• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیچر: اور جوتا چل گیا......

صاحبو،ان دنوں ملک میں ہر طرف جوتوں میں دال بٹتی نظر آرہی ہے۔ ایک جانب ملک میں پی ایس ایل کے میچز جاری ہیں۔ اور دوسری جانب سیاسی جلسوں میں جوتے پھینکنے کا مقابلہ ہورہا ہے۔ایسے میں ہم نے سوچا کہ ایک آدھ جوتا ہم بھی کیچ کرلیں،یعنی جوتوں کے بارے میں کچھ لکھ دیا جائے۔

اگر چہ ہمارے ہاں اور عرب ثقافت میں کسی کو جوتا دکھانا اور اس پر جوتا پھینکنا بہت بُرا سمجھا جاتا ہے اور اسے اس شخص کی تذلیل سمجھا جاتا ہے ،لیکن بعض ثقافتوں میں خود اپنے اوپر جوتا پھینکنا بھی بُرا نہیں سمجھا جاتا۔مثلا چیک معاشرے میں کرسمس کے موقعے پر لڑکیاں ایسا ایک روایت کے طور پر کرتی ہیں۔

یہ جاننے کے لیے کہ ان کی شادی کب ہوگی وہ گھر کے دروازے کی طرف پشت کرکے اپنے کندھوں پر سے جوتے دروازے کی طرف اچھالتی ہیں۔اگر جوتا گرنے کے بعد اس کی نوک در و ا ز ے کی طرف ہو تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ شادی جلد ہوجائے گی۔

اور اگر جوتے کی ایڑی دروازے کی سمت ہو تو یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اس لڑکی کی شادی اس برس ہونے کا امکان نہیں ہے۔ہسپانیہ اور امریکا وغیرہ میں اگر جوتوں کے فیتے آپس میں الجھ جائیں تو انہیں بجلی کے تاروں پر پھنیک دیا جاتا ہے۔بعض اوقات یہ حرکت کوئی اشارہ دینے کے بھی کی جاتی ہے۔

مثلا یہ بتانے کے لیے کہ جہاں تاروں پر جوتے لٹکے نظر آئیں یہ سمجھ لیا جائے کہ وہاں منشیات فروخت کی جاتی ہے۔کہیں یہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ وہاں کسی کی موت ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ کہیں اسکول کی تعلیم مکمل ہونے والے اور کہیں عسکری تربیت مکمل ہونےوالے روز خوشی کا اظہار کرنے کے لیے جوتے ا چھا لے جاتے ہیں۔

جوتے کھائیں،مزہ اٹھائیں

ہمارے ہاں لوگ جوتے کھاکر بد مزہ اور چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔لیکن جاپان کےشہر اوساکا کے ریہگا رائل ہوٹل کے ذہین شیف موتوہیرواوکائی نے 2016میںاپنے فن سے ایسے جوتے تیار کیے تھے جنہیں کھانے کے لیے عوام خود چل کر ان کے پاس جاتے اور انہیں خریدنے کی خو ا ہش کا اظہار بھی کرتے تھے۔

یہاں اگرکوئی شخص آپ کو جوتے کھانے کا مشورہ دے تو جواباآپ اُس کا مذاق اڑائیں گے یا پھر اُس پر غصہ کریں گے، مگر اوساکا کے لی ایکلات بوتیک میں رکھےگئےیہ جوتےہر شخص مزے لے کر کھانا چاہتاتھا کیوں کہ انہیں اس انداز سے تیارکیا گیا تھاکہ ان کے تلو و ں سے لے کر فیتے تک سب چاکلیٹ سے بنائے گئے تھے۔

یہ جوتے اتنی خوب صورتی سے تیار کیے گئے تھے کہ دیکھنے میں یہ چمڑے سے بنے ہوئے اصلی جوتے لگتے تھے۔ ان کی لمبائی عام جوتوں کے برابر یعنی 10.2 انچ رکھی گئی اور انہیں مکمل طور پر خالص چاکلیٹ سے تیار کیا گیا تھا۔یہ جوتے تین رنگوں،یعنی گہرے کتھئی،ہلکے کتھئی اورسرخی مائل کتھئی رنگوں میں دست یاب تھے۔مذکورہ جاپانی شیف کے مطابق یہ جوتے بہت محنت سے تیار کیے گئے تھے۔

