• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عذاب

دنیا میں اس سے بڑا اور کوئی عذاب نہیں کہ انسان وہ بننے کی کوشش میں مبتلا رہے جو کہ وہ نہیں ہے، گویا اس خواہش اور اس آرزو کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہم لوگ کوشش کرکے اور زور لگا کے اپنے مقصد کو پہنچ ہی جاتے ہیں اور بالآخر وہ نظر آنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو کہ نہیں ہوتے۔ اپنے آپ کو پہچانو اور خود کو جانو اور دیکھو کہ تم اصل میں کیا ہو اپنی فطرت اور اپنی اصل کے مطابق رہنا ہی اس دنیا میں جنت ہے۔

(اشفاق احمد۔ زاویہ ۳، علم فہم اور ہوش سے اقتباس)

مختصر بات

سیاستدانوں کو ٹیلی ویژن پر بھاشن دیتے ہوئے مجھےہمیشہ اپنی بڑی خالہ جان یاد آ جاتی ہیں۔

وہ بھی کسی سادہ سے سوال کے جواب میں ایک طویل داستان شروع کر دیتی تھیں، مثلاً میں پوچھتا کہ ، ”خالہ جان آج آپ دوپہر کے کھانےمیں کیا پکا رہی ہیں؟“۔

تو وہ کچھ یوں آغاز کرتی تھیں کہ ، ”میں جو گھر سے نکلی ہوں تو راستے میں فاطمہ جولاہی مل گئی، اس کا بیٹا دوبئی میں ہے، اس نے ایک پورا صندوق کپڑے لتّے کا ماں کو بھیجا ہے، تو فاطمہ جولاہی نے مجھے وہ سارے کپڑے دکھائے“۔

خالہ جان نہایت تفصیل سےہر کپڑے اورہر لباس کے بارے میں مجھے آگاہ کرتیں کہ ان میں سے کتنے سوٹ کمخواب کے تھے اور کتنے سوٹوں پر کتنی تعداد میں موتی ٹانکے تھے۔

ازاں بعد وہ آشاں بی بی سے ملاقات کی تفصیل بیان کرنے لگتیں اور جب میں بیزارہو کر کہتا کہ ”خالہ جی میں نے تو آپ سے پوچھا تھا کہ آج دوپہر کے کھانے پر آپ کیا بنا رہی ہیں؟“ تو وہ سخت خفا ہو جاتیں اور کہتیں کہ "ایک تو آج کل کے بچوں میں صبر نہیں ہے، بات سننے کا حوصلہ نہیں، میں نے دوپہر کے کھانے کے لئے ٹینڈے پکائےہیں“۔

ویسے خالہ جان اِن سیاست دانوں کی مانند دروغ گو اور منافق نہ تھیں ، جو دل میں ہوتا تھا وہ بیان کر دیتی تھیں، اگر چہ قدرے "تفصیل" سے کرتی تھیں۔ ”مُستنصر حسین تارڑ“

(”مختصر بات اور باتوں کے خربوزے“ سے اقتباس)

کریلے

امی جی نے کریلے بہت شوق سے خریدے تھے۔ زیبا باجی نے بکتے جھکتے کاٹے تھے۔ امی جی نے لگن سے پکائے تھے، پر زیبا باجی خفا ہوگئی تھیں، اتنی زیادہ کہ کمرے سے باہر نہ نکل رہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ ابا جی کو اس مقدمے کی پیروی کرنا ہی ہوگی۔ میں یہی سوچتی ہوئی ان کے کمرے کی طرف چل پڑی اور دروازے پر ہی جیسے میرے قدم ٹھہر سے گئے۔

امی جی رورہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں۔’’مجھے سہیل بہت یاد آتا ہے جی۔ وہ پچھلی بار فون پر کہہ رہا تھا کہ وہ کبھی بھی گھر آسکتا ہے، آپ کو تو پتا ہے، اسے سرپرائز دینے کا کتنا شوق ہے، جانے کب میرا بیٹا گھر آجائے، اسے کریلے بہت پسند ہے نا جی، اسی لئے روز پکا لیتی ہوں، سوچیں بھلا کیا سوچے گا میرا بیٹا کہ ماں نے اس کی پسند کے کریلے تک بنا کر نہیں رکھے۔ یہ لڑکیاں تو سمجھتی نہیں، آپ تو سمجھتے ہیں نا میری بات۔‘‘ اب امی جی یقیناً اپنی غلافی آنکھوں میں سرخ ڈوروں کے ساتھ ابا جی کو تائید میں دیکھ رہی ہوں گی اور ساتھ ساتھ اپنے نیلے سوتی دوپٹے سے اپنی آنکھیں بھی بے دردی سے صاف کرتی جارہی ہوں گی۔ مجھے یوں لگا جیسے میری ماں کے آنسو میری آنکھوں میں رہنے آگئے تھے۔

(ڈٓکٹر نگہت نسیم کے مضمون ’’کریلے‘‘ سے اقتباس)

تازہ ترین