دُنیا بھر میں مقیم تارکین وطن پاکستانی جہاں اُن ممالک کی مقامی سیاست اور اُتار چڑھائو پر نظر رکھتے ہیں بالکل اُسی طرح وہ اپنے وطن عزیز میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں، قومی انتخابات اور معاشی و اقتصادی حالات کے بدلتے ہوئے معاملات میں بھی گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانی دیارِ غیر سے اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹی کی کامیابی کے لئے ووٹ مانگنا، پارٹی کو فنڈز بھیجنا اور پاکستان کے جن شہروں یا دیہات سے اُن کا تعلق ہے اُن شہروں اور دیہات میں اپنی پسند کے اُمیدوار کو صوبائی اور قومی اسمبلی کا ٹکٹ دلانے میں اپنا کردار ادا کرنا فرض سمجھتے ہیں، یہ کہنا قطعاً غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں رہنے والوں سے کہیں زیادہ محبت اور جذبہ حب الوطنی تارکین وطن پاکستانیوں میں پایا جاتا ہے، تارکین وطن پاکستانیوں کے ساتھ پاکستان کے ایئر پورٹس پر خواہ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک ہو یا دوسرے ممالک میں قائم پاکستانی سفارت خانوں میں اُن کی تذلیل ہو اِس کے باوجود اوورسیز پاکستانی اپنی دھرتی ماں سے بہت پیار اور لگاؤ رکھتے ہیں۔ تارکین وطن پاکستانیوں کی ایک اور عادت جو حیران کن حد تک دیکھنے میں آئی ہے یہ کہ پاکستان سے آنے والے مہمانوں کی خدمت تو کرتے ہی ہیں لیکن جب کوئی سیاسی قائد، ایم پی اے یا ایم این اے بطور مہمان اِن کے پاس آئے تو اُس کی خدمت ایک دوسرے سے بڑھ کر کرنا، مہمان کے اعزاز میں ظہرانے، عشائیے اور کنونشن ترتیب دینا، اُن محافل میں پاکستانیوں کی کثیر تعداد کی شمولیت یقینی بنانا، تصاویر، سیلفیاں اور ٹیلی فون نمبرز کا تبادلہ کرنا۔ یہی نہیں بلکہ مہمان کو اپنے مخالف گروپس سے چھپائے رکھنا بھی میزبانی کے فرائض میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ مہمان ایم پی اے یا ایم این اے کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو اُس کے اعزاز میں دی جانے والی پارٹیوں میں تمام سیاسی جماعتوں کے عہدیداران شامل ہوتے ہیں، اُس وقت شرکاء یہ نہیں سوچتے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین پاکستان میں ایک دوسرے پر بیانات کا کتنا کیچڑ اُچھال رہے ہیں۔ پاکستان میں2018کے قومی انتخابات کی آمد آمد ہے، سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اپنے اُمیدواروں کو دئیے جانے والے ٹکٹوں پر لاہور اور اسلام آباد میں تو لوگ سراپا احتجاج ہیں لیکن یورپی ممالک میں مقیم تارکین وطن بھی اُس تقسیم پر ناراض دکھائی دیتے ہیں، اِن ممالک میں گجرات، منڈی بہاؤ الدین، جہلم، گوجرانوالہ، وزیر آباد، کشمیر اور فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مقیم ہیں جو اپنے اپنے حلقوں میں اُمیدواروں کو ملنے والے ٹکٹوں کی بے انصافی اور پارٹی قائدین کے فیصلوں پر سخت ناراض ہیں، تارکین وطن پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کے کارکنان کو نظر انداز کرکے منظور نظر افراد کو ٹکٹ دینا غلط عمل ہے ۔اُن کا کہنا ہے کہ پارٹیوں کے ساتھ نظریاتی طور پر چلنے والے افراد کو ٹکٹ سے محروم رکھ کر اُن کے ساتھ سراسر زیادتی کی گئی ہے ۔فیصل آباد سے مسلم لیگ قاف اور پھر مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والے غلام رسول ساہی اور اُن کے بھائی افضل ساہی چند دن پہلے تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے2013کے الیکشن میںساہی برادران کا مقابلہ تحریک انصاف کے فواد چیمہ نے کرتے ہوئے 50ہزار ووٹ لئے تھے اس حلقے میں فواد چیمہ کی بجائے ساہی برادران کو ٹکٹ دے دیئے گئے جو فواد چیمہ کے ساتھ زیادتی ہے، اسی طرح مسلم لیگ ن نے بھی فیصل آباد میں اپنے جانثار کارکنان کے ساتھ یہی ناانصافی کی ہے۔ کچھ دن پہلے کیپٹن صفدر کے قریبی دوست مسلم لیگ ن یوتھ ونگ پنجاب کے جنرل سیکرٹری کاشف نواز رندھاوا نے فیصل آباد میں یوتھ ونگ ورکرز کنونشن کرایا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کا کسی بھی شہر میں جلسہ ہوا تو کاشف رندھاوا اُس جلسے کا اسٹیج سیکرٹری بنا، نعرے لگاکر اور جذباتی تقاریر کرنے والا میاں برادران کا یہ سپاہی بھی ایم پی اے کے ٹکٹ سے محروم کر دیا گیا اور اس کی جگہ ایک ایسے اُمیدوار کو ٹکٹ دے دیا گیا جس کا مسلم لیگ ن سے نہ تو کوئی تعلق ہے، نہ ہی جماعت کے لئے کوئی قربانی اور نہ ہی اسکے خاندان کا کوئی فرد مسلم لیگی ہے، کاشف رندھاوا کو میاں برادران کے گھر کا فرد اور مریم نواز کے بھائی ہونے کا جو بھرم تھا وہ بھی توڑ دیا گیا جس پر پنجاب بھر کی یوتھ ونگ سخت اعتراض کر رہی ہے، کاشف رندھاوا 2013کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی طرف سے ایم پی اے کا الیکشن بھی لڑ چکے ہیں، میاں برادران کے مشکل ترین وقت میں پارٹی کو زندہ رکھنے کے لئے کروڑوں روپوں کا فنڈز دینے والے مسلم لیگ ن اوورسیز ونگ کے جنرل سیکرٹری قیصر محمود شیخ جاپان والا کو 2013کے الیکشن میں ٹکٹ سے محروم رکھا گیا ، قیصر شیخ نے چنیوٹ سے آزاد الیکشن لڑا، لیکن بعد میں وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ دوبارہ سے جڑ گئے اور چنیوٹ میں اُن کی جگہ دیئے جانے والے ٹکٹ ہولڈر کے گروپ کو شکست دے کر چیئر مین ضلع کونسل چنیوٹ اپنے گروپ کا بندہ بنوا لیا اور یہ ساری کامیابی پھر سے مسلم لیگ ن کی جھولی میں ڈال دی اس اُمید پر کہ شاید 2018کے الیکشن میں ٹکٹ مل جائے، لیکن ایسا نہ ہوا اور اس بار بھی وہ ٹکٹ سے محروم رہے اور ٹکٹ اُس گروپ کو دے دیا گیا جسے بلدیاتی الیکشن میں شکست ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ ن شعبہ خواتین کی جنرل سیکرٹری اور ویسٹ اینڈ مینجمنٹ فیصل آباد کی چیئرمین شمائلہ چوہدری کی خدمات کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے انہیں ٹکٹ سے محروم رکھا گیا۔ شمائلہ چوہدری میاں نواز شریف اور مریم نواز کی نیب اور سپریم کورٹ میںہر پیشی پر پہنچنے والی پہلی خاتون ہوتی تھیں، ایک دن وہ تاریخ پیشی پر رو رہی تھیں کہ میاں نواز شریف نے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو تو وہ بولیں کہ میںآپ کو عدالتوں میں اپنی بیٹی کے ساتھ دیکھتی ہوں تو رونا آ جاتا ہے، اب ایسی خواتین کو ٹکٹ نہ دینا زیادتی نہیں تو اور کیا ہے، رانا ثنا اللہ چاہتے ہیں کہ شمائلہ چوہدری کو ٹکٹ ملے لیکن ایم پی اے شیخ اعجاز یہ ٹکٹ نصرت کموکا کو دلانا چاہتے ہیں، فیصل آباد میں ٹکٹوں کی تقسیم کا تنازع رانا ثنا اللہ اور چوہدری شیر علی کے اختلاف کا پیش خیمہ تصور کیا جارہا ہے کیونکہ ان دونوں گروپوں کی لڑائی اور پسند نا پسند کی وجہ سے بہت سے حقیقی مسلم لیگی انتخابات کے ٹکٹوں سے محروم رہے ہیں اور یہ تنازع فیصل آباد کہ جہاں مسلم لیگ ن نے کلین سویپ کیا تھا وہاں مسلم لیگ ن کی شکست کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ فیصل آباد شہر کہ جسے مسلم لیگ ن کا قلعہ کہا جاتا ہے اس قلعے کی حفاظت اور تحریک انصاف کی طرف سے فتح کے حملوں کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائدین ٹکٹوں کی تقسیم کے فیصلوں پر نظر ثانی کرکے بہتر اور حقیقی مسلم لیگی اُمیدواروں کی فلک بوس دیوار کھڑی کردیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)