جس طرح عدالت چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کی قیادت میں سوو موٹو اختیارات کا بھر پور استعمال کررہی ہے، اس نے قانون پسند حلقوں کی تشویش میں اضافہ کردیا ہے ۔ چیف جسٹس ثاقب نثاربطور ایک جج غیر معمولی کیریئر رکھتے ہیں۔ اُن کا شمار اُن ذہین ترین اور قانون کی باریکیوں کو سمجھنے والے ججوں میں ہوتا ہے جنہیں ہم نے کبھی بنچ پر دیکھا ہو۔ محترم جج صاحب کے کیے گئے فیصلے اُن کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لیکن جس طرح اُن کی قیادت میں سپریم کورٹ نے 184(3) کے تحت حاصل اختیارات کو بکثرت استعمال کرنا شروع کردیا ہے ، یہ ایک تعجب خیز بات ہے ۔ اس نے اختیارات کی علیحدگی کے تصور پر بہت سے سوالات اٹھا دیئے ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار صاحب سے میری پہلی ملاقات 1997 ء میں ہوئی۔ وہ اُس وقت سیکرٹری قانون تھے، اور میرے والد صاحب میاں طارق محمود ڈپٹی اٹارنی جنرل تھے ۔ 1998 ء میں جسٹس ثاقب نثار ، جسٹس آصف کھوسہ اور کچھ دیگر جج حضرات لاہور ہائی کے جج فائز ہوئے۔ چند ماہ بعد میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ لیکن جسٹس ثاقب نثار صاحب نے ہمیشہ اُنہیں یاد رکھا، میری سرپرستی فرمائی اور میرے سر پر دست ِشفقت رکھا۔بطور ایڈوکیٹ میں گزشتہ دسمبر کو سپریم کورٹ میں وکالت کرنے کے قابل ہوا تو مجھے اُن کے سامنے پیش ہونے کا موقع ملا۔
میں نے 1998 ء میں ’’دی نیوز ‘‘ میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر پہلی ملازمت کی۔ 2006 ء سے میں نے ہفتہ وار کالم لکھنا شروع کردیاتھا۔ اس کا فوکس قانون ، سیاست اور معاشرے کے الجھے ہوئے موضوعات پر تھا۔ اُس وقت میں ایک وکیل کے طو رپر بھی تربیت حاصل کررہا تھا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے ہمیشہ حمایت کی کہ میں کھل کر اپنے دل کی بات کروں، حتیٰ کہ اُ س دور میں بھی جب عدالتی فیصلوں پر تنقید سے بنچ کا موڈ برہم ہوجاتا تھا۔ ایسا پہلا واقعہ جولائی 2013 ء میں پیش آیا۔ یہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے عروج کا زمانہ تھا ۔ میں نے ایک مضمون لکھا ، ’’انصاف کا غرور‘‘۔ اس میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے سووموٹو نوٹس لینے کے تسلسل پر تنقید کی گئی تھی۔
میں نے لکھا ، ’’ طاقت ور جج حضرات کی ناراضی مول لینے ( اور بطور وکیل اپنی روزی خطرے میں ڈالنے )کا رسک لیتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ چیف جسٹس چوہدری کی بحالی کے بعد سے فاضل عدالت نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کرنا شرو ع کردیا ہے، اس نے انصاف کی فراہمی کے معیار پر سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔ اب عدالت کے ایوان میں عوامی مقبولیت، اخلاقیات، دیگر اداروں کی فعالیت کی جانچ اور قانونی طریق کار کی بجائے داخلی سوچ زیادہ کارفرما دکھائی دیتی ہے ۔ ‘‘چونکہ وہ جسٹس چوہدری کے عروج کا زمانہ تھا، اس مضمون کی اشاعت نے ہلچل مچا دی ۔ معروف اینکر کامران خان نے جیو نیوز پر اپنے پروگرام میں اگلے دور روز تک اس پر مسلسل بات کی۔
چیف جسٹس چوہدری اس پر خوش نہ تھے، اور چہ میگوئیاں ہورہی تھیںکہ مجھے توہین ِعدالت کا نوٹس ملے گا۔ جسٹس ثاقب نثار صاحب نے مجھے بلا بھیجا اور پوچھا کہ کیا مجھے توہین عدالت کا نوٹس تو نہیں ملا؟میں نے بتایا کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُنھوںنے میرا مضمون پڑھا ہے، اور اس میں کچھ بھی غلط نہیں، نیز اگر مجھے نوٹس ملا تو میں یاد رکھوں میرے والد کے دوست میرے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔ انھوں نے مجھے حوصلہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے ۔ وہ آزادی ٔ اظہار اور سچی بات کرنے کے زبردست حامی تھے،ا ور ہیں۔
2016 ء میں، میں نے خیبرپختونخوامیں جوڈیشل تقرریوں کو موضوع بناتے ہوئے ایک مضمون لکھا۔ اس پر مجھے توہین ِعدالت کا نوٹس ملا۔ اپنا دفاع کرنے کا منصوبہ بناتے ہوئے میں جسٹس نثار صاحب سے مشورہ کرنے گیا۔ وہ اُس وقت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان کے بعد دوسرے نمبر پر سینئر ترین جج تھے ۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ میں عدلیہ پرانگشت نمائی کا سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن جو کچھ میں نے لکھا ہے ، وہ بھی غلط نہیں ہے ، چنانچہ میں اپنا دفاع کرنا چاہتا ہوں۔ جسٹس ثاقب نثار صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے اُن کے ایک فیصلے پر بھی تنقید کی تھی لیکن وہ ناراض نہیں،بلکہ وہ تنقیدی رائے کے حامی ہیں۔
اب موجودہ دور میں، میں چند ماہ پہلے چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملنے گیا۔ اُنھوں نے میری والدہ صاحبہ کی صحت کے بارے میں دریافت کیا۔ میرے والدکو یاد کیا، جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتے ہیں، اور پھر مجھے بتایا کہ وہ جانتے ہیں کہ میں اُن کے کچھ فیصلوں کا ناقد ہوں (جب وہ چیف جسٹس کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے ، اس وقت ، اور بعد میں جب وہ چیف جسٹس آف پاکستان ہیں، ہمارے درمیان 184(3) کے تحت اختیارات کے استعمال کو محدود کرنے پر طویل بحث ہوئی ) ۔ اُنھوںنے مجھے صاف الفاظ میں بتایا کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ (چیف جسٹس صاحب) مثبت اور معقول تنقیدی رائے سے ناراض ہوجائیں گے، وہ لوگ اُنہیں جانتے ہی نہیں۔ پھر اُنھوںنے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ میں جس بات کو درست سمجھتا ہوں، اُس دلیل کے ساتھ کہتا رہوں۔
چند ہفتے قبل میڈیا سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران اُنھوں نے عدالت میں مجھ سے پوچھا کہ کیا اُنھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا ناقدانہ جائزہ لینے پر کبھی میری سرزنش کی ہے ؟نیز میں یہ بات کھل کرکر وں تاکہ عدالت میں موجود دیگر افراد کو کوئی ابہام نہ رہے کہ موجودہ سپریم کورٹ معقول اور معتدل تنقید کے خلاف نہیں ہے ۔ یہ یقین دہانی اور، ہمیں ا س کا تجربہ بھی ہے، کسی اور کی طرف سے نہیں، خود چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے ہے کہ کوئی بھی سپریم کورٹ کی فعالیت پر سوال پوچھ سکتا ہے ، لیکن ظاہر ہے کہ اس کا مقصد محض عدالت پر کیچڑ اچھالنا نہ ہو۔ قانون کی بالا دستی کی حمایت کرنے والی آوازچاہے تنقید ہی کیوں نہ ہو، انصاف کے اجلے دامن کی ضمانت ہوتی ہے ۔
قانون کے ایک طالب علم ہونے کے ناتے مندرجہ ذیل سوال ذہن میں ابھرتا ہے ۔ کیا آرٹیکل 184(3) کا دائرہ کار، اختیار اور استعمال کا طریقہ کسی چیف جسٹس کی ذاتی ترجیحات کے مطابق ہو یا اس کے لئے کوئی باقاعدہ دائرہ کار طے کیا جانا چاہیے ؟ کیا اس بات کی وضاحت نہیں ہوجانی چاہیے کہ اسے کون اور کس طرح استعمال کرسکتا ہے ؟ایک یادگار فیصلے میں چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے لکھا کہ آرٹیکل 90 وفاقی حکومت کی تعریف کرتا ہے ، جس سے مراد وزیر ِاعظم اور کابینہ ہے ۔ چنانچہ وفاقی حکومت کا کیا گیا فیصلہ کابینہ کا ہوتا ہے نہ کہ انفرادی طور پر وزیر ِاعظم یا کسی ایک وزیر کا۔