حتمی مرحلے میں انہیں چمڑے سے بنے اصلی جوتوں کی شکل دینے کے لیے بہت زیادہ مہا ر ت کی ضرورت تھی۔یہ بہت صبر آزما مرحلہ تھا،لیکن اس سے گز ر نا ضروری ہوتاہے۔ آخری مرحلے میں میں غلطی کا امکان بھی زیادہ ہوتاہے۔

مذکورہ شیف کی مہارت اور مشقت کے باعث ان چاکلیٹی جوتوں کی قیمت 2016میں 29160 ین مقرر کی گئی تھی جو پاکستانی روپے کے حساب سے 26 ہزار روپے بنتی تھی۔ ہر ڈبے کے ساتھ جوتے پہننے میں مدد د ینے والا شو ہارن اور شو کریم کا ایک جار بھی دیا جاتاتھا۔یہ اشیا بھی مکمل طورپر اصلی چاکلیٹ سے تیار کی گئی تھیں۔اس وقت ان جوتوں کے صرف 9 جوڑے تیار کیے گئے تھے ’’پہلے آئیے، پہلے پائیے‘‘ کی بنیاد پر 20 جنوری سے 7 فروری تک فروخت کیے گئےتھےاور خر یداروں کو 7 سے 14 فروری کے دوران، یعنی و یلنٹائن ڈے تک سپلائی کردیے گئےتھے۔

ٹرمپ کے بالوں کے جوتے

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے انداز، گفتگو، بیا نا ت اور تنازعات کے باعث اکثر ذرایع ابلاغ کی سرخیوں میں رہتے ہیں۔لیکن اب وہ ایک اور وجہ سے ٹوئٹر پر مذاق کا موضوع بن چکے ہیں۔گزشتہ برس جنوری کے مہینے میںجوتے بنانے والے ایک عالمی شہرت یافتہ ادارےنےمنفرد انداز کے خواتین کے جوتے ڈیزائن کیے جنہیں چین سے حاصل کی گئی بکریوں کے بالوں سے تیار کیا گیا۔اس کے ایک جوڑے کی قیمت 1800 ڈالرز ہے۔لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ اتنے منہگے ہونے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز نہیں بنےبلکہ انہیں ڈونلڈ ٹرمپ سے جوڑ دیا گیا ہے۔

ٹوئٹر کےصارفین کو یہ جوتے ڈونلڈ ٹرمپ کے بالوں سے مشابہہ نظر آئے۔ایک صارف نے مزاحیہ تصویر شیئر کرکے لکھا ادارے نے1800 ڈالرزکے جوتے متعا ر ف کرادیے، جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے بالوں سے بنایا گیا ہے۔بعض صارفین نے کہا ادارہ ٹرمپ کے بالوں کے جوتے بنا کر بیچ رہا ہے۔

کسی نے کہا کہ 'ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے ٹرمپ کے بالوں نے بھی اپنا نیا کیریئر شروع کرنے کے لیے انہیں چھوڑ دیا، اچھا اقدام ہے۔کسی کا کہنا تھا کہ 'صرف 1800 ڈالرزمیں آپ ٹرمپ کے با لو ں سے بنائے گئےیہ جوتے لے سکتے ہیں، جو آپ کے گھر کا فرش صاف کرنے کے لیے بہترین ہیں۔

ایک صارف نے ان جوتوں کو بدصورت کہتے ہوئے کہا کہ 'قسم سے مجھے ایسا لگا جیسے ٹرمپ کے بالوں کو بیچ کر ہمیں بیوقوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ بدصورت ہیں۔کسی نے کہا کہ 'ان جوتوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے ٹرمپ کے بالوں پر چل رہے ہوں۔تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ جوتے اب تک پاکستان میں دست یاب نہیں ہیں۔

