یہ اس زمانے کا واقعہ ہے، جب پاکستان کو معرضِ وجودمیں آئے ابھی چند برس ہی ہوئے تھے۔ لاہور کے نواحی علاقے میں ہمارا متموّل گھرانا آباد تھا۔ ہمارے محلّے میں ہاشم نامی ایک غریب کاشت کار بھی رہتا تھا، وہ ہمارے دور پرے کا رشتے دار تھا۔ اس کی شادی ہوچکی تھی، مگر اولاد سے محروم تھا۔ جب پہلی بیوی، خدیجہ سے کوئی بچّہ پیدا نہ ہوا، تو چند سال بعد اس نے حاجرہ نامی عورت سے دوسری شادی کرلی۔ ایک سال بعد اس کے بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام اس نے عارف رکھا۔
بچّے کی پیدایش پر پہلی بیوی، خدیجہ بھی بہت خوش تھی، دونوں بیویاں بچّے سے یکساں پیار کرتی تھیں۔ ہاشم، جسے گائوں میں سب لوگ ’’ہاشو‘‘ کہہ کر بلاتے تھے، ایک روز اس کے ایک دوست نے اسے مشورہ دیا کہ ’’گائوں میں رہ کر تم اپنے بچّے کو اچھی تعلیم دلا سکو گے، نہ کبھی تمہاری مالی حالت درست ہوگی، اگر تم شہر جاکر محنت مزدوری کرو، تو شاید تمہاری حالت بہتر ہوجائے۔‘‘ دوست کے مشورے کے بعد اس کے دل میں شہر جانے کی دھن سما گئی، تو کسی نے کسی طرح جوڑ توڑ کرکے جلد ہی لاہور چلا گیا۔ وہاں چھوٹی موٹی ملازمت کے دوران آمنہ نامی ایک انتہائی شاطر عورت سے اس کی شناسائی ہوگئی، جو جلد ہی محبت میں تبدیل ہوکر شادی تک پہنچ گئی۔
وہ چال باز عورت تھی، اس نے ہاشم کو الٹے سیدھے دھندوں سے پیسا کمانے میں لگادیا، اور پھر گائوں کا سیدھا سادا ہاشو، ہاشم خان کے نام سے پہچانا جانے لگا۔ گائوں میں اس کی تیسری شادی کی خبر پھیل چکی تھی۔ ایک روز وہ آمنہ کے ساتھ گائوں آگیا۔ اس وقت آمنہ ایک بچّے کی ماں بن چکی تھی۔ وہ گائوں میں کچھ عرصے سکون سے حالات کا جائزہ لیتی رہی، پھر شاطرانہ چالوں کا رخ اپنی سوکنوں کی طرف پھیر دیا۔
اس نے ہاشم کو بھڑکا کر پہلے تو حاجرہ کو طلاق دلوائی، اسے گھر سے نکلوایا اور پھراس کے بیٹے عارف کو بھی اس سے چھین لیا۔ جب کہ خدیجہ کو گھر میں ماسی بنا ڈالا اور اس کے دل میں یہ خوف بٹھادیا کہ ’’اگر چوں چرا کروگی، تو تمہیں بھی طلاق دلوادوں گی۔‘‘ عارف معصوم بچّہ تھا، ماں سے جدا ہوکر خدیجہ سے چپک گیا، لیکن آمنہ کی نظروں میں کانٹا بن کر چبھنے لگا۔ عارف کو راستے سے ہٹانے کے لیے ہاشم سے الٹی سیدھی شکایتیں لگانے لگی کہ خدیجہ بچّے کو بگاڑ رہی ہے، عارف کو اس سے دور رکھا جائے۔ ہاشم چوں کہ بیوی کی آنکھ سے دیکھتا تھا، لہٰذا اس نے عارف کو آمنہ کی تحویل میں دے کر خدیجہ کو صرف گھر کے کاموں پر مامور کرکے سختی سے تنبیہ کردی کہ عارف کے کسی بھی معا ملے میں دخل نہ دے۔
ادھر عارف کو اس کی دوسری ماں سے بھی جدا کرنے کے بعدآمنہ اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگی، ذرا ذرا سی بات پر تھپڑوں سے اس کامنہ لال کردیتی۔ سخت سردیوں میں بھی اسے برآمدے میں سلاتی اور صبح اٹھتے ہی گھر کے کام کاج پر لگادیتی۔ اپلے تھاپنے، بچّوں کو نہلانے اور بازار سے سودا سلف لانے تک کی تمام ذمّے داری اس کے نازک کاندھوں پر ڈال دی تھی۔ذرا سی کوتاہی پر ڈنڈے سے دھنک کر رکھ دیتی۔ شام کو ہاشم آتا، تو اس سے بھی شکایت کرکے پٹواتی۔ تقریباً روزانہ اس گھر سے عارف کی چیخوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔
خدیجہ بچانے کے لیے آتی، تو اس پر بھی تشدد کیا جاتا، وہ حسّاس عورت تھی، عارف کو سگے بیٹے کی طرح چاہتی تھی، روز روز کے ان مظالم سے اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا، اور وہ گم صم رہنے لگی۔ بولنے پر آتی، تو گزشتہ زندگی کے اوراق الٹنے لگتی۔ حاجرہ بھی اپنے بیٹے عارف پر باپ اور سوتیلی ماں کے مظالم دیکھ کر ہر دَم روتی تھی، کئی بار اس نے ہاشم سے درخواست کی کہ وہ عارف کو پال نہیں سکتا، تو اس کے حوالے کردے، مگر آمنہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کر بھگادیتی۔ بالآخر حاجرہ نے اہلِ محلّہ سے بات کی، تو انہوں نے باہمی مشاورت سے ہاشم پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی۔
وہ سب اکٹھے ہوکر ہاشم کے پاس گئے اوراسے دھمکایا کہ ’’اگر تم لوگ عارف پر ظلم ڈھانے سے باز نہیں آئے، تو تمہارا حقّہ پانی بند کردیں گے، اور معاملہ پولیس میں لے جائیں گے۔‘‘ ہاشم اور اس کی بیوی اس دھمکی سے ڈرگئے۔ گائوں والوں کے کڑے تیور دیکھ کر چند روز بعد وہ خود ہی رات کی تاریکی میں چپکے سے فرار ہوگئے۔ اپنے ساتھ خدیجہ اور عارف کو بھی لے گئے۔ صبح اہلِ محلہ نے گھر پر تالا پڑا دیکھا، تو سب ہاتھ ملتے رہ گئے۔ بے چاری ہاجرہ تڑپتی رہ گئی، لیکن کافی عرصے تک ان لوگوں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
پھر دس سال بعد اچانک ایک روز وہ گائوں واپس آگئے۔ ان کی تو کایاپلٹ گئی تھی، نہ جانے کہاں سے اتنی دولت اکٹھی کرلی تھی کہ آتے ہی ایک بہت بڑا حویلی نما گھر تعمیر کروایا، زمینیں خریدیں اور بڑے زمین دار بن کر ٹھاٹ سے زندگی بسر کرنے لگے۔ آمنہ کے بچّوں نے میرے ساتھ ہی کالج میں داخلہ لے لیاتھا۔ عارف ان کے ساتھ واپس نہیں آیا تھا، البتہ خدیجہ ان کے ساتھ تھیں،مگران کی ذہنی حالت مزید ابتر ہوچکی تھی، اگلا پچھلا سب بھول گئی تھیں۔ کبھی کبھی ماضی کا کوئی واقعہ یاد آجاتا، تو پرجوش ہوکر حرف بہ حرف سچائی سے سنانے لگتیں۔
مَیں کبھی ان سے عارف کے بارے میں پوچھتا، تو خوف زدہ ہوکر چپ ہوجاتیں۔ عارف کی ماں، حاجرہ کو بھی رفتہ رفتہ صبر آگیا تھا۔ ہاشم کے گھر ہماراآنا جانا تھا، ان کے بچّے میرے ساتھ پڑھتے تھے، ہاشم کی بیوی، آمنہ بہ ظاہر ہم سے بڑی گرم جوشی سے ملتی ،ہاشم بھی مل کرخوش ہوتا تھا۔ وہ اب خود کہ شہنشاہ سمجھنے لگا تھا، گائوں والوں کو اپنی رعایا سمجھ کر رعونت سے پیش آتا، مگر مجھ سے محبت سے بات کرتا تھا۔ اس کی ایک بیٹی بھی میرے ساتھ کالج میں پڑھتی تھی، وہ کالج میں میری مقبولیت اور سرگرمیوں سے متعلق اپنی ماں کو آگاہ کرتی رہتی تھی۔
آمنہ فطرتاً حاسد ہونے کی وجہ سے مجھ سے جلنے لگی تھی۔ گائوں کے لوگ ہاشم اور آمنہ کی پرانی حرکتوں کو نہیں بھولے تھے اور ان سے دور ہی رہتے تھے، البتہ مجھ سے ان کا رویہ روزبہ روز منافقانہ ہوتا جارہا تھا۔ اندر ہی اندر وہ مجھ سے حسد پال رہےتھے، جس کا مجھے قطعی علم نہیں تھا۔ چوں کہ عارف کی سوتیلی ماں، خدیجہ سے ہماری دور کی رشتے داری بھی تھی، تو آنا جانا تو رہتا تھا۔
ایک دن وہ مجھے اچانک راستے میں مل گئیں، تو دیکھتے ہی بولیں، ’’آمنہ اور ہاشم تمہارے شدید مخالف ہیں، ان سے بچ کررہنا، وہ تمہیں قتل بھی کرواسکتے ہیں، انہوں نے میرے عارف کو بھی مار دیا۔‘‘ مجھ پر سکتہ سا طاری ہوگیا۔ میں نے پوچھا ’’میں نے ان کا کیا بگاڑا ہےخالہ؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’آمنہ بڑی حاسد ہے، تو اس کے بچّوں سے زیادہ لائق اور خوب صورت جو ہے، آمنہ کی بیٹی، تیرے قصّے اپنے ماں باپ کو سناتی ہے، جو آمنہ کو ہضم نہیں ہوتے، وہ نہیں چاہتی کہ اس کے بچّوں سے آگے کوئی بھی نکلے۔‘‘ میں نے کہا ’’اتنی سی بات پر وہ مجھے مروا کیسے سکتی ہے؟‘‘ خالہ خدیجہ نے جواب دیا ’’ہاشم، عارف کو مارنا نہیں چاہتا تھا، مگر آمنہ نے اسے ماردیا۔
انہوں نے اپنے دوست کے گھر کو بھی جلا کر راکھ کردیا، ہاشم پہلے اچھا تھا، مگر اب وہ آمنہ جیسا ظالم ہوچکا ہے۔ دولت نے اسے اندھا کردیا ہے۔‘‘ میں نے پوچھا ’’خالہ! اتنی دولت اس نے کیسے کمائی؟‘‘ خالہ خدیجہ اس روز پورے حواسوں میں تھیں۔ انہوں نے سارے پرانے ورق الٹ ڈالے، کہنے لگیں ’’اس بدبخت نے گائوں چھوڑنے کے بعد ریل گاڑی میں سفر کے دوران، رات کے وقت سوتے ہوئے عارف کو سیٹ سے اٹھا کر باہر پھینک دیا تھا، میں نے اسے خود دروازے سے عارف کو پھینکتے دیکھا تھا۔
سب سورہے تھے، سوائے میرے اور آمنہ کے۔ پھر شہر پہنچنے کے بعد اس نے جس جگہ رہائش اختیار کی، وہاں ایک ہندوساہوکار کو اپنا دوست بنالیا۔ اس کی بیوی مرچکی تھی، بچّے نہیں تھے۔ ہاشم اورآمنہ نے اسے ایسا شیشے میں اتارا کہ وہ ان پر پورا بھروسا کرنے لگا۔ ایک رات اس کے گھر میں اچانک آگ لگ گئی۔ ہاشم اس ہندو ساہوکار دوست کو بچانے کے بجائے اس کی تجوری اڑا لایا۔ یقیناً وہ آگ بھی ہاشم اور آمنہ نے منصوبہ بندی سے لگائی تھی، تجوری میں ہندو کی عمر بھر کی کمائی تھی، یہ سارے ٹھاٹ باٹ اسی تجوری کی برکت سے ہیں۔
انہوں نے عارف اور اس ہندو کو تو مار ڈالا اب گائوں والوں سے نفرت پال رکھی ہے۔ تم اس سے بچو بیٹا، یہ شخص بیوی کا غلام ہے اور بھیڑیے جیسی خصلت رکھتا ہے۔‘‘ خالہ خدیجہ کے انکشافات نے میرا سر گھما دیا، وہ معصوم عورت تھیں، انہیں کبھی سب کچھ یاد آجاتا تھا اور کبھی ہر بات بھول جاتی تھیں۔ اس لیے گائوں میں یہ باتیں کسی کو بتانا فضول تھا۔ وہ گواہی کے قابل نہیں رہی تھیں، البتہ میں نے ان کے بچّوں سے ایک فاصلہ قائم کرلیا تھا۔
ہاشم کو دیکھ کر راستہ بدل لیا کرتا، مگر کب تک بچتا، ایک روز میں اپنی سائیکل پر اپنے ایک دوست سے کتاب لینے دوسرے گائوں جارہا تھا کہ ہاشم کی گاڑی میرے قریب سے گزری۔ اس نے مجھے دیکھا، تو تیزی سے گاڑی ریورس کی اور میری طرف بڑھنے لگا، مجھے دیکھ کروہ جس طرح واپس پلٹا تھا، اس سے مجھے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ اس کی نیّت ٹھیک نہیں۔
سڑک چوں کہ تنگ تھی، میں نے کسی ممکنہ حادثے سے بچنے کے لیے سائیکل کو کچّے پر اتارلیا، سامنے پگ ڈنڈی تھی، جس کے دونوں طرف مٹی کے ٹیلے اور گھنے درخت تھے، میں اس راستے پر چل پڑا، گھنے درختوں کی وجہ سے غالباً ہاشم مجھے دیکھ نہ سکا اور تیزی سے آگے نکل گیا۔
دوست سے مل کر مغرب سے ذرا پہلے گائوں پہنچا، تو وہاں کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا، گائوں کے لوگ ہاشم کی حویلی کے اندر، باہر جمع تھے۔ اندر سے ماتمی آوازیں آرہی تھیں، ہاشم کی گاڑی کو شدید حادثہ پیش آیا تھا، غالباً مجھے ڈھونڈتے ہوئے تیز رفتاری کے باعث اس کی گاڑی ایک ٹیلے سے ٹکرا کر الٹ گئی اور اس میں آگ لگ گئی۔ ہاشم کی لاش سچ مچ عبرت کا نشان بن گئی تھی۔
میں وہاں پہنچا، تو اس کی بیوی لاش پر بَین کررہی تھی اور بچّے دھاڑیں مارمارکر رو رہے تھے، صرف خدیجہ خالہ تھیں، جو مجھے دیکھ کر تڑپ کر لپکیں اور کہنے لگیں۔ ’’لوگو! دیکھو اس ظالم نے سیف کو گاڑی تلے کچلنے کا ارادہ کیا تھا، مگر وہ اپنی گاڑی میں خود کچلا گیا، اسی نے اپنے سگے بیٹے، عارف کو ریل گاڑی سے باہر پھینک کر مارا تھا، اس نے ہندو دوست کے گھر کو آگ لگا کر اس کی تجوری اڑائی تھی اور اب وہ گائوں والوں کو اپنا غلام بنانے آیا تھا، اللہ نے اسے مزید فساد پھیلانے سے پہلے بلا لیا اور اسی کے کالے کرتوتوں کی ذمّے دار اس کی یہ فتنہ بیوی آمنہ ہے، جو اب مگرمچھ کے آنسو بہا رہی ہے۔‘‘
ہاشم کی تدفین سے پہلے ہاشم کی یہ کہانی ہر گھر تک پہنچ چکی تھی۔ اس کا خاندان پھروہاں زیادہ عرصے نہ ٹھہر سکا۔ وہ لوگ اونے پونے حویلی اور زمینیں بیچ کر خاموشی سے ایک بار پھر فرار ہوگئے، کہاں گئے، کسی کو آج تک خبر نہیں ہوپائی۔ اگر خدانخواستہ ہاشم اور آمنہ اپنی چال میں کام یاب ہوجاتے، تو یہ واقعہ سنانے کے لیے آج مَیں دنیا میں موجود نہ ہوتا، مگر قدرت کا اپنا نظام ہے، ظالم کو ڈھیل دیتا ہے، تو عبرت کا نشان بھی بنادیتا ہے۔
(سیف الملوک، معرفت محمد ادریس، لاہور)