• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ بے خبر تھا!!

محمّد حامدسراج،چشمہ بیراج، میاں والی

تیز ہوا کا زور تھا۔اُس نے اِکتارا(ایک تار کا تنبورا)کندھے پر رکھا اور پہاڑی رستے پر قدم جماتا، اپنے گھر کی سمت چل دیا۔ بارش کی بوندوں سے بچنے کے لیے اپنا رین کوٹ اور اس کی ٹوپی سَر پر اچھی طرح جمالی۔وہ سرحد کے اُس پار سے بارود میں اپنا خاندان دفن کر کے لوٹا تھا۔ اُسے سرحدوں کی پہچان نہیں رہی تھی۔ اُس نے رزق کی تلاش میں ایک پُرفضا پہاڑی مقام پر ایک کرسی جمالی، رات کی تاریکی میں جب درختوں اور جھاڑیوں سے روشنی کے انعکاس کے ساتھ اُس کے اِکتارا سے درد کی لہر نکلتی، تو کتنے ہی مسافروں کی آنکھوں میں آنسو ،قافلے باندھ لیتے اور وہ اپنے قافلے سے بچھڑا اکیلا فرد، رات گئے تک اپنے سُروں میں بیوی، بچّوں کی آوازیں تلاش کرتا۔ اور پھر جب اپنی جھونپڑی میں لوٹتا، تو ایک آواز لگانا نہ بھولتا،’’بچّو…! مَیں آگیا ہوں، آج بارود تو نہیں برساناں…؟یہ لو، ٹافیاں، چلغوزے، مونگ پھلی، اخروٹ، خوبانی۔‘‘

رات کا کھانا، وہ ایک پہاڑی ہوٹل سے کھا کر لوٹتا، جس کی ادائیگی مہینے کے مہینے باقاعدگی سے کرتا۔ہوٹل کے پہلو سے نکلتی ایک پگڈنڈی کے آخری سرے پر، اُس کی جھونپڑی تھی۔جس میں ایک چارپائی، ٹرنک، چائے کے برتن ، اسٹوو تھا اور دیوار کے ساتھ کپڑے لٹکانے کے لیے اس نے میخیں ٹھونک لی تھیں۔ جس روز اس نے پہلی میخ ٹھونکی، ہتھوڑی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور وہ چکرا کے گرا۔تب بیٹی کی کٹی پھٹی لاش بولنے لگی۔اُسے معلوم نہیں تھا کہ لاشیں، زندہ لوگوں سے زیادہ چیختی ہیں۔اس نے پانچ میخیں پانچ دِن میں مکمل کیں، مگر ہتھوڑی کی آواز بم بار طیاروں کی آواز میں بدل کر کمرے کے دیوار و دَر میں رَچ بس گئی۔

بال بکھرائے، وہ رات گئے تک جاگتا رہتا۔اُس کے اعصاب چٹخنے لگتے۔ ایک رات اس نے تھک کر اپنا اِکتارا اُٹھایا اور سُر نکالا، ہر دوسرے سُر کے ساتھ وہ بے خود ہوتا چلا گیا۔ بارود کی بُو اور دھواں چَھٹنے لگا،پھر اسے اِکتارا سے عشق ہوگیا۔ اس کمرے میں اس نے دِل کی دنیا آباد کرنے کا فیصلہ کیا۔وہ اکثر سوچتا، ’’کتنے لوگ ہوں گے ،اس زمین پر جن کے مَن میں بارود اور دُکھ سلگتا ہو گا۔اگر اِکتارا بجانے سے کوئی ایک لمحے کو بھی اپنے دُکھ بھول جائے اور میری کوئی ایک لَے، ایک سُر کسی کے مَن میں جوت جگا دے، تو زمین پر دُکھ کم ہوجائیں گے، پھول کِھلنے لگیں گے، ہوا میں مہک سی بَھر جائے گی۔مَیں تو اپنے حصّے کا کام کر جاؤں۔‘‘