اسی طرح آرٹیکل 176 بیان کرتا ہے کہ سپریم کورٹ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج حضرات پر مشتمل ہوتی ہے ۔ آرٹیکل 184(3) کے اختیارات چیف جسٹس کے انفرادی نہیں ، بلکہ یہ سپریم کورٹ کے اختیارات ہیں۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ سپریم کورٹ کے تمام جج حضرات پر مشتمل بنچ 184(3) کے دائرہ کار کی وضاحت کے لئے فیصلہ کرلے ۔ اس کے لئے عوامی اہمیت کے معاملات کا تعین بنیادی حقوق کی کسوٹی پر کیا جائے ۔ اس سے قانون کے استعمال میں ایک یقینی پن آئے گا، اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ آرٹیکل 184(3) کا استعمال کسی چیف جسٹس کے ذاتی رجحانات کا مرہون منت نہیں ۔
آرٹیکل 175(2) کہتا ہے کہ عدالت کے پاس وہی اختیارات ہوتے ہیں جو قانون میں درج ہیں۔ ماضی کی ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ جج حضرات اسپتالوں یا کالجوں کے دورے کرتے دکھائی دئیے ہوں۔ ہاں، ان شعبوں میں حقائق کی تلاش کے لئے کمیشن مقرر کرنے کی تاریخ موجود ہے ، لیکن کسی بھی سروس کی انتظامیہ کو چلانا بنیادی طور پر اس کے ایگزیکٹو کا استحقاق ہے ۔ عدالتیں اپنے جوڈیشل جائزے کے اختیار سے ایگزیکٹو کے افعال کی قانونی جہت کا تعین کرتی ہیں، لیکن وہ خود فیصلہ سازی کے میدان میں قدم نہیں رکھتیں۔ کیا یہ سوال نامناسب تو نہیں کہ کسی اسپتال کا دورہ کرنے کی اتھارٹی سپریم کورٹ کو کس قانون نے دی ہے ؟اگر عدالتوںکو ایسے اختیارات دے دئیے جائیں تو کیا ہائی کورٹس اپنے اپنے صوبے کے دورے پر نہیں نکل جائیں گی؟ اور کیا ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے بنیادی فرض کو نظر انداز نہیں کریں گی؟اگر کسی ایگزیکٹو پر براہ ِراست نظر رکھنا عدالت کی ذمہ داری ہے تو کیا ہم ایگزیکٹو اور جوڈیشل کے اختیارات میں علیحدگی کے آئینی نظام کو تبدیل تو نہیں کرنے جارہے ؟اگر عدالتیں ایگزیکٹو کے اختیارات، تقرریوں ، ٹیکس کے نظام اور منصوبوں میں اپنی دانائی کے مطابق مداخلت کریں گی تو کیا وہ ایگزیکٹو کو مفلوج نہیں کردیں گی؟اس کے بعد معاملات میں ہونے والی خرابی کی ذمہ داری کو ن اٹھائے گا؟
ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں کیا تعلق ہے ؟ کیا ہائی کورٹ سپریم کورٹ کے انتظامی کنٹرول میں ہیں؟کیا آرٹیکل 184(3) کے اختیارات کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے بنچوں کی تشکیل کا حکم دے سکتی ہے ، اور اس بات کا فیصلہ کرسکتی ہے کہ وہ کس کیس کی سماعت کریں گی او رکس کی نہیں؟کیا ا س سے ہائی کورٹس کی خودمختاری اور فعالیت کو تقویت ملے گی؟کیا قانون کا من مانی سے استعمال قانون کی حکمرانی ہے ؟ یا اس بات کا فیصلہ کرنا کہ کون سی پارٹی کو کس وکیل کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں او ر کس کی نہیں؟اور پھر سپریم کورٹ سول اور آئینی معاملات میں افراد کو ذاتی طو ر پر پیش ہونے کا حکم کیوں دیتی ہے جبکہ اُن کی نمائندگی کرنے کے لئے وکلا موجود ہوتے ہیں؟کیا فیصلوں سے پہلے افراد کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے عدالت قانون کی حکمرانی کے تصور کو تقویت دے رہی ہے ؟
قانون کی حکمرانی اور قانون کے یقینی پن کو تقویت دینے والی چیز اس وقت یہ ہے کہ ہم ایسی تشویش کا برملا اظہار کرلیتے ہیں، نکتہ چینی کرلیتے ہیں اور کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرلیتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ ہمیں چیف جسٹس محترم ثاقب نثار صاحب کی بیدار مغزی اور بصیرت پر اعتماد ہے کہ وہ اس کا برا نہیں منائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)