پنجاب کے صوبائی وزیر شجاع خانزادہ ایک خودکش حملے میں مارے گئے۔ ان کے قاتلوں کا سراغ لگا یا گیا۔ گرفتار بھی ہوئے اور ان کو سزا بھی ہوئی۔ اس کے برعکس خیبر پختونخوا حکومت کے ایک وزیر اسراراللہ گنڈاپور خودکش حملے میں نشانہ بنائے گئے۔ ان کے بھائی جو خود ان کی جگہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوکر وزیربنے ، اپنی حکومت سے انصاف مانگتے مانگتے تھک گئے۔ آج تک اسراراللہ گنڈا پور کے قاتل معلوم ہوسکے اور نہ گرفتار ہوسکے۔ پرویز خٹک حکومت نے ان کے معاملے کی تحقیقات کے لئے جو کمیٹی بنائی تھی، اس پر مقتول اسراللہ گنڈاپور کے وزیر بھائی عدم اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں اور انہوں نے وفاقی وزیرداخلہ کو خط لکھا ہے (میرے پاس کاپی موجود ہے) کہ چونکہ ا نکی اپنی صوبائی حکومت ان کے بھائی کی قتل کی تحقیقات میں جانبداری دکھارہی ہے، اس لئے وفاقی حکومت اس کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنائے۔ گویا یہ وہ حکومت ہے جس میں مقتول وزیر کے وزیر بھائی اپنی حکومت سے انصاف نہیں لے سکے کیونکہ یہ تحریک انصاف کی حکومت ہے ۔لیکن نہ میڈیا میں اس کا ذکر ہے اور نہ کہیں اور سے نوٹس لیا جارہا ہے ۔ظاہر ہے لاڈلے کی لاڈلی حکومت جو ہے ۔
کرپشن اور بدعنوانیاں سندھ، بلوچستان، پنجاب اور مرکز میں بھی زوروں پر ہیں لیکن وہاں حکومت کے مخالفین کرپشن کا الزام لگارہے ہیں۔ جبکہ خیبر پختونخوا کی حکومت دنیا کی واحد حکومت ہے کہ جس میں وزیر (ضیاء اللہ آفریدی) نے اپنے وزیراعلیٰ پر کرپشن کے الزامات لگائے اور وزیراعلیٰ نے اپنی کابینہ کے وزیر پر۔ جاوید نسیم کی قیادت میں نصف درجن پی ٹی آئی کے ایم پی ایز نے میڈیا میں آکر وزیراعلیٰ اور وزراء پر کرپشن کے الزامات لگائے لیکن ان الزامات کی تحقیقات ہوئیں اور نہ ان ایم پی ایز کو پارٹی سے نکالا گیا۔ اسی طرح شیرپائو صاحب کی پارٹی کے وزراء کو کرپشن کا الزام لگا کر نکالا گیا اور پھر منتیں کرکے دوبارہ کابینہ میں شامل کیا گیا لیکن ان الزامات کا نیب نے نوٹس لیا اور نہ صوبائی احتساب کمیشن نے۔ یہ واحد صوبہ ہے کہ یہاں کے چیف سیکرٹری نے اپنے وزیراعلیٰ کے خلاف بے ضابطگیوں کا الزام لگا کر باقاعدہ خط لکھا اور اب وہی چیف سیکرٹری صاحب پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ٹکٹ تقسیم کررہے ہیں لیکن ان سب معاملات کا کوئی نیب نوٹس لے رہا ہے اور نہ میڈیا میں اس کی دہائی دی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے لاڈلے کی لاڈلی حکومت جو ہے۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات کے دوران خیبرپختونخوا اسمبلی میں ممبران اسمبلی گدھوں اور خچروں کی طرح فروخت ہوئے۔ خود عمران خان صاحب الزام لگاچکے ہیں اور یہ شاید ان کا واحد الزام ہے کہ جو سو فی صد درست ہے کہ ان کے چودہ اراکین اسمبلی نے پیسے لے کر سینیٹ کے ووٹ فروخت کئے۔ جبکہ ہماری اطلاع کے مطابق پی ٹی آئی کے بیس سے زائد ایم پی ایز جن میں ایک وزیر اور ایک مشیر بھی شامل ہے، نے پیپلز پارٹی کے امیدوار وںکو ووٹ دئیے۔ اب نہ الیکشن کمیشن نے اس معاملے کا نوٹس لیا اور نہ میڈیا کچھ کہہ رہا ہے۔ ظاہر ہے لاڈلے کی لاڈلی حکومت کے لئے مشکلات پیداہو سکتی ہیں اس لئے مٹی پائو پالیسی سے کام لیا جارہا ہے ۔
پنجاب اورسندھ کے عوام خوش قسمت ہیں کہ عدلیہ ان کے اسپتالوں کی حالت درست کرنے کے لئے متحرک ہوگئی ہے حالانکہ سب سے ابتر حالت خیبر پختونخوا کے اسپتالوں کی ہے۔ سوشل میڈیا پر کمپیوٹر کے ذریعے جعلی ویڈیوز بنا کر دکھانا الگ بات ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر کسی جسٹس نے ایک مرتبہ اطلاع دئیے بغیر خیبرپختونخوا کے اسپتالوں پر چھاپہ مارا تو حالت زار دیکھ کر وہ اگر وزیراعلیٰ کو نہیں تو وزیر صحت کو ضرور اندر کرادیں گے۔ اسی طرح سرکاری اسکولوں کے بارے میں تواتر کے ساتھ یہ جھوٹ بولا جارہا ہے کہ ان کی حالت اتنی بہتر کردی گئی ہے کہ لوگ پرائیویٹ اسکولوں سے بچے نکال کر سرکاری اسکولوں میں داخل کررہے ہیں۔ عمران خان تو یہاں تک جھوٹ بول رہے کہ ایک لاکھ بچے نجی ا سکولوں سے نکال کر سرکاری اسکولوں میں داخل کئے گئے۔ لیکن میں چھ ماہ سے چیلنج دیتا پھررہا ہوں کہ وہ ایک ہزار بچے بھی دکھادیں تو میں صحافت چھوڑ دوں گا۔ دوسری طرف میٹرک کے گزشتہ امتحان کے دوران سرکاری اسکولوں کا نتیجہ اس قدر خراب آیا کہ پشاور ہائی کورٹ کو سوموٹو ایکشن لینا پڑا۔یوں بھی خیبر پختونخوا کے وزیرتعلیم اپنے صوبے میں کم اور اسلام آباد میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ وہ گزشتہ کئی سال سے عمران خان کے پروٹوکول کی ڈیوٹی اور ذاتی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے صوبے میں جاتے ہی نہیں تو محکمہ تعلیم کی کارکردگی کیسے بہتر بنائیں لیکن میڈیا اس طرف متوجہ نہیں ہورہا ہے اور شاید وجہ یہ ہے کہ یہ لاڈلے کی لاڈلی حکومت ہے۔
خیبر پختونخوا میں ہر طرف اسکینڈلز ہی اسکینڈلز ہیں۔ پیڈو کا اسکینڈل دیکھ لیجئے۔ یہ ادارہ بجلی پیدا کرنے والا ادارہ ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ تین سو ڈیم بنائیں گے۔ ڈیم تو وہ ایک بھی نہ بناسکے الٹا صوبے کو سالانہ اربوں روپے منافع دینے والے اس ادارے کا ستیاناس کردیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ اسد عمر صاحب کے ایک بندے کو میرٹ کے خلاف بھاری تنخواہ کے عوض غیرقانونی طور پر اس کا سربراہ بنایا گیا۔ ادارے کے ملازمین عدالت میں گئے اور بالآخر پشاور ہائی کورٹ نے ان کی تقرری کو غیرقانونی قرار دے دیا ۔ اگر تحقیق کی جائے تو پتہ لگ جائے گا کہ پچھلے ساڑھے چار سالوں کے دوران یہ ادارہ بجلی کا کوئی منصوبہ کیوں تعمیر نہ کرسکا اور اس میں کیا بے قاعدگیاں ہوتی رہیں ۔لیکن نیب حرکت میں آرہا ہے اور نہ میڈیا متوجہ ہورہا ہے کیونکہ معاملہ لاڈلے کی لاڈلی حکومت کا ہے۔
کرپشن کے خاتمے کے نام پر یہاں صوبائی احتساب کمیشن کا من پسند قانون بنا کر من پسند ڈی جی مقرر کیا گیا تھا لیکن جب انہوں نے وزیراعلیٰ اور وزراء کی بھی ہلکی پھلکی خبر لی تو ان کی چھٹی کرادی گئی۔ وہ دن اور آج کا دن۔ ڈھائی سال کا عرصہ گزر گیا لیکن دوسرا سربراہ مقرر نہیں کیا گیا حالانکہ اس حکومت کے اپنے بنائے ہوئے قانون کی رو سے تین ماہ کے اندر نئے سربراہ کا تقرر لازمی ہے۔ خلاف قانون ایک شخص کو قائمقام بنا کر ان سے مخالفین کو بلیک میل کیا جارہا ہے۔ یہ احتساب کا واحد ادارہ تھا کہ جس کے اپنے ملازمین کی تقرریاں خلاف قانون ہوئی ہیں۔ سرکاری خزانے کے کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود یہ ادارہ ضیاء اللہ آفریدی کے سوا پی ٹی آئی تو کیا اے این پی حکومت کے کسی کرپشن کے کیس کا بھی نوٹس نہ لے سکا۔ اگر کوئی عدالت صرف صوبائی احتساب کمیشن کے معاملات کا سوموٹو لے لے تو پتہ چل جائے گا کہ احتساب کے نام پر کتنا بڑا فراڈ ہوا ہے اورہورہا ہے ۔اسی طرح یہ واحد حکومت ہے کہ جہاں اینٹی کرپشن کے محکمے کا سربراہ بھی وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اپنے سیکورٹی آفیسر کو لگادیا۔ گویا اس وقت خیبر پختونخوا کے احتساب کے سب ادارے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی جیب میں ہیں جبکہ نیب مفت میں مہربان ہے۔لیکن یہاں نیب متوجہ ہورہا ہے اور نہ میڈیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ احتساب کا مذاق اڑایا جارہا ہے لیکن لاڈلے کی لاڈلی حکومت کے ہاتھوں۔
بلین ٹری سونامی کے نام پر جو فراڈ ہوا ہے، اس کی تو تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ فراڈ اگر پنجاب میں ہوچکا ہوتا تو نہ جانے اب تک کتنے لوگ جیل جاچکے ہوتے۔ دعویٰ بلین ٹریز کا کیا گیا لیکن گرائونڈ پر پچاس کروڑ پودے بھی نہیں لگے۔ خریداری سے لے کر تقسیم تک اور پھر اس کی نگرانی کے لئے نگرانوںکی بھرتیوں تک ہر جگہ فراڈ ہی فراڈ ہے۔ یہ سب کچھ اخباروں کی زینت بن گیا لیکن نیب کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں۔ کیونکہ یہ لاڈلے کی لاڈلی حکومت ہے۔
یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ بینک آف خیبر کے ایم ڈی نے اپنے انچارج وزیرخزانہ کے خلاف اخبارات میں سرکاری خرچ سے اشتہار شائع کروا دیا۔ انہوں نے اپنے وزیر پر سنگین الزامات لگائے اور وزیر نے جواب میں اپنے ماتحت ایم ڈی پر۔ کئی ماہ تک توتو میں میں چلتی رہی لیکن پھر جماعت اسلامی کے وزیرخزانہ اور عمران خان (جن کے حکم پر ایم ڈی لگایا گیا تھا اور جن سے اجازت لے کر انہوں نے وزیرکے خلاف اشتہار شائع کروایا تھا) کے مابین مک مکا ہوگیا اور معاملہ رفع دفع کردیا گیا لیکن افسوس کہ نیب اس حوالے سے خاموش ہے۔ ظاہر ہے لاڈلوں کی لاڈلی حکومت جو ہے ۔
پنجاب اور سندھ کے عوام خوش قسمت ہیں کہ ان کے پیسے کا ا ب عدالت حکمرانوں سے حساب مانگ رہی ہے۔ اورنج ٹرین منصوبے پر عدالت نے اس وقت عمل درآمد روک لیا تھا جب تک شفافیت کو یقینی نہیں بنایا لیکن پشاور میں کم فاصلے کا بی آر ٹی پروجیکٹ لاہور اور اسلام آباد کی میٹرو سے زیادہ قیمت پر بن رہا ہے۔ اس کی تعمیر کے نام پر اس وقت پورا پشاور کھنڈر بنادیا گیا ہے۔ تین مرتبہ تو ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی جبکہ ٹھیکیدار اور ٹھیکے کے بارے میں بھی طرح طرح کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ اگر کسی عدالت نے تحقیق کروائی تو پتہ چل جائے گا کہ درون خانہ کیا ہوا ہے لیکن ظاہر ہے کہ نیب نوٹس نہیں لے گاکیونکہ یہ بدقسمت عوام کے بدقسمت صوبے کی لاڈلی حکومت کا منصوبہ ہے اور اس طرح کی لاڈلی حکومتوں کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