• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مصنوعی ذہانت سے سرطان کی تشخیص

مرزا شاہد برلاس

سائنس داں ڈیکسٹر ہیڈ لے کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت ((Artifical intelligence کے ذریعے ڈاکٹروں کی نسبت زیادہ بہتر طور پر سینے کے سر طان کا پتہ لگایا جاسکتا ہے ۔بشرط یہ کہ الگوتھرم کو دس لاکھ میمو گرام (mammogram ) پر تربیت دی جائے ۔لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اتنے بڑے اعداد وشمار تک رسائی کیسے ممکن ہے ،کیوں کہ بہت سے ممالک میں پرا ئیوسی کے قوانین کے سبب حساس طبی معلومات تحقیق کاروں اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کی دسترس سے دور ہوتی ہیں ۔اس کے باعث سان فرانسسکو میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے کمپیوٹیشنل بایو لوجسٹ (computational biologist) ہیڈلے اور ان کے ساتھی مل کر ایک انقلابی طریقے کار بنانے کی کوشش کررہے ہیں ،جس کی وجہ سے ان کو اُمید ہے کہ لوگ اپنا طبی ڈیٹا تحقیق کاروں کو دینے کے باوجود اس کا کنٹرول اپنے پاس بھی رکھ سکیں گے ۔ 

ماہرین کے مطابق یہ طر یقہ بلاک چین (block chain) ٹیکنالوجی پر مبنی ہے ،جس کو بٹ کوائن کرپٹو کرنسی کے لیے استعمال کیا گیا ہے ،اس کا رواں سال مئی کے مہینے میں اس وقت تجربہ کیا جائے گا جب ماہرین ایک جائزہ شروع کریں گے ۔ہیڈلے اور ان کے ساتھی الگورتھم کو میمو گرام کی مدد سے سر طان دریافت کرنے کی تر بیت دیں گے ۔ماہرین کے مطابق امریکی عورتوں کی طرف سے یہ میمو گرام فراہم کیے جائیں گے اور ان کی تعداد تیس سے پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہوگی ۔

یہ ٹیم ان تدریسی سائنسدانوں پر مشتمل ہے جو بلاک چین کو میڈیکل اسکین ،ہسپتالوں کے ریکارڈ اور جینیٹک ڈیٹا کے اشتراک کو زیادہ موثر اور کار آمد بنانا چاہتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق کچھ منصوبوں میں تو لوگوں کو ان کا ڈیٹا استعمال کرنے کے عیوض رقم بھی فراہم کی جائے گی ۔سائنس دانوں کا منشا یہی ہے کہ الگورتھم کو بلاک چین سسٹم استعمال کرتے ہوئے تر بیت دی جائے، چوں کہ عوام میں یہ شعور بڑھ رہا ہے کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں ذاتی ڈیٹا استعمال کرکے کس طرح مال بناتی ہیں ،جس میں ان کی طبی معلومات بھی شامل ہیں۔ 

2016ء میںلندن کی ڈیپ مائنڈ نامی ایک ٹیک کمپنی کی بابت ایک بڑا تنازع پیدا ہو گیا تھا جب یہ خبر منظر عام پر آئی تھی کہ بر طانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کی ایک شاخ اس کمپنی کو سولہ لاکھ بیمار اشخاص کی اجازت کے بغیر ان کے میڈیکل ریکارڈ تک رسائی د ے دی تھی ۔جن معلومات میں ان کے نام اور حساس قسم کی طبی معلومات شامل تھیں ۔

حال ہی میں گوگل اور فیس بک نے اعلان کیا ہے کہ آپ سے متعلق معلومات کے خزینہ پر آپ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔یہ بات کیمبریج میں واقع میسا چوسٹیس انسٹی ٹیوٹ میں کمپیوٹر سائنسٹسٹ اینڈریولپمین نے کہی ہے ۔لیکن خاص بات یہ ہے کہ طب کی دنیا میں کوئی فیس بک نہیں ہے ۔چناں چہ بلاک چین کو استعمال کرتے ہوئے غیر مرکزی طبی معلومات کی شر کت کا ماڈل شناخت کو کنٹرول کرنے میں کافی کار گر ثابت ہوسکتا ہے ۔

بلاک چین ایک تقسیم شدہ بر قی سسٹم ہے جو لین دین (Transactions) کو بلاکس کی ایک پھیلتی ہوئی زنجیر میں ریکارڈ کرتا ہے ،جس کو تبدیل کرنا انتہائی مشکل کام ہے ،کیوں کہ کسی بھی ہیکر کے ایک بلاک کو توڑنے کے لیے اس سے جوڑے تمام بلاکس میں خود داخل ہوناہوگا ۔ہیڈلے کے جائزے کے مطابق بلاک چین سوئچیز کی سیر یز ڈیٹا کے بہائو کی اطباء اور تحقیق کرنے والوں کے در میان رہنمائی کرسکتا ہے جو خواتین اس میں حصے لیں گی وہ کسی بھی وقت breastwecan.org پر اون لائن آکر اپناڈیٹاکالعدم کر سکتی ہیں ،جو بلاک چین کے کلائود میں اسٹور کیا ہواہے ۔

ماہرین مصنوعی ذہانت کی الگورتھم کی کئی ملین میمو گرام پر تر بیت کریں گےجو تندرست خواتین اورسینہ کے سرطان میں مبتلا خواتین سے لیے جائیں گے ۔اس کا مدعایہ ہے رسولیوں کو کلاسیفائی کرکے ان کی شناخت ڈاکٹروں سے زیادہ بہتر طور پر کرسکتی ہے ،کیوں کہ اکثر ڈاکٹر میموگرام میںموجود ایک چوتھائی سر طانوں کی شناخت میں ناکام رہتے ہیں ۔الگورتھم کی درستی اس کی تربیت کے ساتھ ارتقاء کرتی جائیں گی ،خاص طور پر جب مختلف انواع کے ڈیٹا پر اس کی تر بیت کی جائے گی ،جس طرح ریڈیو لوجسٹ کی رسولیوں کی شناخت کی صلاحیت اس کے تجربے کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے ۔ہیڈ لے کے مطابق اس طر یقے کار میں ان کی عمر ،ٹشو کی کثافت اور دوسری اہم معلومات شامل ہوں گی ۔

دوسرے گروپ بلاک چین کی بنیاد پر مارکیٹ میں کچھ افراد ذاتی طور پر یا کمپنیوں اور تدریسی تحقیق کاروں کے در میان ڈیٹا بھیج سکتے ہیں اور اس کامعاوضہ بھی فراہم کرسکتے ہیں ۔ان میں سے ایک کوشش نبیو لہ جینومکس ہے جو ہارورڈ یونیورسٹی کیمبریج میسا چوسٹیس کے جینیٹسٹ جارج چرچ کے اشتراک سے قائم کی گئی ہے ۔

نیبولہ کا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کا جینوم سیکو ئنس تیار کرکے ان کمپنیوں کو فراہم کریں گے جو ان کے ڈیٹا کے استعمال کے عیوض ان لوگوں کو معاوضہ دینے پر رضامند ہوں ۔علاوہ ازیں وہ لوگ جو اپنے جینوم کی سیکوئنس کا معاوضہ خود ادا کریں ،وہ اپنی جینیٹک معلومات نیبولہ کے ذریعہ فروخت کرسکیں گے ،جو ڈیجیٹل ٹوکن (digital tokens) کی شکل میں ہوگی ،جس کے بدلے میں امریکی ڈالر ادا کیے جائے گے ۔

چرچ کا کہنا ہے کہ نیبولہ اس بات کی یقین دہانی بھی کرائے گی کہ کمپنیاں جو وعدے کریں ان کو پورا بھی کریں ۔مثال کے طور پروہ کمپنی کسی شخص کے ڈیٹا کو کتنے عر صے تک بآسانی استعمال کرسکتی ہیں ۔ لپمیں کے مطابق لوگوں کو اپنے میڈیکل ریکارڈ کا کنٹرول دینے سے صحت کے کئی فائدے فوری طور پر حاصل ہوجائیں گے، چوں کہ لپمیں اوران کے طالبعلمو ں نے بلاک چین پر مبنی ایک ہیلتھ ریکارڈ کا سسٹم بنایا ہے جس کا نا م MedRec ہے، جس کوبیتھ اسرائیل ڈیکونیس میڈیکل سینٹر بوسٹن میںرواں سال ہی ٹیسٹ کیا جائے گا۔ 

اس سسٹم کی مدد سے کوئی بھی شخص صحت سے متعلق ڈیٹا Fitbits جیسے الیکٹرونک ڈیوائس سے خود بھی شامل کرسکےگا۔ ڈاکٹر زاور تحقیق کاراس فالتو ڈیٹا کو ان کی اجازت سے علاج میں بہتری لانے کے لئے استعمال کرسکیں گے۔

ہیڈلے کا کہنا ہے کہ معمول کے میڈیکل ریکارڈکاکثیر ڈیٹا جو اطباء جمع کرتے ہیں اگر اس کودوسرے ریسرچ کرنے والوں سے اشتراک کرکے اسٹڈی کیا جائے تو وہ میڈیکل کے شعبہ میں بہت ترقی کا باعث ہوتا ہے۔ اس کے لیے دوسرے لوگوں سے بات کرکے ان کو آمادہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ڈیٹا کا اشتراک کریں ،اس کے لیےہمیں شعبہ میڈیسن میں ایسی نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا ہوگا جو ڈیٹا کو بہتر طور پر محفوظ رکھ سکے فی الوقت ان میں سے ایک بلاک چین ہے،جس کو استعمال کرکے ہم بھر پور فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین