اسلام آباد(ایوب ناصر بلال عباسی) مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے کہاہے کہ میرے خلاف مقدمات کی وجہ یہ ہے کہ میں نے سرجھکا کرنوکری کرنے سےانکار کردیا۔میراجرم یہ ہے کہ پرویزمشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنایا۔ اپنے گھر کی خبر لینے اور حالات ٹھیک کرنے پر اصرار کیا۔ خارجہ پالیسی کو قومی مفاد کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جس سے یہ تاثر لیاگیا کہ میرا وجود کچھ معاملات میں رکاوٹ بن رہا ہے اس لئے مجھے منصب ، پارٹی سے ہٹانا، عمر بھر کیلئے نااہل قرار دے ڈالنا اور سیاست کے عمل سے خارج کردینا ہی واحد حل سمجھا گیا۔ دھرنے کے دوران ایک ایجنسی کے سربرا ہ کاپیغام ملا،استعفیٰ دویالمبی رخصت،زرداری نے مشرف کے مارشل لاء کی توثیق کیلئے کہا ،بدھ کو پنجاب ہائوس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نوازشریف نے کہاکہ انیس سال پہلے بھی میرا قصور وہی تھا جو آج ہے اس وقت کسی پانامہ کا وجود تھا نہ آج کسی پانامہ کا وجود ہے۔ سابق وزیراعظم نے پریس کانفرنس کے دوران جو مسودہ پڑھ کر سنایا وہی مسودہ انہوں نے احتساب عدالت میں اپنے تحریری بیان کی شکل میں بھی پیش کیا۔سابق وزیراعظم نے کہاکہ میں پانامہ پیپرز کی بنیادپر بنائے گئے کھوکھلے ریفرنسز کی لمبی داستان کو ایک طرف رکھتے ہوئے مختصراً یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ مجھے ان مقدمات میں الجھانے کا حقیقی پس منظر کیا ہے؟ ان مقدموں، ان ریفرنسز ،میر ی نااہلی اور پارٹی صدارت سے فراغت کے اسباب و محرکات کو میں ہی نہیں، قوم بھی اچھی طرح جانتی ہے اورمقدمات کا کھیل کھیلنے والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرے نامہ اعمال کے اصلی جرائم کیا ہیں۔ نواز شریف نے کہاکہ 12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف نامی جرنیل نے آئین سے بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ جمالیا، ہر دور کے آمروں کوخوش آمدید کہنےوالے منصفوں نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔8 سال بعد تین نومبر 2007 کو اس نے ایک بار پھر آئین توڑا، ایمرجنسی کے نام پر ایک بار پھر مارشل لا نافذ کیا اورچیف جسٹس سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ساٹھ کے لگ بھگ جج صاحبان کو اپنےگھروں میں قید کردیا۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں اس طرح کی شرمناک واردات کی نظیر شاید ہی ملتی ہو۔سابق وزیراعظم نے کہاکہ ایک جمہوری جماعت کی حیثیت سے مسلم لیگ(ن) نے مشرف کے غیرآئینی اقدامات کے بارے میں واضح موقف اپنایا۔ 2013 کی انتخابی مہم میں اپنایہ موقف عوام کے سامنے رکھتے ہوئے ہم نےواضح طور پر کہاکہ حکومت قائم ہونے کی صورت میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 6 کی روشنی میں مشرف پر غداری کا مقدمہ قائم کیا جائےگا۔ حکومت قائم ہونے کے بعد توانائی کے بحران اوردہشتگردی پر قابو پانے کی اولین ترجیحات کے ساتھ ساتھ میری حکومت نے پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے کےلئے وکلا سے مشاورت کا آغاز کیا۔ مجھے مشورہ دیاگیا کہ اس بھاری پتھر کو اٹھانے کا ارادہ ترک کردوں، مجھے ایسے پیغامات بھی ملے کہ مشرف پرمقدمہ قائم کرنے سے اس کا تو شاید کچھ نہ بگڑے ،مگر میرے لئے بہت مشکلات پیدا ہوجائیں گی، ان مشورہ نما دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے میں اپنے ارادے پر قائم رہا۔