کسٹمائزڈ جوتے،پیسے کمانے ا و ر ڈپریشن سے نجات کا ذریعہ بن گئے

موجودہ دور میںجدید فیشن اور برانڈیڈ کپڑے ایسے پیمانے ہیں جو ہمارے طرز زندگی،اسٹیٹس اورسماجی حلقو ں کی شنا خت بنتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پرمتوسط طبقے کے لیے تو جیسے نامی گرامی برانڈز کی اشیا استعمال کرنا اس کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہے۔ منفرد نظر آنے کی خواہش کی وجہ سے آج کی نوجوان نسل، کمائی کا بڑا حصہ ، منہگےبرانڈزپر خرچ کرنے میں ذرا بھی نہیں هچكچا تی۔ لیکن لباس پر موٹی رقم خرچ کرنے کے بعد برانڈیڈ جوتے کی خریداری میں کچھ کنجوسی کرنی ہی پڑتی ہے۔

اور جو اس کے دل دادہ ہوتے ہیں وہ اس میں بھی نہیں ہچکچاتے۔ لیکن زیادہ تر افراداس معاملے میں کنجوسی کر ہی جاتے ہیں۔ آرام دہ اور پائے دار جوتےعموما سستے نہیں ہوتے اور جب آپ سستا ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو پھر اسٹائل اور آرام کے معاملے میں سمجھوتاکرنا ہی پڑتا ہے۔بھارت سے تعلق رکھنے والے نوجوان سجيت کے ارد گرد بھی ایسے ہی دوست تھے جو کچھ مختلف پہننے اور مختلف نظر آنے کی کو شش کرتے رہتے تھے۔ امیٹی یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد سجيت نے ایک ادارے میں بہ حیثیت بزنس ا ینا لسٹ کام کرنا شروع کیا۔ 

ایک دن يوں ہی دفتر میں کسی کے جوتے بحث کا موضوع بن گئے۔ کوئی چلايا،واه كيا شان دار جوتے ہیں۔انہوں نے بھی جا کروہ جوتے د یکھے اور ان سے کافی متاثر ہوئے۔پتا کیا تو معلوم ہواکہ ان کے دوست نے اپنے جوتوں پر کارٹون كےکیریکٹرز بنوانے کے لیے پورے 4000 روپے خرچ کیےتھے۔

وہ پوری رات سو نہیں پائے اور اس دوست کے بارے میں سوچتے رہے جسے روپے خرچ کرنے کا کوئی ملال نہیں تھا اور اس کے چہرے کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔وہ پوری رات اس خیال کے بارے سوچتے رہے اور ان کی بے چینی بڑھتی گئی۔

اگلے روز سے انہوں نے اس خیال پر کام کرنا شر و ع کیا اور انہوں نے ایسے جوتےمتوسط طبقے کی قوت خرید کے مطابق بنانے کے ارادے سے تقریباً 500 لوگوں سے بات کی اور سروے کیا جس میں ان کے خاندان کے لوگ ،دوست اور دیگر افراد بھی شامل تھے۔

سروے سے یہ نتیجہ نکل کر ان کے سامنے آیا کہ تقریبا 95 فی صد لو گوں نے پلک جھپکتے ہی یہ بتا دیا کہ انہوں نے کون سے برانڈ کے کپڑے پہنے ہیں، لیکن جب جوتوں کی باری آئی تو زیادہ ترکے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور وہ اس کی مختلف وجوہات بتانے لگے۔

سجيت نے مڈل کلاس صارفین پر تو جہ مرکوز کی جن کی دل چسپی انٹرنیشنل برانڈز کے جوتوں میں تو رہتی ہے، لیکن زیادہ قیمت ہونے کی وجہ سے وہ انہیں خرید نہیں پاتے۔ دوسری طرف دیسی برانڈز میں صا رفین کے پاس وہی پرانے ڈيزائن والے جوتے خرید نےکے علاوہ راستے نہیں ہیں۔

