وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بےنظیروں کے
(حبیب جالب)
5 فروری بروز جمعہ ملک بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ اسکولوں میں بچوں نے رنگا رنگ پروگرام پیش کئے۔ خود وزیر اعظم میاں نواز شریف مظفر آباد پہنچ گئے جہاں پولیس کے چاک و چو بند دستے نے انہیں سلامی پیش کی۔ ٹی وی چینلز پر خصوصی پروگرام کئے گئے اور ہماری نئی نسل کی آگہی کیلئے بتایا گیا کہ کس طرح انگریزوں نے مہاراجہ گلاب سنگھ کو 75 لاکھ روپے کی حقیر رقم کے عوض کشمیر کو کشمیریوں کی مرضی کے خلاف بیچ دیا۔ کشمیری آج 65 برس سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہےہیں اور اس جنگ میں لاکھوں کی تعداد میں کشمیریوں نے جام شہادت نوش کیا۔ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے مگر کشمیریوں نے ہتھیار نہیں ڈالے اور آج بھی سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی قوم نے ہمیشہ کشمیریوں کی آزادی کی جدو جہد میں ان کا ساتھ دیا ہے یہاں تک کہ ہم پر 65 کی جنگ تھوپ دی گئی۔ کارگل کی جنگ بھی کشمیر کو آزاد کروانے کی ایک کڑی تھی۔ غرض ہماری قوم کشمیریوں کی جدو جہد آزادی سے کسی لمحہ بھی غافل نہیں ہے۔ ہم کشمیریوں کے ساتھ تھے، ساتھ ہیں اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ ہماری دعا ہے کہ خدا کشمیریوں کو ان کی جدو جہد آزادی میں کامیابی عطا فرمائے۔ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور اس کا ان کو صلہ دے۔
5فروری کو پی آئی اے کے ملازمین کی ہڑتال، تالہ بندی چوتھے روز میں داخل ہوگئی اور اس طرح پی آئی اے کو روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے جو کہ معاشی طور پر ہماری پی آئی اے کے لئے ایک کینسر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہڑتال کو کامیاب کرنے کے لئے دو بے گناہ ملازمین کا خون اس میں شامل کیا گیا۔ اب پی آئی اے ملازمین کے لیڈر صاحبان ایسی صورت حال سے دو چار ہیں کہ أگے بڑھتے ہیں تو حکومت مارتی ہے، پیچھے ہٹتے ہیں تو ملازمین مارتے ہیں۔ میاں صاحب سخت غصے میں ہیں مگر ایسی صورت حال میں غصہ نہیں چلتا۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں اردو کا جنازہ نکالنے پر کامیاب پہیہ جام ہڑتال عوام نے خود ہی کرڈالی تھی۔ اس وقت کسی سیاسی پارٹی یا تنظیم نے ہڑتال کی قیادت نہیں سنبھالی تھی۔ کراچی کئی روز تک بند ہوگیا تھا۔ بھٹو صاحب بہت غصے میں تھے۔ بالاخر وہ ٹی وی پر نمودار ہوئے۔ عوام کو اعتماد میں لیا، اردو بولنے والوں کے نمائندوں کو طلب کیا۔ ان سے معاہدے کئے اور اس طرح کراچی کی خوشیاں بحال ہوگئیں۔ سیاسی مسائل کو سیاسی انداز میں حل کرنا چاہئے۔ بہرحال لیبر یونین کا سیاسی پارٹیوں سے اشتراک بھی قابل اعتراض چیز ہے۔ پی آئی اے کے ملازمین کو چاہئے کہ وہ خود اپنی یونین کو سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں سے بچائیں، کیونکہ اس طرح ان کے جائز مطالبات بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ جائیں گے اور پی آئی اے کے وہ ملازمین جن کا دور سے بھی سیاست سے کوئی واسطہ نہیں اور صرف اپنے بچوں کے لئے نوکری کرتے ہیں وہ بھی روزی سے محروم ہوجائیں گے۔ سیاست بڑی خطرناک شے ہے۔ پورے پورے ملک کھا جاتی ہے۔ عراق، شام، روس کے واقعات آپ کے سامنے ہیں ۔ ہم اسی ڈگر پر چل نکلے ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ تمام حرکتیں ،خفیہ ہاتھ ایک خاص وقت پر اکنامک کاریڈور کو روکنے کے لئے ہمارے ہی لوگوں کو بھاری معاوضے پر استعمال کرکے کروا رہا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو میں نے این جی اوز کے بارے میں ایک مکمل کالم لکھا تھا اور یہ بھی لکھا تھا کہ این جی او چلانےوالے حضرات معاشی طور پر ہم سے بہتر انداز میں رہتے ہیں اور اپنے روزگار کے لئے کچھ بھی نہیں کرتے۔ جب پوچھو کہ آپ کیا کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ میں این جی او چلاتا ہوں، کوئی ان سے پوچھے کہ کھاتے کہاں سے ہو؟ یہ بہت اچھا ہوا ہے کہ جنرل راحیل شریف نے میاں نواز شریف کو این جی اوز کے کردار اور آمدنی کے بارے میں بریف کیا ہے۔ این جی اوز کے پاس بیرون ملک سے دیئے گئے بے پناہ فنڈز ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے آقائوں کے مذموم ارادوں کو پروان چڑھانے کے لئے ہمارے پاکستانیوں پر بے دریغ خرچتے ہیں اور ہمارے بے وقوف لوگ چند سکوں کے عوض اپنے ہی ملک کےخلاف کام کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ملک نہ رہا تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔ این جی اوز کی چھان بین اور ان کے فنڈز کے حصول اور استعمال پر گہری نظر ہونی چاہئے کیونکہ یہی فنڈ ملک میں مخبریاں کرنے اور ہڑتالیں کرنے میں استعمال ہوتے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل کے اینکر نے لائن دی ہے کہ پی آئی اے کے احتجاج کے دوران فائرنگ کا واقعہ عزیر بلوچ کی گرفتاری کے بعد ہونے والے انکشافات سے عوام اور میڈیا کی توجہ ہٹانے کیلئے کسی مخصوص گروپ کی سازش ہوسکتی ہے۔ اگرچہ اینکر کی اس بات میں کوئی وزن نہیں مگر اس اینگل پر تفتیش کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں کیونکہ یہ بات تو درست ہے کہ عزیر بلوچ کے سیاسی شخصیتوں کے بارے میں انکشافات پی آئی اے کی ہڑتال میں ہونے والی اموات کی خبروں کے بعد الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں دب گئے اور سارا زور احتجاج کے اندر ہونے والی نامعلوم شخص کی فائرنگ اور اس نامعلوم شخص یا اشخاص کی تلاش پر لگ گیا۔ اس طرح کے کاموں میں اس طرح کی باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا بقول شاعر اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں۔ کافی حد تک درست ہے۔ ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ پرائیویٹائزیشن کمیشن کے چیئرمین سہیل بلوچ کے ساتھ آج شام کو مذاکرات کرنے کے بارے میں کوئی بات ہوئی ہے۔ اگر بات ہوئی ہے تو اچھی بات ہے، مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہوجائے ورنہ میاں صاحب نے تو دو ٹوک الفاظ میں نوکری سے برخاستگی اور ایک سال جیل جانے کی نوید سنادی ہے۔
جناب پرویز رشید صاحب کے بقول ہڑتال ناکام ہوگئی تھی اور پروازیں بھی معمول کے مطابق چل رہی تھیں۔ اس ناکام ہڑتال کو کامیابی میں بدلنے کے لئے دو انسانوں کا خون اس میں شامل کیا گیا ہے۔ اب تو طے ہے کہ گولی سازش کے تحت چلی ہے۔ اب عزیر بلوچ کی خبریں رکوانے والوں نے چلائی یا ہڑتال کامیاب کروانے والوں نے اس سوال کا جواب تفتیشی ادارے ہی دے سکتے ہیں۔ رینجرز والےخود بھی تفتیش کررہے ہیں۔ مجھے قوی امید ہے اس معاملے میں تفتیشی ادارے معاملے کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔ مگر فی الحال تو مسئلہ جہاز اڑانے کا ہے اور میرے خیال میں یہ مسئلہ نئی ایئر لائن بنانے یا گرفتاریوں سے حل نہیں ہوگا۔ یہ صرف افہام و تفہیم سے حل ہوگا، جسے حل کرلینا چاہئے۔ ہمارا ملک غریب ہے اور اس طرح کی عیاشیاں برداشت نہیں کرسکتا۔ ہمیں فوراً میز پر بیٹھ کر آپس میں فیصلہ کرنا چاہئے۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے، آخر میں فیض صاحب کے حسب حال اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
مشکل ہیں اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچہ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
گربازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں