• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوست! تم نے تو روزہ رکھا تھا، پھر....

ردا فاطمہ ،میر پور خاص

حاشر اچانک واٹر روم میں آیا اور اپنے عزیز دوست صائم کو پانی پیتا دیکھ کر حیران رہ گیا، کیوں کہ صائم نے صبح ہی حاشر کو بتایا تھا کہ آج اس کا روزہ ہے۔ حاشر نے صائم کو آواز دیتے ہوئے کہا، ’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘

صائم، جو سب سے چھپ کر پانی پی رہا تھا، حاشر کی آواز سن کر گھبرا کے پلٹا۔

’’تم پانی پی رہے ہو صائم!‘‘ حاشر کے لہجے میں افسوس واضح تھا۔

’’نن نہیں تو ...میں وہ … میں تو بس یونہی کْلی کر رہا تھا‘‘صائم نے گھبراہٹ چھپاتے ہوئے جواب دیا۔

حاشر کو جسے اپنے سب سے اچھے دوست کے روزہ نہ رکھنے پر افسوس تھا، وہ اس کے جھوٹ بولنے پر، کچھ کہے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ صائم سمجھ گیا کہ، حاشر اس کا جھوٹ جان گیا ہے۔

اسی لیے صائم پریشان ہو گیا کہ، اب مزید اس جھوٹ کو کیسے قائم رکھے یا سچ بتائے تو آخر کس طرح۔ وہ اسی پریشانی میں پورا دن حاشر سے بات نہیں کر سکا۔ گھر واپس آنے کے بعد بھی اس کا موڈ خراب تھا۔ وہ ایک کونے میں بیٹھا رو رہا تھا۔

’’حاشر بیٹا، کیا بات ہے آپ کیوں رو رہے ہیں؟‘‘حاشر کی امی نے اس کے سر پے شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔

’’ممی جانی مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے‘‘ یہ کہہ کر حاشر اپنی امی سے لپٹ گیا۔

’’کیوں کیا ہوا ہے میرے شہزادے کو؟‘‘ انہوں نے حاشر کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔

’’ممی جانی آج میں نے ہاف ٹائم کے بعد صائم کو پانی پیتے دیکھا۔ جب کہ صبح اس نے کہا تھا کہ، اس کا روزہ ہے۔ اور جب میں نے اس سے پوچھا تو اس نے مجھ سے جھوٹ بول دیا کہ، وہ کلی کر رہا ہے۔ ممی جانی اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں سے کتنا ناراض ہوتا ہے ناں! پھر رمضان کا مہینہ تو خود کو نفس کی خواہشات سے روکنے اور اس کے حکم کو پورا کرنے کا ہوتا ہے، ہمیں برے کاموں کے علاوہ کھانے پینے سے بھی بچانا چاہیے... زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنی چاہیں ... ممی جانی میں کیا کروں؟‘‘ حاشر، اب افسوس اور دکھ کی ملی جلی کیفیت میں اپنی ماں کی جانب دیکھ رہا تھا۔

حاشر کی امی اس کی طرف دیکھ کر آہستہ سے مسکرائیں اور کہنے لگیں کہ، ’’بیٹا، غلطیاں تو سب سے ہوتی ہیں، لیکن اس طرح افسوس کرنے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ غلطی کرنے والے کو پیار سے نیکی کا سبق سکھا کر برائی سے روکا جائے۔ آپ کو بھی یہی کرنا چاہیے۔ صائم کو پیار سے رمضان کی فضیلت کے بارے میں بتائیں، اس کو نیکی اور برائی میں فرق سمجھائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی بھلائی کے لئے اللہ سے ہر نماز میں دعا بھی کریں .. چلیں اب اٹھیں شاباش نماز پڑھیں اور پھر دل سے دعا کریں‘‘۔

’’ممی جانی دل سے دعا کیسے کرتے ہیں؟‘‘

’’بیٹے جانی، دل سے دعا کا مطلب یہ ہوتا ہے کے پورے خلوص سے دعا کی جائے، ایسی دعا جلدی اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے۔‘‘ حاشر خاموشی سے وضو کرنے چلا گیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ دعا کے ساتھ ساتھ کوشش بھی کرنی ہے۔

