آئیے تین امکانات پر غور کریں۔ فرض کریں پی ایم ایل (ن) انتخابی معرکہ ہارجاتی ہے اورپی ٹی آئی جیت کر حکومت بنا لیتی ہے ۔دوسرا، پی ایم ایل (ن) جیت کر حکومت بنالیتی ہے ۔ تیسرا امکان یہ کہ کوئی بھی مرکزی جماعت اکثریت حاصل نہیں کرپاتی اور سنجرانی ماڈل کی طرز پر کوئی شخص وزیراعظم بن جاتا ہے، یا بنا دیا جاتا ہے ۔ یہ تینوں امکانات ہمیں ایسی صورت ِحال کی طرف لے جاتے ہیں جہاں ہمیں ایک بنیادی سوال سے نمٹنے کی ضرورت رہے گی۔ سوال یہ کہ اس ملک کو کیسے چلایا جائے ، اور کسی کو اس کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟جس گھڑی ہم یہ کہتے ہوئے نجات دہندہ کے تصور کی طرف بڑھتے ہیںکہ گورننس میں خلاموجود ہے تو ہم اُن قوتوں کو وہ کام کرنے کا کہہ رہے ہوتے ہیں جو اُن کے کرنے کا نہیں۔ ہمارے ہاں یہ خلاہے کہ پورا ہونے کا نام نہیں لیتا۔
نواز شریف کو صادق اور امین نہ ہونے کی پاداش میں تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا ۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ ملکی خزانہ لوٹ کر باہر لے گئے ،وہ اور اُن کا خاندان ٹیکس دہندگان کو نقصان پہنچا کر اپنی دولت میں اضافہ کرتا رہا۔ نواز شریف کی مذمت کی گئی کیونکہ وہ تقاریر میں جج حضرات اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہیں۔ اس وقت پہلا احتساب مقدمہ اپنے اختتام کے قریب ہے ۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ اس کا نتیجہ نوازشریف کے حق میں نہیں آئے گا۔ اس کے علاوہ نیب نواز شریف اور پی ایم ایل (ن) کے دیگر کئی ایک قائدین کے خلاف تحقیقات کررہا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ قسمت کی دیوی ن لیگ پر مہربان نہیں ۔
بہت سے الیکٹ ایبلز، جنہوں نے پی ایم ایل (ن) کے عروج کے زمانے میں نواز شریف کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا تھا، نے پی ٹی آئی کی صفوں میں شمولیت اختیار کر لی ہے ۔ وہ افراد جو کسی بھی جمہوری حکومت سے پہلے سیاسی اصطبل کی صفائی چاہتے ہیں(گویا وہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے وسیع ترکردار کو ضروری سمجھتے ہیں) بھی پی ایم ایل (ن) کے مخالف اور پی ٹی آئی کے حامی ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ہوا پی ٹی آئی کے موافق ہے ۔
اگر پی ٹی آئی کو اقتدار مل جاتا ہے تو یہ ایگزیکٹو پر کتنا کنٹرول رکھے گی؟کیا یہ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی پالیسی کا تعین کرسکے گی؟کیا اس کی پالیسی چوائس کے متعلق فیصلوں کو عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جائے گا؟کیا اس کے دورمیں ایگزیکٹو کی طرف سے کی گئی تقرریوں پر نظر ِ ثانی نہیںکی جائے گی ؟ کیا نیب اس کے وزرا کے تعاقب میں نہیںہوگا؟ چنانچہ اگر پاکستان کے عوام ایک’’ صاف ستھری، دھلی دھلائی پارٹی‘‘ کا انتخاب کرلیتے ہیں، تو کیا اس کا ایگزیکٹو اپنی مرضی سے ریاست کی اتھارٹی کو استعمال کرسکے گا، اور کیا غیر نمائندہ ادارے اسے ایسا کرنے دیں گے ؟
دوسراامکان (خدا نہ کرے) یہ کہ پاناما نااہلی ، سپریم کورٹ کے قانونی شکنجے ، چوبیس گھنٹے میڈیا ٹرائل ، نیب کی تحقیقات، الیکٹ ایبل کی پرواز اور نوازشریف اینڈ کمپنی کو ریاست اور اس کے اداروں کا دشمن قرار دینے کی مہم کے باوجود پی ایم ایل (ن) انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اگر شریفوں کی انتہائی کردار کشی کے باوجود پاکستانی عوام پی ایم ایل (ن)کو ووٹ دیتے ہیں تو کیا اُن کے اس ’’غیر ذمہ دارانہ مینڈیٹ ‘‘ کا احترام کیا جائے گا؟ اگر شریفوں کے عدالت، اور میڈیا میں ہونے والے ٹرائل کوخاطر میں نہ لاتے ہوئے عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے اُن کا احتساب کرنا مناسب نہ سمجھا تو کیا غیر منتخب شدہ ادارے عوام کی رائے کو خاطر میں لائیں گے ؟