ایسے صارفین بس ضر و ر ت کے لیے جوتے خریدتے ہیں اور کوئی خاص برانڈلینا ان کی منشا ہوتی ہے اور نہ شوق۔ سجيت نے اسے ہی بنیاد بنا کر کام شروع کیا۔

ایک طرف جہاں سجيت کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات سےجوتوں کا ایک برانڈ شروع ہونے کو تھاتو د و سری طرف کوئی اور بھی تھا جس کا دماغ سجيت ہی کی طر ح ٹھیک ان ہی سوالوں کے جواب ڈھونڈرہاتھا۔ آ پ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ دو الگ الگ مقامات پر رہنے والے دو مختلف لوگ ایک ہی بات سوچ رہےتھے۔ لیکن دونوں کی ایسا سوچنے کی وجوہات مختلف تھیں۔

کالج کے زمانے سے شفیق نامی نوجوان کو بھی اچھا پہننے اورلوگوں سے مختلف نظر آنے کا شوق تھا۔وہ تعلیم مکمل کرکے ا ینڈ ر ا ئیڈ ڈیولپر بن گیا اور اکثر کام سے بور ہونے پر وہ بیچ بیچ میں فیس بک چیک کر لیا کرتا تھا۔ 'ایک روز یوں ہی فیس بک پراس نے جوتوں پر کی گئی کاری گری دیکھی اور اس آرٹسٹ کی تخلیق سے حیران رہ گیا۔ 

جب اس نے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کیں توپتاچلا کہ وہ ایسے جوتے خریدنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ لیکن ایسے بہت سے افرادتھے جنہیں ان جوتوں کے لیے ڈھائی ہزارروپے خرچ کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا اورقیمت دینے کے بعد بھی وہ انہیں حاصل کرنے کے لیے 15 دن انتظار کر سکتے تھے۔

انہوں نے آن لائن بھی آرٹسٹ ڈيزائنڈ جو تے ڈھونڈے، لیکن زیادہ متبادل نہیں ملے۔اسی دوران انہیں یہ احساس ہواکہ ان کے جیسے اور بھی ہوں گے جو ایسے جوتوں کے شوقین تو ہوںگے،لیکن انہیں ان کی قوت خرید کے مطابق ایسے جوتے آن لائن نہیں ملتےہوں گے۔طلب اور رسد کے اس فرق کے بارے میں سوچتے سوچتے ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگر مصنوعات اور صارفین کے درمیان یہ خلا پُر کردیا جائے تو اس میں کا ر و با ر کے اچھے مواقعے ملیں گے ۔یوں انہوں نے شروعات کی۔ 

دو سال تک الگ الگ کام کرنے کے بعد شفیق اور سجيت نے فیصلہ کیا کہ ایک جیسی سوچ والے افراد کو ایک جیسا کام مل کر کرنا چاہیے۔ 2014 میں دونوں نے اپنے اداروں کو ضم کر دیا اورایک نام کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔

ابتدا میں ان کی کوشش تھی کی وہ ممبئی ہی کے ہنر مند وںکے ڈيزان کیے ہوئے جوتوں کے لیے خریدارمہیا کریں اوران کی ترسیل کے لیے سازگار ماحول بنائیں۔ لیکن اب وہ خودجوتے تیار کرواتے ہیں۔وہ کسی خاص جو تے کی طلب یا کسی خاص ڈیزائن کی بنیاد پر ملک بھر کے ہنرمندوںسےڈيزائن منگواتےہیں۔

وہ گاہکو ں کی طلب کو ذہن میں رکھ کر سب سے اچھے ڈيزائن کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس ہنرمند کو ادائیگی کرنے کے بعد وہ اس سے خاص جوتے بنواتے ہیں۔آج ان کے ادارے کے تیارکردہ جوتے کئی اسٹورز کے علاوہ آن لائن بھی خر یدے جاسکتے ہیں۔