حاشر نے اگلے روز بھی صائم سے کوئی بات نہیں کی، وہ اب بھی اس سے خفا تھا۔ صائم سے حاشر کی یہ خاموشی برداشت نہیں ہو رہی تھی، وہ کئی بار اسے بہانے بہانے سے بلانے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، تو صائم معافی مانگنے کا فیصلہ کر کے اس کی برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا۔

’’حاشر‘‘صائم نے حاشر کو پکارا تو وہ اس کی جانب متوجہ ہوگیا۔

’’میں نے تم سے جھوٹ کہا تھا، مجھے معاف کر دو پلیز‘‘صائم شرمندگی سے نظریں جھکائے معافی مانگ رہا تھا۔

حاشر نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا کہ، ’’دیکھو صائم اگر یہ معافی تم اس لئے مانگ رہے ہو کہ، میں تم سے بات کر لوں تو اس کا فائدہ نہیں اور اگر اس لئے مانگ رہے ہو کہ، تم واقعی جھوٹ بولنے اور روزہ توڑنے پر شرمندہ ہو تو مجھ سے نہیں اللہ سے معافی مانگو، کیوں کہ روزہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے، روزہ صرف بھوک پیاس کا نام نہیں ہے، میرے دوست یہ تمام برائیوں سے خود کو بچانے کا نام بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنے بندے کو بھوکا پیاسا رکھے، جب وہ برائی سے دور ہی نہ ہو، پھر تم نے تو روزہ صرف اپنے گھر والوں کو مطمئن کرنے کے لیے رکھا۔ تمہیں اندازہ ہے اس کا کتنا سخت گناہ ہے، اللہ کتنا ناراض ہوگا۔ جب تم نے روزہ نہیں رکھا اور پھر جھوٹ بولا۔ یہ برکتوں والا مہینہ ہے، اس مہینے میں شیطان بند کردیئے جاتے ہیں، تاکہ مسلمان زیادہ سے زیادہ نیکیاں کما سکیں اور تم…‘‘ صائم کی آنکھوں سے آنسو نکل کر حاشر کی ہتھیلی پر گر رہے تھے۔ ’’تم جانتے ہو کتنے قسمت والے ہوتے ہیں، وہ لوگ جو اس مہینے کے طفیل برکتیں اور رحمتیں سمیٹتے ہیں۔ ممی جانی کہتی ہیں کہ، ہمیں اپنے روزوں کو ہر برائی سے پاک رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہو اور ہم سے راضی ہو جائے‘‘

اس وقت صائم کو حاشر بہت سمجھدار لگ رہا تھا۔

’’حاشر میں بہت شرمندہ ہوں، اب میں اللہ تعالیٰ کو کیسے راضی کروں؟‘‘ حاشر مسکرایا، اور کہنے لگا کہ، ’’اللہ سے خلوصِ دل سے رو رو کے معافی مانگو اور آئندہ روزہ گھر والوں کو دکھانے کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لیے رکھنا‘‘ حاشر نے محبت سے صائم کی طرف دیکھا،

’’ہاں ٹھیک ہے حاشر میں سمجھ گیا ہوں، شکریہ میرے دوست میں کل سے روزے پوری ایمانداری سے رکھوں گا اور اللہ سے بھی معافی مانگوں گا‘‘ صائم پُرعزم تھا۔

آج حاشر بہت خوش اور سکون محسوس کر رہا تھا۔ اس نے دعا کے ساتھ نیکی کا کام بھی کیا، اپنے دوست کی اصلاح کی۔

پیارے بچو! آپ نے دیکھا کہ حاشر نے اپنے دوست کو اس کی برائی کا احساس کس طرح دلایا اور اس کے سمجھانے پر صائم نے فوراً اپنی غلطی کو تسلیم بھی کی اور توبہ بھی کرلی، تو بچو آپ بھی حاشر کی طرح جب کبھی کوئی برائی دیکھیں تو اسے دعا اور کوشش سے دور کریں۔

تازہ ترین
تازہ ترین