کیا کچھ حلقے ایسے نتیجے کو پاکستان اور اس کے قومی مفادات کے خلاف عالمی سازش کی کارستانی قرار نہیں دے گی؟کیا وہ یہ نتیجہ نہیں نکالے گی کہ لوگوں کو یہ بتانا کہ وہ کس کوووٹ نہ دیں، معکوس ردعمل کا باعث بنتا ہے کیونکہ انسانی فطرت پابندی قبول نہیں کرتی؟اگر عوام ایک ایسی جماعت کی حمایت کرتے ہیں جسے تواتر سے آلودہ قرار دیا جارہا تھا، اور اس دوران عوام کو سمجھایا جارہاتھا کہ وہ ’’ایماندار ‘‘ نمائندوں کو منتخب کریں، تو کیا کچھ حلقے قومی مفاد کو ملحوظ ِخاطر رکھتے ہوئے عوام کے غلط فیصلے کا مداواکرنے کے لئے حرکت میں نہیں آئے گی؟یا پھر جو کام عوام نہ کرسکے ، اُسے قانونی احتساب کے ذریعے کیا جائے گا؟
2018 ء کے انتخابات میں تیسرا امکان سنجرانی ماڈل کا ہے ۔ کوئی بھی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعت حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرسکے اور شریف النفس آزاد نمائندے کسی نیک جماعت کا ساتھ دینے کے لیے راضی ہوجائیں، بشرطیکہ اُنہیں کچھ اہم وزارتیں اور عہدے دے دئیے جائیں۔ کیا یہ صورت ِحال ٹینکوکریٹس بندوبست کے قریب تر نہ ہوگی؟ کیا ’’جمہوریت سے پہلے احتساب ‘‘ کا نعرہ لگانے والے یہی نہیں چاہتے ؟کیا ایسا اجتماع ہماری منقسم سیاسی ساخت کی رہنمائی کرپائے گا؟کیا ایسا بندوبست پائیدار ہوگا؟ یا پھر ہم ایک بار پھر وزیر ِاعظم اور وزراء کو میوزیکل چیئر کھیلتے دیکھیں گے ؟
پاکستان کو لاتعداد چیلنجز کا سامنا ہے ۔ مشکلات کے گرداب سے نکلنے کے لیے ہمیں ایسے ایگزیکٹو کی ضرورت ہے جو معاملہ فہمی اور مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، اور اُس کے پاس فیصلوں کے نفاذ کا اختیار بھی ہو۔ اگر پی ایم ایل (ن) کے اقتدار میں آخری سال سے کوئی سبق حاصل ہوتا ہے تو وہ یہ کہ اگر اقتدار سے ذمہ داری کو الگ کردیا جائے تو نہ کارکردگی باقی رہتی ہے اور نہ احتساب۔ پی ایم ایل (ن) کے حوالے سے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چلیں وہ کارکردگی دکھانے کے قابل تھی ہی نہیں، لیکن ایک نکتہ اپنی جگہ پر موجود ہے ۔ احتساب کے لیے ذمہ داری اور اختیار کا ایک جگہ پر ہونا ضروری ہے ۔
ایک نظام جو ذمہ داری سونپ دے لیکن اختیار نہ دے، وہاں احتساب کس طرح ہوگا؟سنجرانی ماڈل ایک حقیقی امکان کے طور پر موجود ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے ابھی بنیادی سبق نہیں سیکھا کہ نظام کس طرح چلتے او ر فعال ہوتے ہیں۔ امید اور تبدیلی (اور احتساب ) کی شمع روشن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم چہرے تبدیل کرتے ہوئے ان کا تاثر دیتے رہیں۔ یہ شعبدے بازی محب وطنوں کی کھیپ تیار کرتی ہے ، کیونکہ وہ اسے اپنے لیے ساز گار پاتے ہیں۔ لیکن مسائل پر نظر رکھنے والے حقیقت پسند اور دنیا جانتی ہے کہ یہ نظام کام نہیں دے گا۔
سنجرانی ماڈل کی ناکامی ایک مرتبہ پھر ہمیں اسی مقام پر لے آئے گی جہاں کہا جائے گاکہ عوام کے منتخب نمائندوں کو موقع دینا چاہیے ۔ یا پھر اس نظام کو لپیٹ کر اس کی جگہ بظاہر جمہوری دکھائی دینے والا نظام قائم کیا جائے گا۔ اس نظام میں ایگزیکٹو کا کردار ایک طاقتور شخصیت ادا کررہی ہوگی جو طاقت کے بل بوتے پر لوگوں کی مسیحائی کرے گی۔ اور یہ ہمارے ہاں کوئی نیا تجربہ نہ ہوگا۔ جب اُس طاقتور نجات دہندہ کا ہنی مون پیریڈ ختم ہوگا تو ملک میں حقیقی جمہوریت کی طرف واپسی کے نعرے بلند ہورہے ہوں گے ۔ گویا ہم دائرے سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
نجات دہندہ کے اس ماڈل کے پیچھے خلا کی تھیوری موجود ہے،اور اس سے دل کو کافی تسکین ملتی ہے ۔ لیکن کیا اس نے کبھی ہماری مسیحائی کی ہے ؟ کیا کوئی مثال موجود ہے ؟درحقیقت نجات دہندہ کا ماڈل اپنی بنیادی خامیوں سے نجات نہیں پاسکتا۔ یہ وہ ماڈل ہے جس میں بے پناہ اختیار موجود ہے لیکن نہ کوئی ذمہ داری ہے اور نہ احتساب ۔ یہ نظام خرابیوں کی نشاندہی کرتا ، اور سابق جمہوری حکومت کو ہدف تنقید بناتا ہے لیکن ان خرابیوں کو ٹھیک نہیں کرپاتا۔ درحقیقت اس کی بنیاد ہی الزام تراشی پر ہے ۔ جب تک نجات دہندہ کسی کی طرف انگشت نمائی کرتا رہتا ہے ، لوگوں کی امید زندہ رہتی ہے کہ مسائل سامنے آگئے ہیں، اب ان کا حل بھی نکلے گا۔ لیکن احتساب کے بغیر اختیار کی وجہ سے وہ نجات دہندہ مسائل کے حل کی بجائے مسائل کا باعث بنتا دکھائی دیتا ہے ۔
رونلڈ ڈورکن ’’Rights Thesis‘‘ میں اصولوں اور پالیسیوں کے درمیان فرق کی وضاحت کرتے ہیں ۔ اصولوں کی بنیاد پر حقوق کا موازنہ ناانصافی کا باعث نہیں بنتا۔ مثا ل کے طور پر آزادی ٔ اظہار کی طاقت کو دوسرے شخص کی عزت اور وقار کو تحفظ دے کر متوازن کردیا جاتا ہے ۔ دوسری طرف اگر اصولوں کا موازنہ پالیسی کے ترازومیں کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ناانصافی سامنے آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پالیسی طریق کار کی مرہون منت نہیں ہوتی، اور طریق کار کے بغیر آپ جواز ثابت نہیں کرسکتے ہیں۔
نجات دہندہ کا ماڈل بنیادی حقوق، آزادی اور خودمختاری کو سلب کرتا ہے کیونکہ اس کے سامنے اپنے اصولوں پر مبنی پالیسی ہوتی ہے ۔ آپ اس پالیسی کو قومی مفاد یا سیکورٹی ، یا جو مرضی نام دے لیں۔ اس پالیسی کا جواز فراہم کرنے کے لیے اُسے عوامی مقبولیت درکار ہوتی ہے۔ وہ اسے حاصل کرنے کے لئے جذبات سے کھیلتا ہے ۔ ایک مقبول عام فیصلہ یا پالیسی ضروری نہیں کہ انصاف کے اصولوں کے مطابق ہو۔ چنانچہ عوامی مقبولیت کی تلاش مزید تباہی کا باعث بنتی ہے ۔ نجات دہندہ کے پاس یہ دلیل ہوتی ہے کہ ’’اچھے نتائج کے لیے مشکوک طریق کاراختیار کیا جاسکتا ہے ۔‘‘یہی وجہ ہے کہ اسے ہمہ وقت کسی نہ کسی قربانی کے بکرے کی تلاش رہتی ہے ۔
جب اس کے نتیجے میں اختلافی آوازیں ابھرنے لگتی ہیں تو نجات دہندہ کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے ۔ وہ عدم برداشت پر اتر آتاہے ۔آئینی اصول کی بجائے عوامی مقبولیت پر تکیہ کرنے والے ہمیشہ اس کے ہاتھوں یرغمال بن جاتے ہیں۔
یہ ہمارا دیکھا بھالا کھیل ہے ۔ پہلے نجات دہندہ کی ضرورت کا احساس دلانا، پھر اس کے لیے عوامی مقبولیت کو بھڑکانا، لیکن پھرخوش فہمی دور ہونے کے بعد ابھرنے والی اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے جبر کا سہارا لینا ۔ آخر کا ر یہ نظام اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کی دھن میں اپنا وزن اتنا بڑھا لیتا ہے کہ اپنے بوجھ کی وجہ سے خود ہی منہدم ہوجاتا ہے ۔ہم نے بار ہا یہ تجربے کیے ، اور ہر بار ایک ہی نتیجہ نکلا ۔ آئن اسٹائن نے پاگل پن کی یہی تعریف کی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)