ان کے ادارے کے تیار کردہ جوتے کے ہر ڈبّے میں آپ کو اسے ڈيزائن کرنے والے آرٹسٹ کی پوری کہا نی ملے گی۔ سجيت کے مطابق ان کے برانڈکے ذریعے بہت سے فن کاروں کو اپنے فن کے اظہار کا موقع مل رہا ہے۔ایک ایسی ہی آرٹسٹ تھی جو زندگی میں ناکامی کی وجہ سے بُری طرح ڈپریشن کا شکار ہوگئی تھی۔ لیکن آج وہ ان کے اہم ڈیزائنرز میں سے ایک ہے اور آرٹ نے ڈپریشن سے نکلنے میں اس کی مدد کی ہے۔

بد قسمت دارا شکوہ کی آخری جنگ اور ایک جوتا

مغل شہزادہ ،دارا شکوہ بادشاہ یعنی شاہ جہاں کے بہت قریب تھا اور اس کے اگلا بادشاہ بننے کا پورا امکان تھا ، مگر ایسا ہو نہ سکا۔ اس کی وجہ اس کی بدمزاجی، غرور اور عسکری امور میں کم زوری بتائی جاتی ہے۔

لیکن تاریخ کے مطابق دارا کی آخری جنگ میں شکست کی وجہ اورنگ زیب سے زیادہ وہ شخص تھا ، جس نے جنگ کے دوران عین وقت پر دارا شکوہ کو دھوکادے کرجوتوں سے ہونے و ا لی اپنی پٹائی کا بدلہ لے لیاتھا۔یوں دارا کی ایک غلطی نے اسے ہندوستان کی سلطنت سے دور کر دیاتھا۔

یہ 1657 کی بات ہے۔شاہ جہاں کے مرنے کی افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگی تھی اور چاروں شہزادوںنے بادشاہ بننے کی تیاری کر لی تھی۔

شاہ جہاں کو معلوم تھا کہ اس کی سلطنت میں اقتدار کےلیے 4 بیٹوں کے درمیان جنگ روکنی تقریبا ناممکن سی بات ہے۔ تاہم وہ کسی بھی قیمت پر جنگ روکنا چاہتاتھا، جس کی وجہ سے اس نے اپنی سلطنت کو 4 حصوں میں تقسیم کر دیاتھا۔ شاہ شجاع کو بنگال دیا گیا، اورنگ زیب کو دکن یعنی جنوب کا علاقہ ملا، مرادبخش کو گجرات دیا گیا اور دارا کے حصے میں کابل اور ملتان آیا۔دارا شکوہ کو چھوڑ کر سب نے اپنی اپنی ذمے داریاں سنبھال لیں ، لیکن دارا بادشاہ کے پاس ہی رہا۔

چاروں نے خود کو مضبوط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شجاع،مرادبخش اوراورنگ زیب جہاں فوجی طاقت حاصل کر رہے تھے وہیں دارا کی کوشش تھی کہ کسی طرح شاہ جہاں کو اعتماد میں لے کر تخت پر قبضہ کرلیا جائے۔ طویل وقت تک دارا اور باقی تین بھا ئیوں کے درمیان شہ اور مات کا کھیل چلتا رہا۔ دارا نے شاہ جہاں کو اعتماد میں لے کر کئی ایسے فرمان جاری کر و ا ئے، جس سے تینوں بھائی دارا سے بدظن ہوگئے۔

دارا وقت کے ساتھ اتنا مضبوط ہو چکا تھا کہ اس نے شاہی دربار میں شاہ جہاں کے قریب ہی اپنا تخت بنوا لیا تھا۔ وہ بادشاہ کی جانب سے احکامات جاری کرنے لگا تھا ۔اسے سب سے زیادہ خوف اورنگ زیب سے تھا۔لہذا اس نے ایک نہیں بلکہ کئی مرتبہ اورنگ زیب کے خلاف فر مان صادر کیا ، جس کی وجہ سے اورنگ زیب اور دارا کے درمیان دشمنی مزید گہری ہو گئی۔

دارا نے والد اور باقی بھا ئیوں کے درمیان نفرت بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھو ڑ ی۔ وہ خفیہ طور پر بھائیوں کو بھیجے گئے یا پھر ان کی طرف سے آئے ہوئے پیغامات شاہ جہاں کو دکھاکریہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ تینوں سازش کر رہے ہیں۔ لیکن خود شاہ جہاں کو دارا شکوہ پر اعتماد نہیں تھا۔ اسے لگتا تھا کہ دارا اسے زہر دینے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