اُس روز بھی بارش کی بوندوں سے بچنے کے لیے اس نے اپنا رین کوٹ پہنا اور اس کی ٹوپی سَر پر اچھی طرح جمائی۔گھر داخل ہوا، تو حسبِ عادت آواز لگائی،’’بچّو…! مَیں آگیا ہوں، آج بارود تو نہیں برساناں…؟یہ لو، ٹافیاں، چلغوزے، مونگ پھلی، اخروٹ، خوبانی۔‘‘پھر اس نے اِکتارا چارپائی کے سہارے کھڑا کیا۔ رین کوٹ اُتار کر لٹکایا اور چائے بنانے لگا۔گرم گرم چائے پیتے وہ مُسکرا رہا تھا۔اس کے سامنے سے روزانہ سیکڑوں مسافر گزرتے، رُکتے اپنا رستہ پکڑتے، لیکن اُس دِن جب وہ آنکھیں بند کیے بے خود اکتارا بجا رہا تھا، اچانک آنکھ کھلنے پر اُس نے دیکھا، ایک سادہ سی لڑکی اور اس کے ساتھ گم صم سا ایک لڑکا اُس کے سامنے بیٹھے دنیا و مافیہا سے بے خبر سُروں میں گم ہیں۔

اِکتارا رُکنے پر انہوں نے سَر اُٹھایا اور لڑکی نے ایک سُر سُننے کی خواہش ظاہر کی۔اُس نے سُر اٹھایا، تو لڑکی اس کے پاس آکھڑی ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد لڑکی نے پوچھا،’’بابا! مَیں اِکتارا بجا سکتی ہوں؟‘‘اُس نے کرسی چھوڑ دی اور اِکتارا اسے تھما دیا۔’’بابا! اِس سے اِکتارا لے لو۔‘‘گم صم لڑکے نے خلا میں دیکھتے ہوئے کہا۔’’کیوں بیٹا…؟‘‘’’بابا! یہ سارے موسم، سارے منظر میرے اندر باندھ دیتی ہے اور پھر چلی جاتی ہے۔‘‘’’کہاں چلی جاتی ہےبیٹا…؟‘‘’’شہر…بابا! یہ شہر سے صرف مجھے ملنے آئی ہے۔یہ لوٹ جائے گی۔ یہ بھی ممکن ہے، کبھی یہ واپسی کا رستہ بھی بھول جائے۔شہر میں کھو جائے۔ مجھے شہروں سے ڈر لگتا ہے۔ 

شہر انسانوں کو نگل جاتے ہیں۔‘‘’’توکیا تم گاؤں کے رہنے والے ہو …؟‘‘ ’’نہیں بابا…!‘‘ ’’تو پھر…؟‘‘’’مَیں اس کے دِل میں رہتا ہوں۔‘‘’’دِل میں رہتے ہو، پھر بھی ڈرتے ہو۔‘‘وہ ہنسا۔’’اِس کا مزاج عجیب ہے بابا۔بلا سبب روٹھ جانا، اور مجھے منانے کا بھی سلیقہ نہیں آتا۔‘‘ لڑکی کی مخروطی انگلیوں سے سُر نکلے، تو پُرفضا پہاڑی مقام پر موسم جیسے اپنی پہچان کھو بیٹھے۔ ایک ایک کرکے سیّاح اکٹھے ہونے لگے۔وہ بے خبر، بے خود اِکتارا بجاتی رہی اور آنسو اس کے گالوں پر سُر بکھیرتے رہے۔جب چھنگلی سے اس نے آخری سُر سمیٹا، تو اُس کی سانسیں، پسینہ اور آنسو سب رو رہے تھے۔اُس نے اِکتارا بابا کو تھمایا۔ سیڑھیوں سے دس بارہ قدم وہ دونوں آگے بڑھے اور پلٹ آئے۔انہیں لگا، اِکتارا کا کوئی ایک سُر، وہیں بابا کے پاس بھولے جا رہے ہیں۔

