مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئندہ ماہ یقینی طور پر اپنی 5 سالہ آئینی مدت مکمل کر لے گی لیکن آئندہ عام انتخابات میں وہ اپنے کلیدی رہنما نواز شریف سے محروم ہو گی جنہیں وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت دونوں سے نااہل قرار دیدیا گیا ہے۔ 1985 میں بعد از ضیا ء الحق دور وجود میں آنے والی مسلم لیگ (ن) اس وقت کمزور ترین شکل میں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکمران جماعت اپنی 2013 والی پوزیشن 2018 میں بھی برقرار رکھ پاتی ہے۔ آیا نواز شریف اپنی پارٹی کو یکجا رکھ سکیں گے؟ 1993 اور 1999 کے برخلاف مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور پارلیمینٹ برقرار ہیں لیکن 28 جولائی 2017 کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد بظاہر وہ اپنے رہنما سے محروم ہو گئی اور پارلیمینٹ پر اس کی گرفت بھی نہیں رہی۔آج وزیر اعظم سے وزیراعلیٰ پنجاب کچھ وزرا اور ارکان قومی وصوبائی اسمبلی نہ صرف دبائو میں بلکہ تحقیقات اور تفتیش کی زد میں ہیں۔ حکومت اور حکمران جماعت کے لئے سب سے بڑا چیلنج شریف خاندان کو بچاکر نکالنے کے حوالے سے ہے۔ مجرم ثابت ہونے پر نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن (ر) صفدر، اسحاق ڈار، حسین اور حسن نواز ان سب کو سزائیں ہو سکتی ہیں۔ جب نواز شریف کو عدالت عظمیٰ نے نااہل قرار دیا تھا وہ اپنی حکومتی آئینی مدت کے چار سال مکمل کر چکے تھے۔ یہ مدت ان کےگزشتہ ادوار سے سال بھر زیادہ ہی بنتی ہے ان گزشتہ ادوار میں وہ پلٹ کر اقتدار میں آنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن اب ان کے لئے قصہ تمام ہوا لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ پارٹی کے لئے بھی سب کچھ تمام ہوا؟ اس سے قبل شریف برادران کو کبھی اتنی مشکل در پیش نہیں ہوئی جس طرح انہیں آج اقتدار کی سیاست سے مکمل اخراج کا سامنا ہے۔ 2013کے عام انتخابات میں کامیابی کے سال بھر بعد ہی سے انہیں چین وسکون سے حکومت کرنا نصیب نہیں ہوا۔ سیاسی محاذ پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت مضبوط دکھائی نہیں دی،بلوچستان میں اسے ہزیمت اٹھانی پڑی۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں شکست کا سامنا کرنا پڑا گوکہ بڑی تعداد میں تو نہیں لیکن مسلم لیگ (ن) سے منحرفین سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں اس تعداد میں جولائی کے بعد اضافہ ہو سکتا ہے جب نواز شریف کے بارے میں عدالتی فیصلہ اور عبوری حکومت کا قیام عمل میں آئے گا اس وقت پارٹی کو بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 1990 کی دہائی میں ایک بار پنجاب اسمبلی میں ارکان کی اکثریت نے وفاداریاں تبدیل کیں۔ 1988 میں خود نواز شریف نے بھی پارٹی قیادت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ اب دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ن لیگ سےنکلنے والے تحریک انصاف کا رخ کر رہے ہیں ماضی میں بھی جب محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے اس وقت بھی مسلم لیگ کی حکومت اپنی آئینی میعاد مکمل نہیں کر سکی تھی یہ 1985 کی بات تھی اس کے بعد نواز شریف کو بھی مسلسل ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ تینوں مواقع پر پارلیمینٹ تحلیل ہوئی لیکن اب ایسا نہیں ہوا نواز شریف بدقسمت ترین وزیراعظم رہے جنہیں تینوں بار گھر جانا پڑا۔