اسی درمیان ستمبر 1657 میں شاہ جہاں کی طبیعت بگڑی اور یہ بتایا گیا کہ ان کی موت ہو چکی ہے۔ پورا دربارغافل ہو گیا، آگرہ کے عوام الجھن میں پھنس گئے اور کئی دنوں تک دکانیں بند رہیں۔چاروں شہزادوں کے درمیان بادشاہ بننے کے لیے کھلی جنگ شروع ہو گئی۔

شاہ جہاں کو پتا تھا کہ اب خون بہنے کا وقت آ چکا ہے۔ اس نے اپنے سب سے قریبی دو سرداروں کو بلایاجن میں سے ایک کا نام قاسم خان تھا۔قاسم شاہ جہاں کا باوثوق تھا، لیکن دارا سے بہت نفرت کرتا تھا ، اس نے کافی ہچکچاتے ہوئے ایک ذمے داری قبول کی۔ دوسرے سردار کا نام تھاراجا جے سنگھ۔

دارا نے دونوں جرنیلوں کو اعتماد میں لیا اور فوج کی روانگی کے وقت انہیں انمول تحفے دیے۔ شاہ جہاں نے دارا کو مشورہ دیا کہ اورنگ زیب سے نمٹنے میں تحمل کا ثبوت دے۔ اورنگ زیب کو ایک کے بعد ایک، کئی پیغام بر بھیجے گئے ، لیکن کوئی لوٹ کر نہیں آیا۔وقت جیسے جیسے آگے بڑھ رہا تھا دارا اور اورنگ زیب کے درمیان تصادم یقینی ہوتاجا رہا تھا۔

دارا کو اس کے ساتھیوں نے کافی روکا کہ وہ جلدبازی نہ کرے، لیکن اسے لگتا تھا کہ شاہی خزانہ، بھا ری فوج اور باپ کا ساتھ ، جب تک اس کے ساتھ ہے ، اسے کوئی نہیں ہرا سکتا، اس نے کوچ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جمنا کے کنارے دونوں فوجیں ساموگڑھ(موجودہ فتح آباد) میں آمنے سامنے ہوگئیںاور تقریبا تین روزتک ایک دوسرے کے سامنے ڈٹي رہیں۔اس دوران شاہ جہاں نے ایک کے بعد ایک، کئی فرمان دارا کو بھیجے۔

ان سب میں ایک ہی پیغام تھا کہ وہ جلدبازی نہ کرے اور سلیمان شکوہ کا انتظار کرے۔ دارا نے ایک ہی جواب لکھا کہ 'میں اورنگ زیب اور مراد بخش کو هاتھ پاؤں باندھ کر آپ کے سامنے جلد پیش کروں گا۔

دارا نے اورنگ زیب کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی مستحکم منصوبہ بندی کی تھی۔جنگ کے دوران دارا نے اورنگ زیب کو پکڑنے کی کافی کوششیں کیں ، لیکن وہ کام یاب نہیں ہو سکا اور اس کی فوج مشکل میں پھنستی چلی گئی ۔

اب صرف ایک ہی امید تھی کہ کسی طرح اورنگ زیب کو بھاگنے پر مجبور کر دیا جائے۔ لیکن ایک دھوکےنےاسے ایسا نہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ دائیں جانب کی کمان سنبھالے ہوئے سردار خلیل اللہ خان کی 30 ہزار کی فوج جو اکیلے اورنگ زیب کا سامنا کر سکتی تھی، خاموشی کھڑی تھی۔ خلیل اللہ دارا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ وقت آنے پر حملہ کرے گا، مگر ایسا نہیںہوا ۔دراصل دارا اس کے بغیر ہی جنگ جیتنے کے قابل تھا اورخلیل اللہ خان کو بھی اس بات کا اندازہ تھا۔

چناں چہ دارا کی شکست یقینی بنانے کے لیے وہ ارا کے قریب جا پہنچاجو اس وقت بری طرح گھرے ہوئے شہزادے مراد بخش کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھ رہا تھا۔

دارا کے قریب جا کر خلیل اللہ نے کہا 'کہ جیت آپ ہی کی ہوگی۔ لیکن میرے سرکار آپ اب بھی اس بڑے ہاتھی پر کیوں سوار ہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟ خدا نہ کرے اتنے سارے تیروں میں سے کوئی تیر یا بارود کا گولہ آپ پر گرگیاتو کیا ہوگا؟اس نے دارا سے کہا کہ سرکار جلدی سے گھوڑے پر سوار ہوں اور محصور مراد بخش کو فرار ہونے سے قبل گرفتار کرلیں ۔

دارا خلیل اللہ کی باتوں میں آ گیا اور فوری طور پر اپنی جوتیاں پہنے بغیر ہی ننگے پاؤں گھوڑے پر سوار ہو گیا۔تقریبا 15 منٹ بعد ہی اس نے خلیل اللہ خان کے بارے میں معلوم کیا۔ لیکن وہ موقعے سے جا چکا تھا۔ دارا نے اسے مارنے کی ہدایت کی ، لیکن وہ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ 

ادہرہاتھی پر دارا کو نہ دیکھ کر شاہی فوج میں یہ افواہ پھیل گئی کہ دارا مارا گیا۔پھر چند ہی منٹوں میںدارا کی فوج کا ہرسپاہی اورنگ زیب کے ڈر سے بھاگنے لگا۔

اورنگ زیب اب بھی اپنے ہاتھی پر سوار تھا۔ اگلے چند لمحوں میں پورا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ اورنگ زیب ہندوستان کا بادشاہ بن چکا تھا۔ دارا کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ بعد میں اسے پکڑکر قتل کردیا گیا ۔

خلیل اللہ نے ایسا بدلہ لینے کے لیے کیا تھا۔دراصل اس جنگ سے چند سال قبل دارا نے خلیل اللہ خان کی جو تو ں سے پٹائی کر کے بے عزتی کی تھی۔ اس نازک گھڑی میں خلیل اللہ نے اپنی بے عزتی کا بدلہ دھوکہ دے کر لے لیا۔

سنجیدہ نکتہ

حالات و واقعات کے باعث آج بہت سی باتیں ہما ری قوم کی مجموعی سائیکی کا حصہ بن چکی ہیں۔ہر معاشرے میں طرح طرح کے خوف اور اندیشے ہوتے ہیں ۔ مگر ہماری عادت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص دوسرے پر الزام دھر دیتا ہے، خصوصاً حکومت پر۔ پورا معاشرہ جذ با تی فکر کا حامل اور دانش ورانہ فکر کا مخالف ہے۔ ہم میں کسی مسئلے پر سکون اور اطمینان سے سوچ بچار کرنے کی عادت نہیں ہے۔

لوگوں کو کسی بھی نام پر جذباتی بنادیا جاتا ہے اور وہ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔پھر مناسب تعلیم کا فقدان ہے۔ معاشرے میں حکم ماننے اور بجالانے کی روایت ہے لہٰذا حکم کی تعمیل کے بعد کوئی غلط نتیجہ سامنے آجاتا ہے تو استاد یا حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ہماری سوچ منطقی نہیں ہے اور خرابی کا علاج نہیں کیا جاتا۔ ہم نظام اور ادارے نہیں بناتے۔ یہ ہمارے نظام کی ناکامی ہے کہ وہ لوگوں کو کچھ دے نہیں پاتا۔ 

ہم جس ماحول میں اب تک جیتے آئے ہیں اور جی رہے ہیں، موجودہ حالات اس کا نتیجہ ہیں۔ معاشرے میں گھٹن بڑھ جائے،لوگ خود کو بے بس پاتے ہوںاورعوام و خواص میں فاصلےبڑھتے ہی جاتے ہوں تو اسی طرح کے مظاہر سامنے آتے ہیں ۔

تازہ ترین