وہ پھر اسی موسم میں اپنے آپ کو تلاش کرنا چاہتے تھے۔بابا کہہ رہا تھا،’’اِک عُمر گزری اِکتارا میں اپنے گم شدہ بچّوں کو تلاش کرتے۔ آج بیٹی نے اِکتارا بجایا ہے، تو زخم بولنے لگے ہیں۔ اس پہاڑی کے دامن میں میری جھونپڑی ہے، کبھی اِن راہوں سے دوبارہ گزر ہو، تو میرے پاس ضرور آنا۔ کسی سے بھی کہہ دینا کہ ’’بابا اِکتارا‘‘سے ملنا ہے، وہ جھونپڑی تک پہنچا دے گا۔‘‘’’بابا! اکیلے رہتے ہو؟‘‘’’نہیں بیٹا! بچّے ہیں۔ ہم سرحد کے اُس پار سے آئے ہیں۔‘‘’’تم دونوں شادی شدہ ہو۔‘‘’’دونوں مُسکرا دیے۔’’عُمر بَھر سلگتے رہو گے، پاگل ہو؟‘‘’’بابا! ہجر کی آگ میں جلنے اور جینے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ہم بھی اِکتارا خرید لیں گے۔‘‘’’بیٹا! ہجر، ہڈیوں کا گُودا کھا کے زندہ رہتا ہے۔‘‘’’معلوم ہے، بابا…!!‘‘’’مَیں جب سے سرحد کے اُس پار سے آیا ہوں، پہلی بار اتنی باتیں کسی سے کی ہیں۔‘‘بابا مُسکرایا۔ان تینوں نے اِسی ہوٹل میں، جو پہاڑی کی وسطی سمت تھا، مل بیٹھ کے ایک چارپائی پر کھانا کھایا۔لڑکی کی آنکھوں میں خوشی اور اُداسی کے دیپ جل بُجھ رہے تھے۔وہ اپنی راکھ ہوتی سانسوں کے ایندھن کے لیے اُس کے ساتھ اس پہاڑی مقام پر آئی تھی۔

لڑکی نے جہاز سے شہر کی سیڑھی پر قدم رکھا، تو کندھے پر رکھا، اُس کا بیگ بھاری ہوگیا۔اس کے کندھے دُکھنے لگے۔وہ ٹریفک کے شور اور چکا چوند روشنیوں کو چیرتی، گھر پہنچی اور سیدھی اپنے بستر پر جا گری۔ جانے کتنے گھنٹے بے خبر سوئی۔تیسرے روز دفتر گئی، تو سارا شہر اجنبی تھا۔ دفتر سے واپسی پر اُس کی ایک سہیلی ساتھ تھی۔وہ ایک کیفے کے برآمدے میں رُکی، جہاں کئی برس سے ایک شخص کو اِکتارا اور اندر ہال میں دوسرے شخص کو وائلن بجاتا دیکھ رہی تھی۔ وہ برآمدے کے صوفے پر بیٹھ گئی اور اپنی سہیلی کو پہاڑی مقام پر گزرے ایک ایک لمحے کی باتیں سُناتی رہی، جس نے اُسے سانسوں کا ایندھن، زادِ راہ کے طور پر ساتھ باندھ دیا تھا۔

وہ باتیں سُناتے اپنے آنسوؤں کو نہ روک پاتی۔ جب اُس کے آنسوؤں نے تار باندھی، تو اس کی سہیلی نے بے تاب ہو کر پوچھا،’’لیکن تم رو کیوں رہی ہو …؟‘‘’’دَم گھٹ رہا ہے۔‘‘’’اُسے فون کر لو۔‘‘’’ممکن نہیں ہے۔‘‘’’کیوں ممکن نہیں ہے…؟‘‘’’میرے پاس تمہارے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔‘‘اِکتارا بج رہا تھا۔سُر برآمدے کی چھت سے آنسو بن کے ٹپک رہے تھے۔’’پہاڑی مقام پر جو بابا تھا ناں، وہ بارود کی سرحد سے آیا تھا۔اِکتارا بجا کر اس نے کچھ سال گزار لیے،لیکن جومیرے مَن کوبھا گیا ہے، اسے تو اِکتارا بھی بجانا نہیں آتا۔‘‘ ’’اکتارا بجانا نہیں آتا، تو کیا ہوا…؟‘‘’’تم نہیں سمجھو گی۔ 

مَیں اُسے اکیلا چھوڑ آئی ہوں۔ وہ مَر جائے گا۔‘‘’’پاگل ہو گئی ہو کیا، کیسے مَر جائے گا، کیوں مَر جائے گا؟‘‘’’اس کا اِکتارا تو مَیں ہوں ناں، وہ تو اتنا معصوم ہے کہ اسے اپنے دُکھ بانٹنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔کون بانٹے گا اس کے دُکھ…؟جب مَیں جہاز میں سوار ہوئی، تو وہاں سرحدوں پر بارود کی بُو پھیلی ہوئی تھی اور وہ بے خبر تھا…!‘‘

تازہ ترین
تازہ ترین