ا س بار پارلیمینٹ تو برخاست نہیں ہوئی لیکن نواز شریف وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت دونوں کیلئے نااہل قرار دیکر رخصت کردیئے گئے۔ نواز شریف اب بھی ایک سیاسی حقیقت کے طور پر مضبوط اور پارٹی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 2018 میں انتخابی کامیابی کے لئے اپنی آخری سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہفتے کو انہوں نے پارٹی میں اپنے اعلیٰ معاونین کے ساتھ اہم اجلاس کیا جس میں ان کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب اور پارٹی صدر شہباز شریف، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر اہم رہنمائوں نےشرکت کی جس میں مستقبل کے لئے لائحہ عمل پر غور ہوا اس وقت شاہد خاقان عباسی کے لئے حکومت چلانا بڑا مشکل ہو رہا ہے اپنی کابینہ کے ارکان کے خلاف تحقیقات کا عمل تیز تر ہونے سے وہ سخت دبائو میں ہیں۔ شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی نے اس دبائو سے نواز شریف کو آگاہ کر دیا۔ جبکہ توقع ہے آئندہ دنوں میں یہ دبائو بڑھتا چلا جائے گا مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنے اجلاس میں عبوری حکومت کے دور میں ممکنہ لائحہ عمل اور نواز شریف کو سز ا سنائے جانے کی صورت میں حکمت عملی پر غور کیا۔ پارٹی قیادت نے شہباز شریف پر مشکل وقت کی صورت چیلنجز سے بھی آگاہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت 28جولائی کے بعد کی صورتحال پر قابو کھو بیٹھی ہے بلکہ نواز شریف دور کے پہلے ہی سال سے یہ گرفت ڈھیلی پڑنی شروع ہو گئی تھی۔ تحریک انصاف کا جب دھرنا شر وع ہوا تو جنرل (ر) راحیل شریف کی مداخلت سے ہی صورتحال کو سنبھالا گیا اس کی دعوت بھی نواز شریف ہی نے دی تھی جس سے نواز شریف اور ان کی حکومت کی پوزیشن کمزور ہوئی۔ 2015 میں نواز حکومت کچھ سنبھل پائی لیکن کراچی آپریشن اور اس کے نتیجے میں رینجرز اور نیب نے سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی معاونین کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا توصورتحال ان کے قابو سے باہر ہو گئی۔ ڈاکٹر عاصم حسین اور انور مجید کے خلاف مقدمات کے بعد یہ تعلقات بالاخر ٹوٹ گئے۔ نواز شریف کے خارجہ امور میں اسٹیبلشمنٹ سے بھی تعلقا ت بگڑے جس میں بھارت سے تعلقات، سعودی،یمن تنازع اور ایران کے ساتھ معاملات شامل ہیں لہٰذا 2015 نواز شریف کے لئے کامیابی اور ناکامی کا امتزاج رہا۔ ن لیگ نے عبوری اور بلدیاتی انتخابات جیتے لیکن دھرنے کے دوران پارلیمینٹ پر گرفت مضبوط نہ رکھ سکی۔ جبکہ پیپلز پارٹی سے تعلقات کا منقطع ہونا بھی مہنگا پڑا۔ پاناما لیکس کے بعد کی صورتحال پر قابو نہ پانا بھی مسلم لیگ (ن) حکومت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے نااہل قرار دیئے جانے والے وزیر اعظم نواز شریف نیب کیس میں مجرم ثابت ہوئے طویل قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہیں اب بھی اعتماد ہے کہ وہ جیل گئے بھی تو ان کی پارٹی آئندہ عام انتخابات جیت لےگی۔ ان کے خیال میں عوام نے ان کے خلاف عدالتی فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔بڑے پیمانے پر سیاسی نقل وحرکت کے باوجود وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو اپنی رٹ قائم کرنا مشکل ہو رہا ہے نواز شریف کو خدشہ ہے کہ ان کی وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے نااہلی کے بعد نیب کو پارٹی رہنمائوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے جیسا کہ بلوچستان میں ہوا۔