اسلام آباد(زاہدگشکوری) سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ نے دعویٰ کیاہے کہ انھوں نے1990کے انتخابات سےقبل اس وقت کے لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کو سختی منع کیاتھا کہ فوج کو ’’سیاسی انجینئرنگ میں نہ گھسیٹیو۔ انھوں نے یہ حیران کن انکشافات وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے)کی اُس ٹیم کو دیے گئے بیان میں کیے جوملک میں 1990کے انتخابات میں مبینہ طورپر148کروڑ روپے کی تقسیم کی تحقیقا ت کررہی ہے۔ میں نے (جنرل) اسد درانی کو بلایا اور آئی ایس آئی کےفنڈز کےاحتیاط کے ساتھ استعمال کے بار ےمیں خبردارکیا۔ جنرل بیگ نے ایف آئی اے اورعدالت کودیئےگئےبیان میں انکشاف کیاکہ، ’’اس کے بعد میں نے اس کے ساتھ کبھی اس معاملے پر بات نہیں کی۔ میں نےاسےکسی سیاستدان کا نام یا تقسیم کیلئے کوئی رقم نہیں دی کیونکہ یہ مکمل طورپر اس کا اختیار تھا، اوروہ صدرکو رپورٹ کرنےکاذمہ دارتھا۔‘‘ درانی نے 202سروے سیکشن کے نام پر متعدد اکائونٹس کھول کر آرمی قوانین کی خلاف ورزی کی، یہ اس کی کمانڈ کے تحت صرف آپریشنل انٹلیجنس مقاصدکیلئےتھے۔ مجھے اس خلاف ورزی کاصرف 1996میں پتہ لگا جب اس نے سپریم کورٹ کے سامنے حلف نامہ جمع کرایا۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ تمام اکائونٹ کس نے چلائے۔ میں بریگیڈئیرحامد سعید کو بحیثیت 202سروے سیکشن آپریشن کمانڈر جانتا ہوں اور آئی ایس آئی کے اکائونٹ ہولڈر اور سیاستدانوں کو فنڈ تقسیم کرنےوالےکےطورپرنہیں جانتا۔ وہ(درانی) دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے فنڈ تقسیم کیے اور اُن کےہاتھ سےلکھےنوٹس میں ریکارڈ ہے لیکن اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اسی طرح درانی فنڈز تقسیم کرنے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں، اس لین دین کاکوئی گواہ، کوئی تحریرشدہ یا زبانی ثبوت نہیں ہے۔ یہ محض جھوٹ ہے۔ بیگ مزید بتاتے ہیں کہ ’’درانی نے دانستہ طور پر 202سروے سیکشن کو اس کھیل میں شامل کیا، تاکہ اس گھنونےکام میں آرمی کو شامل کیاجائے، اس رینک کے آرمی آفیسر کیلئے ایک نامناسب کام ہے۔‘‘ بیگ نے جنرل درانی پر یہ کہتے ہوئےسنگین الزامات عائدکیےہیں کہ وہ(درانی) پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے کافی قریب ہوچکے تھے کہ انھوں نے وردی میں پی پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگز میں شرکت کرنا شروع کردی تھی، یہ بات اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عبدالوحیدکو بھی بتائی گئی تھی، انھوں نےاس کےباعث انھیں فوری طورپر ریٹائر کردیا تھا۔ بیگ نے درانی پرمزید الزام لگایاکہ،’’ اکتو بر1993 میں جب بیظیربھٹو اقتدار میں واپس آئیں تو درانی کو سفیر کی نوکری کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول کرلی اور جرمنی جانے سے قبل ‘‘گیم پلان‘‘ پر بی بی سے بات کی، جس کا انکشاف خود درانی نے ہاتھ سے لکھے ہوئے اعترافی بیان میں کیا، یہ بیان بون سے وزیراعظم کو لکھا گیاتھا۔ اس خط میں وہ سازش کے دو مقاصد پر بات کرتے ہیں: جنرل بیگ کو ہٹانا اور اپوزیشن کو ٹار گٹ کرنا۔‘‘ اس خط میں درانی نے چند سیاستدانوں کے نام بھی دیے ہیں جنھوں نے8کروڑ روپے وصول کیے ۔ بیگ مزید کہتے ہیں باقی 6کروڑ روپے ڈائر یکٹر ایکسٹرنل انٹلیجنس (آئی ایس آئی) کو دے دیےگئے۔ وہ(درانی) مزید کہتے ہیں کہ آرمی کی ہائی کمانڈ کو آپریشن کے بارے میں پتہ تھا۔ جنرل بیگ نے دعویٰ کیاکہ درحقیقت آئی ایس آئی کی جانب سے الیکشن کی انجینیرنگ 1975سے کی جارہی تھے، اور ہر کسی کے علم میں تھی۔ جنرل بیگ مزید انکشاف کرتے ہیں کہ جنرل درانی نے عہدہ سنبھالتے ہی درخواست کی تھی کہ سندھ میں تعینات 202سروے سیکشن ان کے ماتحت کردی جائے تاکہ صوبے میں انٹلیجنس سے متعلق صیحیح تعاون کیاجاسکے۔ بریگیڈئیرحامد سعیدکے کمانڈ میں 202 سروے سیکشن کوایک سال کیلئےانٹلیجنس مقاصد کیلئےڈی جی آئی ایس آئی کےماتحت کردیاگیا۔ 88سالہ جنرل نے بتایا، ’’حکومت انتخابات کی تیاری کررہی تھی جب آرمی انٹلیجنس نے انھیں بتایاکہ الیکشن میں لوجسٹک سپورٹ کیلئے صدر کےالیکشن سیل کے احکامات پریونس حبیب نےکچھ فنڈ آئی ایس آئی کےحوالے کردیے ہیں۔ جنرل بیگ نے مزید کہا،’’لہذا میں صدرسے ملااور انھیں وہ خبر بتائی جو وہ پہلے سے جانتے تھے انھوں نے کہاکہ پریشان نہ ہوں درانی اسے سنبھال لےگا۔ وہ جانتا ہے کہ کیسے سنبھا لناہے۔ صدرنےمجھے کوئی احکامات نہ دیئےکیونکہ ان کا الیکشن سیل ان معاملات کو دیکھ رہاتھا۔ وہ (درانی)مجھے بھی رپورٹ نہیں کررہاتھا کیونکہ 1975کےبعد سے ایک نیا طریقہ کار اختیار کیاجارہاتھا، جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک خاص نوٹیفیکشن کے ذریعے ’سیاسی ذمہ داری‘ آئی ایس آئی کو سونپ دی تھی۔ اور ’یہ سیاسی ذمہ داری‘ کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی گئی تھی۔ یہ ہی وجہ تھی کہ 1990سے 1994تک میں آئی ایس آئی کی سیاسی ذمہ داری کے بارے میں بالکل کچھ نہیں جانتا تھا۔ بیگ نے یاد کیاکہ یہ جولائی 1994 تھا جب پی پی پی کے وزیرِ داخلہ میجرجنرل (ر) نصیراللہ بابر نےقومی اسمبلی میں یہ خبر سنائی کہ 1990 میں سیا ستدا نوں میں فنڈزتقسیم کیےگئےتھے۔ جنرل نے کہا،’’میں حیران اورپریشان تھالیکن اس کے بارے میں انکوائری نہ کرسکا کیونکہ درانی جرمنی میں بطور سفیر تعینات تھے اور 151- ہیڈکوارٹر میں اس لین دین کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔‘‘ اصغرخان نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں میرے خلاف ایک رٹ پٹیشن دائر کر دی تھی۔ ریٹا ئر جنرل نے دعویٰ کیاکہ،’’مجھے پتہ لگا کہ یہ سب اس وقت کے ڈائریکٹر ایف آئی رحمان ملک کی جانب سے ایک سازش تھی یہ بینظیربھٹوکےحکم پر کیاگیاجو کئی وجوہات کے باعث مجھ سےبغض رکھتی تھیں، (1) چونکہ میں جنرل ضیاءالحق کا ساتھی تھا جنھوں نے ان کے والد کو پھانسی پرلٹکایا، وہ مجھے قصوروار سمھتی تھیں۔ (2) وہ مانتی تھیں کہ میں نے صدراسحاق خان کی مدد کی تھی جنھوں نے 1990میں ان کی حکومت کو برطرف کیاتھا۔ (3) وہ مجھ پر 1991کے انتخابات میں دھاندلی کرانے کاالزام لگاتی تھیں۔‘‘ کس طرح بینظیربھٹوکا ذاتی بغض بدلے میں تبدیل ہوگیا، جنرل بیگ نے اپنے بیان میں بتایاکہ بینظیر بھٹو کا ذاتی بغض ایک سازش میں تبدیل ہور ہا تھااور ایک ’خاتون کے انتقام‘ کے طورپر سامنے آرہاتھا۔ درحقیقت 1988 میں جب انھوں نے اقتدار سنبھالاتو وہ مجھے مسلسل نفرت کرتی رہیں۔ جنرل بیگ نے مزید بتایاکہ رحمان ملک نے درانی کے ساتھ تعلقات بنائے ، جب وہ ڈی جی آئی ایس آئی (اگست1990 سے مارچ1992تک) تھے۔ جنرل بیگ نے انکشاف کیاکہ نصیراللہ بابر نے فائدہ اٹھانے والوں کے ناموں کی فہرست جولائی 1994میں قومی اسمبلی میں دکھائے۔ درانی اس اعتماد شکنی پر کافی پریشان ہوگئے تھے اور 31-10-1997کو عدالت میں جمع کرائے گئےحلف نامے میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ جنرل بیگ نے انکشاف کیاکہ چندہفتوں کے بعد رحمان ملک نے دوسری بارایک ٹائپ شدہ خط کےساتھ جنرمی کادورہ کیا جس میں آئی ایس آئی سے مبینہ طورپرفنڈ لینےوالوں کےنام تھے، اس پرجنرل درانی نے’’خاص حالات میں‘‘ دستخط کیےتھےیعنی دبائو کےتحت، کیونکہ یہ وہ فہرست تھی جو انھوں نے وزیراعطم بینظیربھٹو کو فراہم نہیں کی تھی۔ تاہم یہ سفارتی عہدے کا بدل تھا۔‘‘