نیا منظراور نئی کہانی لیے ہوتا ہے۔ ایسے سمے اقبال کا یہ شعر خودبخود زبان پر آجاتا ہے۔

تو اسے پیمانہء امروز و فردا سے نہ ناپ

جادواں، پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی

قدرت کی کاری گری پر حیرت ہوتی ہے، واہ انسان بھی کیا چیز ہے؟ کتنی محنت اور مشقت سے زندگی کا اسٹیج سجاتا ہے اور پھر خود ہی اسے بنجر بنا دیتا ہے، یہ سڑک کسی دن اچانک ہی مردوں کا قبرستان بن جاتی ہے۔ کوئی دلخراش خبر آتی ہے کہ فلاں جگہ دھماکہ ہوگیا یافلاں مشہور شخصیت کو ٹارگٹ کرکے ابدی نیند سلادیا گیا، پھر یوں لگتاہے کہ، گویا میری کھڑکی سے نظر آنے والی سڑ ک ماتم کدہ بن گئی ہو۔

گہری خاموشی اور سوگ، ماحول کی نغمگی پر غالب آجاتا ہے، کہیں زندگی نظر نہیں آتی، کچھ دیر پہلے جوہجوم اور گہماگہمی تھی ،وہ یک لخت غائب ہو جاتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا کہ انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔

جگمگاتی دکانیں جل رہی ہوتی ہیں۔ جلی بسوں اور ٹائروں کا دھواں ماحول کو تاریکی میں بدل دیتا ہے۔ لگاتار اور مسلسل رونما ہونے والے واقعات کے باوجود میں اپنی کھڑکی سے ہمیشہ ہی زندگی کو تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہوں، حالانکہ اکثر ناکامی ہوتی ہے، پھر یہ رونما ہونے والے واقعات میرے دکھ میں اضافہ کردیتے ہیں۔ مجھے زندگی جب کہیں نہیں دکھائی دیتی، تب میں اس کھڑکی کو بند کردیتی ہوں اور پھر اسی وقت ہی کھولتی ہوں جب زندگی لوٹ آتی ہے۔

تازہ ترین