انہوںنے کہا کہ اس سے بھی پہلے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آصف علی زرداری ایک اہم قومی سیاسی رہنما کے ہمراہ میرے پاس آئے اورکہا کہ ہمیں پارلیمنٹ کے ذریعے مشرف کے دوسرے مارشل لا یعنی نومبر 2007 کے اقدام کی توثیق کردینی چاہیے، زرداری نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ مصلحت کا تقاضا یہی ہے لیکن میں نے کہا کہ ہم 65 برس سے ایسی مصلحتوں سے کام لے رہے ہیں۔ انہی مصلحتوں نے جمہوریت کو اس قدر کمزورکردیا ہے کہ وہ سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتی ہے اب وقت آگیا ہے کہ آئین سے غداری کرنے والے ڈکٹیٹر کو indemnityدینے یعنی اس کے غیرآئینی اقدام کی پارلیمانی توثیق کرنے کے بجائے اسے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ اس سے پوچھا جائے کہ اس نے اپنا حلف کیوں توڑا ۔نواز شریف نے کہا کہ 2013 کےاواخر میں غداری کا مقدمہ قائم کرنے کا عمل شروع ہوتے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ آئین اپنی جگہ، جمہوریت کے تقاضے اپنی جگہ، پارلیمنٹ کی بالادستی اپنی جگہ، قانون کی حکمرانی اپنی جگہ اورپاکستان کے عوام کا منڈیٹ اپنی جگہ لیکن ایک ڈکٹیٹر کو عدالت کے کٹہرے میں لانا کوئی آسان کام نہیں۔ شاید قانون وانصاف کے سارے ہتھیار صرف اہل سیاست کے لئے بنے ہیں،جابروں کا سامنا ہوتے ہی ان ہتھیاروں کی دھار کند ہوجاتی ہے اورفولاد بھی موم بن جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہاکہ آپ کو وہ دن بھی یاد ہوگا جب جنوری 2014 میں ہائی ٹریزن کا ملزم گاڑیوںکے جلوس میں عدالت پیشی کےلئے اپنے محل سے نکلا اوراچانک کسی طے شدہ پلان کے تحت وہ راولپنڈی کےہسپتال پہنچ گیا جہاں وہ کسی پراسرار بیمار ی کا بہانہ کرکے ہفتوں قانون اور عدالت کی دسترس سے دور بیٹھا رہا۔ سیاستدانوں اور وزیراعظم کے منصب پر بیٹھنے والوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا اورآج بھی ہورہا ہے اس سے آپ بخوبی واقف ہیں لیکن کوئی قانون نہ تو غداری کےمرتکب کو ہتھکڑی ڈال سکا نہ اسے ایک گھنٹے کےلئے بھی جیل بھیج سکا۔اس کی نوبت آئی بھی تو اس کے عالی شا ن محل نما فارم ہائوس کو سب جیل کا نام دے دیا گیا۔ نوازشریف نے کہا کہ میں اس فورم پر اس کھلی عدالت کے سامنے پوری تفصیل بتانے سے قاصر ہوں کہ مشرف پر مقدمہ قائم کرنے اور اس کارروائی کو آگے بڑھانے پر قائم رہنے کی وجہ سے مجھے کس کس طرح کےدبائو کا نشانہ بننا پڑا۔ اس کے باوجود جب میرے عزم میں کوئی کمزور ی نہ آئی تو 2014 کے وسط میں انتخابات میں نام نہاد دھاندلی کا طوفان پوری شدت سے اُٹھ کھڑا ہوا، مصدقہ رپورٹس کے مطابق اس طوفان کے پیچھے بھی یہ محرک چھپا تھا کہ مشرف کے معاملے میں مجھے دبائو میں لایاجائے۔ میں دھرنوںسے صرف دوماہ قبل مارچ 2014 میں اپنے دو رفقا کے ہمراہ بنی گالہ میں عمران خان سے ملا تھا۔ یہ ایک خوشگوار ملاقات تھی، انہوں نے دھاندلی کے موضوع پر کوئی با ت کی نہ ہی کسی احتجاجی تحریک کااشارہ دیا لیکن ادھر پرویز مشرف کے مقدمے میںتیزی آئی اور ادھر اچانک لندن میں طاہر القادری اور عمران خان کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کےبعد بظاہر دھاندلی کو موضوع بنا کر اسلام آباد میں دھرنوں کا فیصلہ کیاگیا، ان دھرنوں کامنصوبہ کیسے بنا، طاہر القادری اورعمران خان کیسے یکجا ہوئے ،کس نے ان کے منہ میں وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ ڈالا اور کون چار ماہ تک مسلسل ان کی حوصلہ افزائی کرتا رہا، یہ باتیں اب کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں رہیں۔ عمران خان خود کھلے عام یہ اعلان کرتے رہے کہ بس امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے ۔ کون تھا وہ امپائر؟ وہ جو کوئی بھی تھا اس کی مکمل پشت پناہی ان دھرنوں کو حاصل تھی۔ اس تماشے نے ملک و قوم کو شدید نقصان پہنچایا لیکن اصل مقصد ایک ہی تھا کہ مجھے وزیراعظم ہائوس سے نکال دیاجائے تاکہ مشرف کے خلاف مقدمے کی کارروائی آگے نہ بڑھ سکے۔ان کا خیال تھا کہ اس شدید اورطویل یلغار سے میرے اعصاب جواب دے جائیں گے اور میں خود کو بچانے کےلئے ہر طرح کے کمپرو مائز پر آمادہ ہو جائوں گا۔ بلا شبہ یہ ایک سوچا سمجھا اور نہایت ہی سخت حملہ تھا، ایسے دن بھی آئے کہ وزیراعظم ہائوس میں داخل ہونے اور باہرجانے والے راستوں پر شرپسندوں نے قبضہ کرلیا۔ اعلان کئے گئے کہ وزیراعظم کے گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹتے ہوئے باہر لائیں گے لیکن میں اللہ کی تائید و حمایت پر بھروسہ کرتے ہوئے ڈٹا رہا۔ نواز شریف نے بتایا کہ دھرنوں کےذریعے مجھے یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ مشرف پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ انہی دنوں ایک ایجنسی کے سربراہ کا پیغام مجھ تک پہنچایا گیا کہ میں مستعفی ہوجائوں اوراگر یہ ممکن نہیں تو طویل رخصت پرچلاجائوں۔ اس پیغام سے بے حد دکھ پہنچا، مجھے رنج ہواکہ پاکستان کس حال کو پہنچ گیا ہے۔ عوام کی منتخب حکومت اور اس کے وزیراعظم کی بس اتنی ہی توقیر رہ گئی ہے کہ اس کے براہ راست ماتحت ادارے کا ملازم اپنے وزیراعظم کومستعفی ہونے یا چھٹی چلے جانے کا پیغام بھجوا رہا ہے ، شاید ہی تیسری دنیا کے کسی ملک میں بھی اتنی افسوسناک صورتحال ہو۔ میرے مستعفی ہونے یا طویل رخصت پر چلے جانے کا مطالبہ اس تاثر کی بنیاد پر تھاکہ نوازشریف کو راستے سے ہٹا دیاگیا تو مشرف کے خلاف مقدمے کو لپیٹنا بھی مشکل نہیں رہے گا۔ نواز شریف نے کہا کہ میں اپنے اقتدار اور اپنی ذات کو خطرے میں ڈال کر کیوں بضد تھا کہ ایک ڈکٹیٹر کو اپنے کئے کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ صرف اس لئے کہ آمریتوں نے پاکستان کے وجود پر بڑے گہرے زخم لگائے ہیں۔ آئین شکنی یا اقتدار پر قبضے کا فیصلہ چند افراد کرتے ہیں لیکن اس کی قیمت پورے ادارے کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ دفاع وطن کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ہی 1998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کو دو ٹوک اورٹھوس جواب دینے کا فیصلہ کرنے میں، میں نے چندگھنٹوں کی تاخیر بھی نہیں کی تھی۔ مجھے عالمی طاقتوں کی طرف سے نصف درجن فون آئے5 ارب ڈالر کا لالچ دیاگیا لیکن میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو سربلند دیکھنا چاہتاتھا، میں نےوہی کیا جو پاکستان کےمفاد میں تھا۔ مجھے پاکستان کی سربلندی ، پاکستان کا وقار ، پاکستان کا افتخار اور پاکستان کی عزت وعظمت ،اربوں کھربوں ڈالر سے کہیں زیادہ عزیزتھی۔نواز شریف نے کہا کہ آئین شکنی کرنے اور اقتدارپر قبضہ کرنے والے کا محاسبہ کرنا،آئین اور جمہوریت ہی کا نہیں سب کے وقار وتقدس کا بھی تقاضا ہے۔ انہی محرکات کے پیش نظر پرویز مشرف پرغداری کامقدمہ چلانا ضروری خیا ل کیاگیا۔ نواز شریف نے کہا کہ اب تک ریفرنسز کی حقیقت آپ پر کھل چکی ہوگی، استغاثہ کا کوئی گواہ میرے خلاف اپنے الزامات کا کوئی ادنیٰ ساثبوت بھی پیش نہیں کرسکا ،اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ استغاثہ کے گواہوں نے بھی عملاً میرے موقف کی تصدیق کی ہے، پانامہ پیپرز میں دنیا کے کئی ممالک کے ہزاروں افراد کے نام آئے ہیں، مجھے معلوم نہیں کہ ساری دنیا میں ان پیپرز کی بنیاد پر کتنے افراد کے خلاف مقدمے بنے، کتنے افرادکو سزائیں ملیں، کتنے وزرائے اعظم یا صدورکو معزول کیاگیا اورکتنے عمر بھر کے لئے نااہل قرار پائے، پانامہ کے نام پر یہ سب کچھ صرف ایک ایسے شخص کے خلاف ہوا جس کا پانامہ میں نام تک نہ تھا، اس شخص کا نام نواز شریف ہے،سابق وزیراعظم نے کہاکہ کیا آج سے 19 سال قبل یہ سب کچھ’’ پانامہ‘‘ کی وجہ سے ہورہا تھا؟کیا میرے ساتھ یہ سلوک لندن فلیٹس کی وجہ سے کیا جارہا تھا؟ نہیں جناب والا! انیس بیس سال پہلے بھی میرا قصور وہی تھا جو آج ہے، نہ اس وقت کسی پانامہ کا وجود تھا نہ آج کسی پانامہ کا وجود ہے۔ اس وقت بھی میں عوام کی حاکمیت اور آئینی تقاضوں کے مطابق حقیقی جمہوریت کی بات کررہا تھا آج بھی یہی کررہا ہوں، اس وقت بھی میرا کہنا یہ تھا کہ داخلی اورخارجی پالیسیوں کی باگ ڈورمنتخب عوام کے ہاتھ میں ہونی چاہیے آج بھی میں یہی کہتا ہوں کہ فیصلے وہی کریں جنہیں عوام نے فیصلے کا اختیار دیا ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ مجھے ہائی جیکر کہیں یاکچھ اور سسلین مافیا کہیں یا گاڈ فادر، وطن دشمن کہیں یا غدار ،مجھے کسی نام ،کسی لقب سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ میری صداقت اور امانت پر سوال اٹھائیں مجھے کچھ فرق نہیں پڑتا، میں پاکستان کا بیٹا ہوں اور اس مٹی کاایک ایک ذرہ مجھے اپنی جان سے بھی پیارا ہے، کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا میں اپنی حب الوطنی کی توہین سمجھتا ہوں، ممکن ہے مجھے حکومت سے بے دخل کرنےاور نااہل قرار دینے سے کچھ لوگوں کی تسکین ہوگئی ہو لیکن کوئی بتا سکتا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت،پاکستان کے آئینی نظام اور پاکستان کے احترام و وقار کوکیا ملا؟ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کتنی بہتر ہوئی اور سب سے بڑا سوال یہ کہ اس فیصلے سے خود پاکستان کی عدلیہ اورپاکستان کے نظام قانون و انصاف کوکیا ملا؟ جس طرح 2013 کے پاکستان اورجولائی 2017 تک کے پاکستان کا موازنہ کیا جانا چاہیے، اسی طرح 28 جولائی 2017 یعنی عدالتی فیصلے کے دن اور اس کے بعد کے دس مہینوں کا جائزہ بھی ضرور لیناچاہیے، یقیناان دس مہینوں نےنہ صرف آگےبڑھتے ہوئے پاکستان کے قدموں میںزنجیریں ڈال دیں بلکہ کئی شعبوں میں اسے پیچھے بھی دھکیل دیا۔ پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں بھی کوئی ایسی نظیر ملتی ہے؟ اسی فیصلے کی بنیاد پر آپ کی عدالت میں یہ ریفرنس چل رہے ہیں میں ان ریفرنسز میں 70 سےزائد پیشیاں بھگت چکا ہوں، کیا پاکستان میں بڑے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے والا کوئی ایک بھی ایسا شخص ہے جس نے اتنی پیشیاں بھگتی ہوں؟ نواز شریف نے مزید کہاکہ 28 جولائی 2017 کے فیصلے پر عوامی رد عمل بھی آچکا ہے، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ جس پٹیشن یادرخواست کو دوبار لغو،فضول اور ناکارہ قرار دیا ہو وہ اچانک معتبر ہوجائے؟ کیا کبھی اس طرح کے معاملات کی چھان بین کےلئے جے آئی ٹی بنی ہے؟ کیا کبھی اس طرح کے معاملات میں ایجنسیز کو جے آئی ٹی کا حصہ بنایا گیا؟ کیا کبھی جے آئی ٹی کے ارکان کے انتخاب کےلئے خفیہ طور پر وٹس ایپ کالز کی گئیں اورمخصوص افراد کو اس میں ڈالنے کے لئے دبائو ڈالا گیا؟ کیا آج تک سپریم کورٹ کے کسی بنچ نے جے آئی ٹی کے کام کی نگرانی کی ہے؟ کیا کسی بھی پٹیشنر نےاپنی پٹیشن میں کسی دبئی کمپنی اور میرے اقامے کی بنیاد پر مجھے نااہل قرار دینے کی درخواست کی تھی؟ کیا کوئی عدالت ملک کے واضح قانون اورضابطوں کی موجودگی اورکسی لفظ کی قانونی تشرح ہوتے ہو ئے اس لفظ کی من مانی تعبیر کےلئے کسی گمنام ڈکشنری کا سہارا لے سکتی ہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ایک ہی مقدمے میں کبھی دو کبھی تین اورکبھی پانچ ججوں کے کئی فیصلے سامنے آئیں؟